• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

نواز شریف احتجاجی تحریک چلانے یا حکومت گرانے کے موڈ میں نہیں

گزشتہ ہفتہ انتہائی ہنگامہ خیز اور افسوسناک گزرا، سپریم کورٹ کی جانب سے توہین رسالت کے جرم میں موت کی سزا پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو بری کردیا گیا، س سے پہلے دو ماتحت عدالتوں اور ہائیکورٹ نے اسی خاتون کو موت کی سزا سنائی تھی بہت ساری تنظیموں نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ لاہور میں جگہ جگہ دھرنوں، رکاوٹوں اور گھیرائو جلائو کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ تحریک لبیک اس احتجاج میں پیش پیش رہی۔ لاہور آنے جانے والے راستے بند کردیئے گئے۔ لٹھ بردار مظاہرین کا اتنا دبدبہ اور دہشت تھی کہ اگر وہ کسی جگہ تعداد میں کم بھی تھے لیکن کسی کی جرات نہ تھی کہ وہ اس راستے سے گزر جائے۔ بہرحال جدید متمول علاقے ان معاملات اور ہنگاموں سے دور ہی رہے۔ تاہم شہر کی پوری ٹریفک متاثر ہوئی، کاروبار زندگی منجمد ہو کر رہ گیا، بڑی چھوٹی مارکیٹیں اس تمام احتجاج کے موقع پر بند رہیں، اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ مسلمان مسلمان کے ہاتھوں تنگ اور پریشان ہوا۔ حکومت بے بس اور خوفزدہ نظر آئی، سیاسی جماعتوں نے محتاط رویہ اپنایا، پیپلز پارٹی تو ایک لبرل جماعت ہونے کے ناطے سپریم کورٹ کے فیصلے سے مطمئن تھی۔ یاد رہے کہ یہ وہی آسیہ بی بی ہیں جن سے ملاقات اور ہمدردی کی وجہ سے اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کو ان کے ایک گارڈ نے ہلاک کردیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا نہ جلتی پر تیل ڈالا نہ تحریک لبیک کا کھل کر ساتھ دیا۔ البتہ حرمت رسولؐ کا موقف ضرور برقرار رکھا۔

البتہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ میڈیا کے ذریعے تحریک انصاف کو یاد دلاتے رہے کہ 2017ء میں کچھ ایسے ہی موقع اور معاملے پر کس طرح انہوں نے تحریک لبیک کا ساتھ دیا تھا اس وقت تحریک ختم نبوت کے معاملے پر خادم رضوی کے شانہ بشانہ کھڑی تھی اس وقت قدرے مختلف ماحول تھا جو قوتیں اور ادارے اس وقت درپردہ یا کھل کر حکومت کے خلاف چل رہی تھی آج تحریک انصاف کی حکومت کی مددگار اور ہمنوا تھی اس وقت میڈیا ختم نبوت کے معاملے پر مسلم لیگی حکومت کو خوب رگڑ رہا تھا آج سنسرجیسی صورتحال تھی موبائل سروس بند کردیں گئی تھی۔ آج ڈنڈا بردار کے احتجاج کوکسی اور رنگ میں دکھایا جارہا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کا قوم سے خطاب بھی کافی متنازعہ رہا، تحریک لبیک نے ججوں اور آرمی چیف اور فوج کی بغاوت کے حوالے سے جو کہا وہ عمران خان نے بڑی معصومیت سے پوری قوم کو بتا دیا، البتہ جو خادم رضوی صاحب نے ان کے یعنی عمران خان کے بارے میں کہا وہ اپنی تقریر میں چھپا گئے۔

بتانا یہ مقصود ہے کہ ایک ہی جیسے واقعہ اور عمل میں دو مختلف رویے اپنائے گئے۔ بتانا یہ بھی مقصود ہے کہ مذہب جیسے نازک معاملے پر سیاست نہیں کرنا چاہئے۔ ایسی تنظیموں سے حکومت کو کمزور کرنے یا اکھاڑ پچھاڑ کا کام نہیں لینا چاہئے، اس سے وقتی طور پر تو فائدہ ہوسکتا ہے لیکن ملک کے لئے مستقبل میں ایسی تنظیموں کی حمایت میں نقصان ہی نقصان ہے۔ مذہبی اور لسانی تنظیموں کو مصنوعی طریقوں سے پروان چڑھا کر دیرپا نقصان کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ مسلم لیگ (ن) کا محتاط رویے کا سبب اور بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ تحریک لبیک والوں نے ججوں اور فوج پر براہ راست حملہ کیا تھا اس لئے مسلم لیگ (ن) اس وقت ان اداروں سے ٹکرانے کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔ پہلے ہی بہت سے معاملات ان دونوں کے ہاتھوں میں ہیں ، بہرحال تحریک انصاف کی حکومت معاہدہ کے بعد مدافعت کی پالیسی اپنانے کے ساتھ ساتھ پھر یو ٹرن لیتے ہوئے مزاحمت اور ٹکرائو کی پالیسی پر گامزن ہوگئی ہے، نہ معلوم یہ اس کی اپنی پالیسی ہے کہ اس کو مجبور کیا گیا ہے تحریک لبیک والوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہے۔ تحریک لبیک والوں کو پہلی بار ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اب دوبارہ سے اس کا احتجاج کرنا مشکل کام ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے موقع سے فائدہ اٹھاتے سوشل میڈیا پر بعض پابندیاں لگا دی ہیں۔ یہ سوشل میڈیا ہی تھا جس نے انتخابات سے قبل اس کو اٹھانے میں بے حد مدد کی تھی اور ان دنوں سیاسی لحاظ سے اس کا ناطقہ بند کررکھا تھا اسی طرح تحریک نے موقع سے خوب فائدہ اٹھایا۔

