• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد سرور

’’بالِ جبریل‘‘ علامہ اقبال کا مقبول ترین شعری مجموعہ ہے۔مذکورہ کتاب جنوری 1935ءمیں ان کی وفات سے تین سال قبل شائع ہوئی۔اس کتاب میں ان کے خیالات زیادہ واضح اور روشن ہیں۔یہ فطری کمالات کی دلآویز ی اور معجز نمائی سے لبریز

ہے۔حقائق ِ حیات کو شعر کے لباس میں پیش کیا گیا ہے۔بالِ جبریل، اردو میں اقبال کی پہلی تصنیف ہے ،جس میں انہوںنے خودی کے فلسفے کو واضح کیا ہے۔دوسرے بنیادی تصورات مثلاََ عشق، فقر، علم، خرد، حیات اور مومن کی بھی ےشریح کی ہے۔مذکورہ تصنیف میں قدیم اور جدید طرز کی شاعری کا امتزاج پایا جاتاہے۔یہ کتاب تغّزل کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔

مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ

کہ میںہوں محرمِ رازِدردنِ مے خانہ

اقبال نے جن غزلوںیا نظموں میں محبوب ِ حقیقی سے خطاب کیا ہے، وہ رفعتِ تخیل اور سوزو گدارز دونوں کے اعتبار سے اُردوزبان کے لیے سرمایہء افتخار ہیں۔طنز کا رنگ اکثر مقامات پر نمایاں ہے، جس کی بدولت کلام میں دل کشی اور تاثیر پیدا ہوگئی ہے۔

مجھ کو تو سکھا دی ہے،افرنگ نے زندیقی

اس دور کے مُلّا ہیں کیوں ننگِ مسلمانی

فصاحت و بلاغت اس قدر ہے کہ لگتا ہے۔دریا کو کوزے میں بند کردیاہے۔

نہیں فقروسلطنت میں، کوئی امتیاز ایسا

یہ سپہ کی تیغ بازی وہ نگہ کی تیغ بازی

زندگی کے حقائق و معارف کوایسے دل پزیر انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ دل کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں۔

بتوں سے تجھ کو اُمیدیں خدا سے نو میدی

مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے

جلالِ بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جُدا ہودیںسیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اقبال ،فارسی تراکیب اس خوبصورتی سے استعمال کرتے ہیں کہ سلامت اور وانی میں ذرا فرق نہیں آتا

نخچیرِ محبت کا قصہ نہیں طولانی

لطفِ خلشِ پیکاں،آسودگی ِفتراک

بال ِجبریل میں رفعت ِتخیل کی دل کش مثالیں موجود ہیں۔وہ مسلمانوں کو سر بلندی عزم و استقلال،خودداری،عزت ِ نفس اور بلند حوصلگی کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔

صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم

کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کاحساب

بالِ جبریل کا عنوان

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرےکا جگر

مردِناداں پر کلامِ نرم ونازک بے اثر

’’کسی شخص کا اپنے عقلی استدلال کے زور سے،کسی بیوقوف کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرنا ایسا ہی بے سود ہے،جیسا کسی شخص کا مست ہاتھی کوکنول کے ڈنٹھل سے روکنایا پھول کی پتی سے ہیرے کو کاٹنا ُ‘‘

اقبال نے اس شعر کےپردے مین اس حقیقت کااظہار کیا ہے کہ اگر چہ بالِ جبریل میں بیش قیمت علمی نکتےبیان کیے گئے ہیں ،لیکن جولوگ عقل فہم سے عاری ہیں ،ان کو اس کتاب سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ذیل میں علامہ اقبال کی ایک غزل کا مفہوم بیان کیا جارہا ہے، جو بالِ جبریل سے لی گئی ہے۔

متاع ِ بے بہا ہے درد وسوزِآرزومندی

مقامِ بندگی دے کرنہ لوں شانِ خداوندی

(عشق میں محبوب کی آرزو کا درد اور سوز ایک متاعِ بے بہا اور ایک قیمتی سرمایہ ہے۔اگر کوئی مجھ سے کہے کہ میں بندگی کاذوق وشوق چھوڑکر آقائی کی بے نیازی لےلوں تو میں یہ سودا ہرگز قبول نہ کروں گا۔اس شعر میں اقبال نے عشق کی اہمیت اور قدرو قیمت واضح کی ہے۔یہ محض شاعرانہ اندازِ بیان ہے، جسے شاعر نے رنگ ِنیازکی اہمیت زہن نشین کرنے کی غرض سے اختیار کیا ہے۔یہاں مقامِ ِبندگی سے ’’شانِ نیاز‘‘اور شانِ خداوندی سے ’’مرتبہَ ناز ‘‘مراد ہے۔واضح رہے کہ شانِ خداوندی‘‘سے شانِ الوہیت یاخالقیت مراد نہیں ہے۔)

