• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں اس وقت کراچی کے ایک ہوٹل میں ہوں اور تھوڑی دیر بعد مجھے” شہید حکیم محمد سعید کے یادگاری لیکچر“کے لئے ”مدینتہ الحکمت“ جانا ہے ۔ مجھے اس لیکچر کے لئے جو موضوع دیا گیا وہ ”امید کے چراغ“ ہے یہاں تک تو معاملہ ٹھیک ہے لیکن جب میرے اہل خانہ اور دوستوں کو علم ہوا کہ میں کراچی جا رہا ہوں تو ہر ایک نے حسب توفیق مجھے اپنے مشوروں سے نوازا، چنانچہ ان مشوروں کی روشنی میں ہوٹل سے نکلتے وقت میں نے وہ موبائل اپنی جیب میں رکھنے کا پروگرام بنایا جو میں نے پندرہ سو روپے کی ”خطیر“ رقم سے بطور خاص کراچی میں استعمال کے لئے خریدا ہے تاکہ اگر کوئی میری کنپٹی پر پستول رکھ کر کہے ”موبائل نکالو“ تو میں فوراً یہ کہہ کر اس کی خدمت میں پیش کر دوں کہ ”حضور خصوصی طور پر یہ خریدا ہی آپ کے لئے ہے“ میں نے تو ان جانبازوں کے لئے خصوصی بٹوہ بھی تیار کرایا ہے جس میں کریڈٹ کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، شناختی کارڈ اور کلبوں کے ممبر شپ کارڈ وغیرہ رکھنے کی گنجائش ہی نہیں ہے، صرف یہی نہیں میں نے تو لاہور کے اسٹیٹ بنک کے باہر سے پانچ روپے کے نوٹوں کی سو سو والی گڈیاں بھی خرید کر اس میں ٹھونسی ہیں جس سے یہ بٹوہ پھول کر کُپّا ہونے کی وجہ سے گائنی وارڈ کا کیس لگنے لگا ہے۔ یہ ضروری تھا، ورنہ صرف دو ہزار روپے کا دبلا پتلا سا نذرانہ گستاخی کی ذیل میں بھی آ سکتا ہے۔ ایک دوست وفور محبت میں میرے بازو پر امام ضامن بھی باندھنے چلے آئے، اس کے علاوہ ادارہ سعید کے ڈپٹی ڈائریکٹر سید محمد یعقوب صاحب نے جب لاہور فون کر کے مجھے میرے پروگرام کی تفصیل بتائی تو میں نے ان سے احتیاطً پوچھ لیا تھا کہ ہوٹل سے مدینتہ الحکمت کے روٹ پر فائرنگ کے اوقات کیا ہے۔ نیز اس فائرنگ کا کوئی ٹارگٹ ہوتا ہے یا یہ فائرنگ To whom it may concern کے زمرے میں آتی ہے؟ جس پر وہ ہنسے اور فرمایا ”آپ بے فکر ہو جائیں اس روٹ پر فائرنگ نہیں ہوتی، ایک دوسرے سے ریس لگاتی گاڑیاں اس کمی کو پورا کر دیتی ہیں“!
اب آیئے ”امید کے چراغ“ کی طرف جو بات میں کرنے لگا ہوں وہ آپ کو غیر سنجیدہ سی لگے گی تاہم ”اسٹارٹر“ کے طور پر آپ کو سنا رہا ہوں، حکیم سعید صاحب میری سگریٹ نوشی کی عادت سے واقف تھے، چنانچہ جب کبھی ملاقات ہوتی میں ان سے یہ کہہ کر تھوڑی دیر کے لئے باہر جانے کی اجازت مانگتا کہ ”ذرا سوٹا لگا آؤں“ اور یہ اجازت ہر پانچ منٹ بعد مانگنا پڑتی تھی، ایک دن مجھے کہنے لگے ”تم اتنے زیادہ سگریٹ کیوں پیتے ہو؟“ میں نے عرض کیا “ٹینشن کی وجہ سے“ پوچھا آپ کو کیا ٹینشن ہے؟ میں نے کہا ”یہی کہ اتنے زیادہ سگریٹ پیتا ہوں“ ایک بار میں نے ان سے یہ بھی عرض کی کہ اتنا نقصان مجھے سگریٹ نوشی سے نہیں ہوتا جتنا آپ سے سگریٹ نوشی کے نقصانات سن کر ہوتا ہے۔ وہ حسب معمول میری اس حیلہ سازی پر مسکراتے رہے تاہم انہوں نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور سگریٹ کے نقصانات مسلسل گنواتے رہے۔