• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا یہ انکشاف اہل وطن کے لیے یقینا ًایک بڑی خوش خبری اور نہایت قابل اطمینان امر ہے کہ موجودہ حکومت کو تین ماہ پہلے اقتدار سنبھالنے کے بعد معیشت کے محاذ پر مالیاتی ادائیگیوں کے بحران کی شکل میں جس مشکل کا سامنا تھا، ملک اب اس سے نکل چکا ہے۔ ان کے مطابق توازن ادائیگی میں بارہ ارب ڈالر کا فرق تھا جو سعودی عرب سے چھ ارب ڈالر کے علاوہ چین سے ملنے والی رقم کے باعث ختم ہوگیا ہے جبکہ اس بات کوانہوں نے فی الحال صیغہ راز میں رکھنا مناسب سمجھا کہ چین سے کس قدر مالی تعاون ملا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے ہمراہ دورئہ چین سے واپسی کے بعد منگل کو اسلام آباد میںمشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔وزیر خزانہ نے مزید بتایا کہ ہم نے نہ صرف پرانے معاہدوں پر نظرثانی کی ہے بلکہ نئے معاہدوں پر بھی دستخط کیے ہیں‘سی پیک سے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنے کابھی موقع ملا ہے‘ ہماری توجہ طویل المیعاد استحکام پر مرکوز ہے‘مستقل توازن کیلئے برآمدات میں اضافہ ضروری ہے۔اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا کے نمائندوں کو سمجھایا کہ ہر دورے پر صرف یہ سوال نہیں ہونا چاہیے کہ ملا کیا ہے؟ دوروں میں کچھ اور بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کے دوئہ چین کو انتہائی کامیاب قرار دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دورے سے پاک چین اسٹرٹیجک تعلقات کو مزید مستحکم اور اقتصادی پارٹنرشپ میں تبدیل کرنے کا موقع ملا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین پندرہ معاہدے ہوئے‘ قیدیوں کے تبادلے کا فیصلہ بھی کیا گیا ۔ انہوں نے بتایا کہ چین کے تعاون سے پاکستانی برآمدات کو دوگناکیاجائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ چینی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران غربت میں کمی، کرپشن کی روک تھام، پیداواری، زرعی اور برآمدی قوت میں اضافہ، پاکستان میں صنعتوں اور سرمایہ کاری کا فروغ، جوائنٹ وینچرز اور روزگار کے مواقع میں اضافے سے متعلق امور پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا جبکہ بھارت کے ساتھ بامعنی مذاکرات، افغانستان میں امن و استحکام، انسداد دہشت گردی، سیکورٹی، دفاع اور کثیر الجہتی فورمز پرتعاون کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی۔ عالمی سطح پر سیاسی، معاشی اور تزویراتی صورت حال میں تیز رفتار تبدیلیوں نے چین اور پاکستان کے تاریخی تعلقات میں مزید قربت اور گہرائی کو دونوں ملکوں کی قومی ضرورت بنادیا ہے جس میں حکومتوں کے آنے جانے سے کوئی بڑا فرق واقع نہیں ہوسکتا۔ اس تناظر میں پاکستانی قوم کے لیے یہ اطلاع یقینا ًاطمینان بخش ہے کہ سی پیک کے ضمن میں چینی قیادت کو ہماری موجودہ حکومت کے حوالے سے جو غلط فہمیاں ہوگئی تھیں، ان کا ازالہ کردیا گیا ہے ۔ جو حلقے وزیر اعظم عمران خان کے دورے کی کامیابی کو محض کسی بڑے مالی تعاون کے فوری اعلان کے پیمانے سے ناپ رہے ہیں، ان کی سوچ درست نظر نہیں آتی کیونکہ چین نے ایک ذریعے کے مطابق اگرچہ مالی تعاون کی شکل میں دو ارب ڈالر ہی دینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان سے برآمدات میں بھاری اضافے کی یقین دہانی کراکے پاکستانی معیشت کو پائیدار بنیادوں پر مستحکم کرنے کا راستہ بھی کھولا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے صنعت و تجارت عبدالرزاق داؤد کے مطابق چین نے پاکستان سے شکر اور چاول بڑی مقدار میں منگوانے کے علاوہ پاکستانی مصنوعات کی درآمدات تین گنا تک بڑھانے کا یقین دلایا ہے بشرطیکہ وہ مطلوبہ معیار کے مطابق تیار کی جائیں۔ بیجنگ اور اسلام آباد کے درمیان پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے طے پانے والی یہ حکمت عملی بلاشبہ درست سمت میں اہم پیش رفت ہے اور اس کے بعد اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم چین سے ٹیکنالوجی کا بہتر استعمال اور کم لاگت سے بہتر معیار کی اشیاء کی تیاری کا ہنر بھی سیکھیں۔ زراعت کے جدید طریقے اپنا کر اپنی زرعی پیداوار کی مقدار اور معیار بھی بڑھائیں۔ مستقل معاشی استحکام کے لئے جو تدابیر بھی ضروری ہیں، ان سب کا اختیار کیا جانا وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ امید ہے کہ ملک کے نئے معاشی حکمت کار اس راستے پر تیزی سے پیش قدمی کریں گے۔

تازہ ترین