• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسیہ بی بی کی رہائی کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ سنتے ہی مجھے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے ساتھ دسمبر دو ہزار دس میں کیا جانے والا سفر یاد آگیا جو انھوں نے میرے ساتھ سری لنکا کی ائیرلائن میں کولمبو تک کیا تھا ۔سلمان تاثیر مرحوم کا وہ خفیہ دورہ تھا اور اتفاق سے وہ بزنس کلاس میں میری برابر والی سیٹ پر ہی براجمان ہوئے ، نہ انھوں نے میرے صحافی ہونے کے حوالے سے دریافت کیا اور نہ ہی میں نے انھیں اپنے صحافتی تعلق کے حوالے سے بتایا ۔صرف اتنا ہی کافی تھا کہ وہ گورنر پنجاب تھے اور میں جاپان میں مقیم ایک اوورسیز پاکستانی جو پاکستان میں تعطیلات گزار کر واپس جاپان روانہ ہورہا تھا ۔ پاکستان کے حوالے سے گفتگو کے دوران ہی آسیہ بی بی کا کیس بھی زیر موضوع آیا جس میں اس وقت سلمان تاثیر بہت زیادہ دلچسپی لے رہے تھے انھوں نے ان ہی دنوں آسیہ بی بی کے ساتھ جیل میں پریس کانفرنس بھی کی تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ آسیہ بی بی بے گنا ہ ہے اور اسے ایک ایسے کیس میں پھنسایا گیا ہے جس پر پاکستانی قوم بہت زیادہ حساس ہے۔ سلمان تاثیر سمجھتے تھے کہ آسیہ بی بی کی رہائی ہی اس کے ساتھ انصاف ہے اور اس وقت وہ بہت پر امیدتھےکہ جلد ہی آسیہ بی بی کو انصاف رہائی کی صورت میں مل جائے گا۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ آسیہ بی بی کے حوالے سے پاکستانی قوم بہت حساس ہے آپ کو لگتا ہے کہ آپ اس مسئلے کو حل کرلیں گے تو انھوں نے مسکرا کریہی کہا تھا ان شاء اللہ آسیہ بی بی کے ساتھ انصاف ہوگا اور پھر ہمارا موضوع گفتگو تبدیل ہوگیا ۔ چند دنوں بعد سلمان تاثیر کو ان کے ہی گن مین ممتاز قادری نے فائرنگ کرکے قتل کردیا اور پاکستانی قوم کے ایک طبقے کے لیے وہ ہیرو کی شکل اختیار کرگیا لیکن حکومت وقت نے آسیہ بی بی سے قبل ممتاز قادری کوتختہ دار تک پہنچادیا ۔ سلمان تاثیر کی وفات کے آٹھ سال بعداب سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو بے قصور قرار دے کر رہا کرنے کے احکامات تو جاری کردیئے لیکن پاکستانی قوم نے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھے بغیر فیصلہ سنا دیا کہ آسیہ بی بی کو غیر ملکی دبائو پر بے قصور قرار دیا گیا ہے اور اس کے بعد عاشقان رسول ﷺ نے عاشقان رسول ﷺ کی املا ک کو جلایا ، اپنے ہی جیسے ناموس رسالت کے لیے مرمٹنے والے لوگوں کی دکانوں کو لوٹا ، ان کی موٹرسائیکلوں ، گاڑیوں کو جلایا گیا ، ان کے ٹھیلوں کو لوٹا گیا اور پھر جلایا گیا ۔ غرض جو لوگ بے چارے سپریم کورٹ کے فیصلے کی حمایت کررہے تھے ان کو بھی نقصان پہنچایا گیا اور جو لوگ سپریم کورٹ کے فیصلے پر غم زدہ تھے ان کو بھی نقصان پہنچایا گیا ۔ سوشل میڈیا پر وائر ل ہونے والی بہت سی ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چند نوجوانوں کا گروہ ڈنڈے اٹھائے چلتی بسوں کو روک کر ان کے شیشے توڑتے نظر آرہاہے ۔ بعض اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ کچھ لوگوں نے گروہ بنا کر دکانوں کے تالے توڑکرسامان اور نقدی لوٹ لی ۔ایک بچے کے کیلے کا ٹھیلہ لوٹنے کی ویڈیوتو وائرل ہوچکی ہے کہ کس طرح ہجوم نے ٹھیلے سے کیلے لوٹ لیے اور بچہ روتا ہوا وہاں سے اپنی جان بچا کرنکلا ۔ ہماری قوم کا کس طرح کا عشق ہے ، یہ کس طرح اپنا غصہ نکال رہے ہیں ، اپنے لوگوں کو لوٹ کر ، اپنے ہی لوگوں کی املاک کو جلا کر ، ان کو زخمی کرکے یہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ ایک چھوٹا سا واقعہ صرف پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں دیکھا جاتا ہے اور پاکستانی قوم صرف پاکستانی قوم نہیں کہلاتی بلکہ ایک مسلمان قوم کہلاتی ہے اور ہمارا ہر عمل صرف ہماری ترجمانی نہیں کرتا بلکہ ہمار ے مذہب کی ترجمانی بھی کرتا ہے اپنے اعمال سے ہم دنیا کو کیا تصویر پیش کررہے ہیں۔ہمارے نبی اکرمﷺ اپنے اوپر کچرا پھینکنے والی خاتون کی بیماری کا سن کر اس کی خیریت دریافت کرنے تشریف لے گئے تھے ۔فتح مکہ کے وقت تمام تر طاقت کے باوجود کفار کو معافی دے دی گئی تھی غرض اسلام کی بنیادی تعلیمات میں امن ، محبت اورحقوق العباد شامل ہیں لیکن ہم دین اسلام کی جو شکل پیش کررہے ہیں کیا وہ اسلام کی خدمت ہے ؟ اس کا جواب تو ہر با شعور شخص دے سکتا ہے لیکن اسلام کے نام پر لوگوں سے اپنی دشمنیا ں نکالنا ، ناموس رسالت ﷺ کے نام پر اپنا احساس محرومی اور احساس کمتری نکالنا ، لوگوں کو نقصان پہنچانا بلاشبہ اسلام کی خدمت نہیں کہی جاسکتی، جبکہ حکومت وقت پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قانون کی عملداری قائم کرنے کے لیے اقدامات کرے ۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو ایسی ریاست میں تبدیل کیا جائے جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور قانون کسی کے گھر کی لونڈی نہ ہو جو صرف اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جائے بلکہ قانون اور انصاف ایسا ہو جو نظر بھی آئے ورنہ نقصان صرف اور صرف پاکستان کا ہوگا ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین