• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

مولانا سمیع الحق کی شہادت: افغان امن مذاکرات کو بڑا دھچکا

گوھر علی خان, پشاور

وفاقی حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان کامیاب مذاکرات اور اس کے نتیجے میں ہونیوالے معاہدے کے بعد ملک کے دیگر شہروں کی طرح پشاور اور صوبے کے دوسرے اضلاع میں بھی عدالت سے توہین رسالت کے حوالے سے ایک مقدمے میں بری ہونیوالی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کیخلاف جاری دھرنے ‘ احتجاج اور ہنگامے تھم چکے ہیں ‘عوام نے قدرے سکھ کا سانس لے لیا ‘ زندگی بحالی اور صورتحال معمول پر آچکی ہے مگر ماضی کی طرح اس بار مرتبہ بھی مذکورہ دھرنے، احتجاج اور ہنگامے اپنے پیچھے تباہی وبربادی کی ایک لمبی داستان چھوڑگئے ‘ غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق تین روزہ دھرنوں ، احتجاج اورہنگاموںکے دوران گھیرائو ،جلائو اور لوٹ مار کے باعث ملک بھر میں سرکاری اور نجی املاک کو ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا۔حکومت نے اس کے ذمہ داروں کا تعین کرنے اور انہیں قانون کی گرفت میں لانے کا دعویٰ کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی حکومت اس تباہی کے ذمے داروں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی یا ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی یہ لوگ سیاسی مصلحت کی بناء پر بچ نکلنے میں کامیا ب ہوجائینگے ۔ عدالت سے آسیہ مسیح کی بریت کا فیصلہ آنے اور اس کی ممکنہ بریت کی صورت میں تحریک لبیک اور دیگر مذہبی جماعتوں کی جانب سے اس قسم کا ردعمل اور احتجاج ایک فطری عمل تھا۔ مسئلہ کوئی بھی ہو اس کیخلاف آواز اٹھانا اور پرامن احتجاج کرنا ہر شہری اور طبقے کا بنیادی حق ہے کیونکہ یہ جمہوری نظام کاحصہ ہے جس کا مقصد حکمرانوں تک اپنے جذ بات پہنچانا ہوتا ہے ۔اس قسم کے احتجاج نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں کئے جاتے ہیں مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں اپنے جذبات کا اظہا ر کرنے اور احتجاج کاطریقہ کچھ مختلف ہے‘ یہاں پرامن طریقے سے احتجاج اور اپنے جذ بات کا اظہار کرنے کیلئے صرف جلسے‘ جلوس یا دھرنے پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ یہاں احتجاج کیساتھ اپنے جذبات کا اظہار سرکاری اور شہری املاک کو نقصان پہنچا کر کیا جاتا ہے ۔

