خلائی مخلوق کی کوئی حقیقت ہے بھی یا نہیں ۔ یہ بحث اُس وقت تک چلتی رہے گی جب تک کہ کوئی خلائی مخلوق ہاتھ نہ آجائے۔ پچھلے سال ہمارے نظام شمسی سے ایک پراسرار مادے کا گزر ہوا جس کے بارے میں اب ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین فلکیات کہہ رہے ہیں کہ وہ ممکنہ طور پر کسی غیرمرئی مخلوق کا خلائی جہاز ہو سکتا ہے جو زمین کے بارے میں تفتیش کرنے آیا تھا۔
لیکن دیگر ماہرین اس رائے سے متفق نظر نہیں آتے۔ یہ پراسرار مادہ اکتوبر 2017 میں امریکی ریاست ہوائی میں نصب ٹیلی اسکوپ کی مدد سے دریافت ہوا۔ تب سے دنیا بھر کے سائنسدان اس کی غیر معمولی وضع اور نقطہ آغاز کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔
پہلے اسے دُم دار ستارہ کہا گیا، پھر سیارچہ قرار دیا گیا، لیکن وہ پراسرار شے ان دونوں میں سے کسی بھی تعریف پر پوری نہ اتری ، تو اسے اپنی قسم کا پہلا بین الفلکی مادہ قرار دیا گیا۔
اب ہاروڑد اسمتھ سونیئن سینٹر فار ا سٹرو فزکس کی جانب سے یہ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ لمبا اور گہرا سرخ رنگ کا مادہ ایک مکمل آپریشنل خلائی جہاز ہو سکتا ہے جسے کسی غیر انسانی تہذیب نے زمین کے بارے میں معلومات لینے بھیجا ہو۔
سائنسدانوں نے یہ رائے مادے کی حد سے زیادہ رفتار کی بنیاد پر قائم کی ہے جو ایک لاکھ چھیانوے ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہمارے نظام شمسی سے گزرا۔ تاہم انہیں سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ پراسرار مادہ تکنیکی طور پر کسی انتہائی جدید مشین کا ٹوٹا ہوا حصہ بھی ہو سکتا ہے۔