ادھر تحریک انصاف کی حکومت اپنے پہلے سو دن کی جانب رواں دواں پہلے آدھے یعنی پچاس دن تو کچھ اچھے نہ گزرے، کچھ اسکینڈل کچھ مہنگائی اور قرضوں کے حصول کے حوالے سے یو ٹرن میں گزرے، اب پچاس دن گزرنے کے سات ہی بجلی پٹرول بھی مہنگا ہوگیا، اس فیصلے سے تمام اشیائے خورونوش مہنگی ہوگئی، ضمنی انتخاب سے تو یہ ہی ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کی بڑی تعداد تحریک انصاف کی اس ’’غریب کش‘‘ پالیسیوں سے نالاں ہے، مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بھی زبوں حال اور تباہ حال معیشت کا سامنا تھا لیکن اس کا انداز اور بیانیہ مختلف تھا اس نے تعمیر و ترقی پروگراموں کے اجراء پر زور رکھا اور قوم کو امید افزا اور حوصلہ افزا پیغام دیتے رہے، نوازشریف ابھی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ شہباز شریف قید وبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔ مریم نواز صدمے میں ہیں۔

ویسے بھی نوازشریف اور مریم نواز بلاوجہ ’’آبیل مجھے مار‘‘ کی پالیسی سے دور ہی رہنا چاہتے ہیں۔ ابھی تحریک احتجاج اور حکومت کو گرانے کا وقت نہیں آیا کسی بھی منتخب حکومت کے لئے تین چار ماہ کا عرصہ اس کی کارکردگی جانچنے کے لئے بہت کم ہوتا ہے ابھی تو ’’تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو‘‘ کے مصداق اس مقولے پرعمل پیرا ہونا ہوگا۔ نوازشریف نے ایک طویل مدت کے بعد پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کیا ان کے خطاب میں یہ بات ظاہر ہورہی تھی کہ ابھی حکومت ہٹانے گرانے یا اس کو کسی اور طریقے سے خراب کرنے کا وقت نہیں آیا کیونکہ قبل از وقت کوئی معرکہ آرائی الٹا نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔ انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نیب کے آمرانہ قوانین کو ختم نہ کیا۔ اب معلوم ہوا ہے کہ تحریک انصاف اور پارلیمنٹ کی دوسری جماعتوں کے درمیان بیک ڈور مذاکرات چل رہے ہیں تاکہ نیب کے متنازعہ قوانین ختم کئے جاسکیں۔

ادھر پنجاب حکومت کی کارکردگی بھی معیشت کی بدحالی اور خراب اقتصادی حالت کے شوروغوغا کی نذر ہوتی دکھائی دیتی ہے تعمیر و ترقیاتی منصوبوں کے بجائے موٹر سائیکلوں کے چالان، ہیلمٹ کی پابندی، ڈیمز منصوبوں کیلئے سرکاری ملازمین سے عطیات جمع کرنے پر زیادہ زور ہے۔ پنجاب حکومت کلی طور پر مرکزی حکومت کے زیر دست اور ہر طرح سے اس کے ماتحت نظر آتی ہے ہر طرح کے فیصلے مرکزی حکومت کررہی ہے، وزیراعلیٰ عثمان بزدار ابھی تک میڈیا کے سامنے نہیں آئے، میڈیا کے پاس بے شمار سوال جمع ہوگئے ہیں ان سے معلوم کرنا ہے کہ اصل میں حکومت کون کررہا ہے؟ گورنر چوہدری سرور، علیم خان اور اسپیکر پرویزالٰہی کا حکومت چلانے میں کیا اور کس نوعیت کا کردار ہے؟

تازہ ترین
تازہ ترین