ادھر جس رات حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان کامیاب مذاکرات ہو رہے تھے اسی رات راولپنڈی میں جے یو آئی (س) کے سربراہ اور جید عالم دین مولانا سمیع الحق کو نامعلوم افراد نے ان کے گھر واقع راولپنڈی میں چھریوں کے وار کرکے شہید کر دیا ‘ کہا جاتا ہے کہ ان پر حملے کے وقت وہ اپنے گھر میں اکیلے تھے اور ان کے ملازم گھر پر موجودنہیں تھے۔ قانون نافذ کر نیوالے اداروں نے اس سلسلے میں مقدمہ درج کرکے مختلف زاویوں سے تحقیقات شروع کر دی ہیں تاہم جہاد افغانستان اور اس کے بعد طالبان حکومت کے قیام کے حوالے سے شہید مولانا سمیع الحق کی شخصیت ایک تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے 81سالہ مولانا سمیع الحق ’’دی فادر آف طالبان‘‘ کے نام سے بھی جانے جاتے تھے‘ وہ صرف سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ ہی نہیں بلکہ دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین بھی تھے اور عمر کے اس حصے میں بھی خاصے متحرک اور فعال تھے لیکن ان کی قدامت پسند اسلامی سیاست اور شہرت کا اہم ترین پہلو ان کی اکوڑہ خٹک میں قائم درسگاہ دارالعلوم حقانیہ تھی‘ افغانستان میں روسی جارحیت کیخلاف طویل جدوجہد میں اس مدرسے نے اہم کردار ادا کیا تھا ‘ افغانستان کی صورتحال میں ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ افغانستان کے اعلیٰ حکام ابھی تک ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے تھے بلکہ گزشتہ دنوں کابل سے آنیوالے افغان علماء کے ایک وفد نے بھی ان سے ملاقات کی تھی جبکہ بعض اطلاعات کے مطابق بعض حلقوں نے مولانا سمیع الحق سے افغان حکومت ا ور طالبان شدت پسندوں کے درمیان جاری رابطوں اور امن کوششوں میں کردار ادا کرنے کی بھی درخواست کی تھی تاہم مولانا سمیع الحق کے قریبی حلقوں نے اس بات کی تصدیق نہیں کی۔مولانا سمیع الحق کو بعد ازاں ان کے آبائی گائوں اکوڑہ خٹک میں سپرد خاک کر دیاگیا‘ ان کے جنازے میں گورنر‘ وزیراعلیٰ سمیت کئی اہم سرکاری و سیاسی شخصیات نے شرکت کی جبکہ جے یوآئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بعض مبینہ سکیورٹی خدشات کی بناء پر جنازے میں شرکت نہیں کی ۔حکومت اور سیکورٹی اداروں کو چاہیے کہ وہ مولانا سمیع الحق کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انہیں انجام تک پہنچائے ۔ دریں اثناء کرپٹ افرا د کیخلاف متحرک قومی احتساب بیورو خیبرپختونخوا نے قومی خزانہ لوٹنے والوں کو قانون کی گرفت میں لانے اور ان سے لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لینے کیلئے اربوں روپے کی مبینہ کرپشن میں ملوث بعض اعلیٰ شخصیات کی فہرست تیار کی ہے‘ ذرائع نے اس حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ فہرست میں سابق وزراء اعلیٰ،بعض وفاقی و صوبائی وزراء ‘ مشیر‘ بیوروکریٹ اور منتخب بلدیاتی نمائندے شامل ہیں جن کیخلاف کرپشن کے الزامات کے تحت تحقیقات آخری مراحل میں ہیں جس کے بعد کئی اہم شخصیات کی گرفتاری کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے‘ اس کے علاوہ حال ہی میں قومی احتساب بیورو کی جانب سے ایک فہرست بھی سامنے آئی ہے جس میں ملک بھر میں مختلف شخصیات کے نام شامل ہیں جن میں کچھ کیخلاف ریفرنسز دائر کئے جاچکے ہیں جبکہ بعض کیخلاف تحقیقات جاری ہیں۔ مذکورہ فہرست میں خیبرپختونخوا کے دو سابق وزراء اعلیٰ‘ ایک سابق وفاقی وزیر‘دو سابق چیف سیکرٹری‘ ایک سابق وفاقی سیکرٹری ‘ ایک سابق صوبائی وزیر‘ سابق افغان کمشنر اور سابق سیکرٹری کے نام شامل ہیں ‘جہاں تک کرپشن کیخلاف تحریک انصاف حکومت کے دعوئوں کا تعلق ہے تو اس کی مثال صوبے کے عوام ان کی گزشتہ صوبائی حکومت دے چکی ہے جس میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی کرپشن میں ملوث بڑی بڑی مگر مچھوں اورکرپٹ لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنے اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے کئے بلکہ اس کیلئے قومی احتساب بیورو کے ہوتے ہوئے صوبائی سطح پر احتساب کمیشن تک قائم کیاگیا مگر پانچ سال گزرنے کے بعد نہ تو کوئی بڑی مچھلی کو جیل میں ڈالا گیا بلکہ گنتی کے جن مخالفین پر اربوں کی کرپشن کے الزامات لگاکر فارغ کیا ان میں کسی کیخلاف ایک پیسے کی کرپشن تک ثابت نہ کرسکے اور صرف یہی نہیں بلکہ جب احتساب کمیشن کے ہاتھ اس وقت کے حکمرانو ں اور افسر شاہی کے گریبان تک پہنچے تو بیوروکریسی کی ایماء پر احتساب کمیشن ہی کو ختم کر دیا گیا تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری ۔

تازہ ترین
تازہ ترین