ترے آزاد بندوں کی ،نہ یہ دنیا،نہ وہ دنیا

یہاں مرنے کی پابندی،وہاں جینے کی پابندی

(اس شعر میں اقبال نے آزادبندوں کی صفت بیان کی ہے۔کلامِ اقبال میں ’’آزاد‘‘ایک اصطلاح ہے ،جس سے مراد وہ شخص ہے، جو اللہ سے خالص محبت کرتا ہواور کسی صلے یا جزا کا خواہاںنہ ہو۔اقبال کہتے ہیں کہ اے اللہ !تیرے آزاد بندے تیری محبت کے قید میںہیں اور آزاد بندے کوئی پابندی اور قید قبول نہیں کرسکتے ۔اے خدا !تیرے عشاق کے لیے یہ دنیا رہنے کے قابل ہے نہ آگے والی دنیا ،اس لیے کہ یہاں مرنے کی پابندی ہے اور اگلی دنیا میں جینے کی پابندی ہے آزاد بندے دونوں جگہ طبیعت کے خلاف پابندیوںمیں جکڑے ہوئے ہیں)

حجاب اکسیر ہے آوارئہ کوئے محبت کو

مری آتش کو بھڑکاتی ہے تیری دیر پیوندی

(اے خدا جب میں غور کرتا ہوں تو تیری دیر پیوندی(دیر میں مانوس ہونا)مجھے عاشق کے حق میں بہت مفید لگتی ہےکیونکہ توجس قدر مجھ سے

اجتناب کرتا ہے، اسی قدر تجھ سے ملنے کی آرزو پیدا ہوتی ہے۔جو عاشق کو چہء محت میں سرگرداںہو،محبوب کا پردے میں رہنا اس کے لیےاکسیر ہے، کیونکہ محبوب کا جلوہ دیر سے نظر آئے تو آتش ِعشق بھڑکتی رہتی ہے۔گویا فراقِ محبوب آوارئہ کوئے محبت کے لیے اکسیر ہے)

گزر اوقات کرلیتا ہے یہ کوو بیاباںمیں

کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کار ِآشیاں بندی

(شاہین پرندوں کا درویش سمجھاجاتا ہے اورآشیاںبندی کو موجب ِذلّت سمجھتا ہے۔پہاڑوں اور جنگلوں میں زندگی بسر کرنا اس کے لیے چنداں مشکل نہیں)۔

جو شخص اپنے اندر شانِ درویشی پیدا کرلیتا ہے ،وہ مال و دولت ِدنیا سے کوئی غرض نہیں رکھتا ،غرض یہ ہے کہ عالی ہمت اور بلند حوصلہ افراد کو دنیوی اسباب سے غرض نہیں ہونی چاہیے ۔درویشِ خدامست کے لیے مال و دولتِ دنیا کچھ معنی نہیں رکھتی ،وہ سادہ زندگی بسر کرتا ہے اور اپنا دل اللہ سے لگائے رکھتا ہے۔بقول اقبال۔

پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں

کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ

مری مشّا طگی کی کیا ضرورت، حسنِ معانی کو

کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی

(حسنِ معانی کو میری مشا طگی (زیبائش و آرائش )کی ضرورت نہیں ہے۔گل ولالہ اپنی زیبائش کے لیے کسی انسانی ہاتھ کا محتاج نہیں،فطرت خود بخود اس کی آرائش کرتی ہے ۔اسی طرح حقائق و معارف اپنی اثر آفرینی کے لیےکسی کوشش کے محتاج نہیں، سچی بات خود دلوں میں گھر کرلیتی ہے۔مطلب یہ ہے کہ اچھی اور دل نشیں باتوں کوکسی آراستگی کی ضرورت نہیں ہوتی ،وہ خود بخود دلوں میں اُتر جاتی ہیں بقول اقبال۔

اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

تازہ ترین