• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نو سر بازوں کے جھانسے میں آکر غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے ایسے پاکستانی جو کسی نہ کسی طرح بچ بچا کر سو مشکلات سے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر وہاں پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن قانون کے شکنجے میں آکر وہاں کی جیلوں میں سزائیں کاٹنے پر مجبور ہیں ان کی ایک بڑی تعداد جاپان کی جیلوں اور امیگریشن کے حراستی مراکز میں اپنی سزا مکمل کر چکنے کے بعد بھی اس لئے قید ہے کہ ان کے پاسپورٹ اور دیگر کاغذات زائد المیعاد ہو چکے ہیں اور وطن واپسی کے لئے پاکستانی سفارت خانہ بھی ان کی فوری مدد سے قاصر ہے کیونکہ آئوٹ پاس جاری کرنے کےلئے سفارت خانے کو وزارت خارجہ اور نادرا سے تصدیق کرانا پڑتی ہے۔ ایسی ہی ایک اور رپورٹ گزشتہ دنوں تھائی لینڈ کی مختلف جیلوں میں قید سیکڑوں پاکستانیوں کے حوالے سے بھی منظر عام پر آچکی ہے جو اپنے سفارتخانے کی جانب سے قانونی امداد کے منتظر ہیں اور طویل سزائوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 8597 پاکستانی دنیا کی مختلف جیلوں میں مختلف کیسوں کے تحت قید ہیں، ان میں سے 96فیصد غیرقانونی تارکین وطن ہیں جن کا مقدمہ لڑنے اور انہیں بازیاب کرانے کے لئے وکیل دستیاب نہیں جبکہ بعض ممالک میں وہاں کی مقامی زبان کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی پہلی نشری تقریر میں اس بات کا اظہار بھی کیا تھا، یہ ایک تشویشناک معاملہ ہے ہزاروں کی تعداد میں نوجوان بھی نو سر بازوں کے جھانسے میں آکر تحصیل علم کے نام سے بیرون ملک گئے ہوئے ہیں اور متعدد وہاں جانے کی تیاریوں میں ہیں۔ یہ وطن عزیز کی عزت و آبرو کا معاملہ ہے، پاکستانی حکام کو ان قیدیوں کی خبر گیری کرنی چاہئے اور قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے ان کی رہائی اور وطن واپسی کا انتظام کرنا چاہئے۔مزید برآں ملک کے اندر ان لٹیروںکے گرد گھیرا تنگ کیا جائے جو سادہ لوح افراد کو ورغلا کر بیرون ملک بھیجتے ہیں۔

تازہ ترین