چنانچہ ایک وقت آیا کہ میں نے سگریٹ بالکل تو نہیں چھوڑے تاہم اتنے زیادہ کم کر دیئے کہ مارے شرمندگی کے سگریٹ نوشوں سے آنکھ نہیں ملائی جاتی تھی ۔ جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ یہ مثال تو محض ”اسٹاٹر ؟کے طور پر دے رہا ہوں ورنہ جہاں تک حکیم صاحب کی بے مثال رجائیت کا تعلق ہے وہ میں نے بہت کم لوگوں میں دیکھی، پاکستان کے دگرگوں حالات ان کے سامنے تھے جن کے سنورنے کی امید کم اور بگڑنے کی زیادہ تھی لیکن نہ صرف یہ کہ وہ مایوس نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے ”مسئلے کا حصہ “بننے کی بجائے مسئلے کا حل تلاش کرنے اور پھر اس کے لئے عملی جدوجہد کا رستہ اپنانے کو ترجیح دی ۔
اس ضمن میں ، میں بھی حکیم صاحب کے پیروکاروں میں سے ہوں، میں زندگی میں کبھی مایوس نہیں ہوا اور نہ کبھی اپنے لوگوں کو مایوس دیکھنا پسند کیا، آج سے بارہ برس پہلے مجھے کینسر جیسا موذی مرض لاحق ہوا یہ میرے دائیں گردے کے بالکل قریب واقع تھا میرے گھر والے اور میرے دوست احباب سخت پریشان تھے ،یاسر بیٹا تو دھاڑیں مار مار کر رونے لگا مگر مجھے اس مرض سے رتی بھر خوف محسوس نہ ہوا، حالانکہ کسی فلم میں جب ہیرو کو کینسر ہوتا ہے تو آدھے گھنٹے تک تو ویسے ہی خوفناک میوزک بجتا رہتا ہے جبکہ آپریشن تھیٹر میں بیہوش کئے جانے تک، میں ڈاکٹروں کے ساتھ ایسے نہیں بول رہا تھا جیسے میں اپنے ولیمے کی تقریب میں ہوں، ڈاکٹروں نے آپریشن کیا، گردہ بالکل ٹھیک حالت میں تھا مگر ٹیومر کے ساتھ احتیاطً اسے بھی نکال دیا گیا ، غالباً اس لئے کہ وہ بری صحبت میں رہا تھا۔ آج میں ایک گردے کے ساتھ بھرپور زندگی گزار رہا ہوں اور ایسا ”دل گردے ، ہی کی وجہ سے ہوا ہے ، میں اگر کینسر کی اطلاع ملنے پر مایوس ہو جاتا تو میں بیماری سے مرتا نہ مرتا، خوف سے ضرور مر جانا تھا ! ویسے تو زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر اس میں حوصلہ ہارنے یا حوصلہ برقرار رکھنے کا بھی بہت دخل ہے ۔ آج اگر کوئی ڈاکٹر کسی سے کہہ دے کہ تم چھ ماہ بعد فوت ہو جاؤں گے تو وہ چھ ماہ کا انتظار نہیں کرے گا بلکہ اگلے دو چار ماہ ہی میں فوت ہو جائے گا آج ہمارے ٹی وی چینلز کے تجزیہ کار اور کالم نگار قوم کو ہر وقت موت کی وعید سناتے رہتے ہیں ۔ بھائیو، ہمیں کینسر ضرور ہو گیا ہے جو ضروری نہیں”ملیگننٹ “ بھی ہو تاہم ہمیں ہر ممکن کوشش کرنا ہے کہ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور ثابت کریں کہ ہم ایک حوصلہ مند قوم کے افراد ہیں جو چیلنج سے خوفزدہ نہیں ہوتے بلکہ اسے قبول کرتے ہیں اور پھر اپنے عزم اور حوصلے سے اس کا مقابلہ کرکے سرخرو ہونا بھی جانتے ہیں ۔ پنجابی کے ایک شاعر جوگی جہلمی کا شعر ہے
زندگی تے موت جوگی دونوں کوئی چیز نئیں
خیال نال موت اے، خیال نال زندگی
لیکن اس کا کیا علاج کہ ہم تو زندگی کی بات ہی نہیں کرتے، ہمارا موضوع گفتگو ہمہ وقت موت ہوتا ہے میرے ایک دوست نے تو اپنی زندگی میں اپنی قبر بنائی ہوئی ہے جس میں وہ اتوار کے روز لیٹ کر فلمی صفحہ پڑھتا ہے یا دیکھتا رہتا ہے، اسے جنازوں سے خصوصی رغبت ہے، شہر کے سارے گورکنوں کے ساتھ اس کے خصوصی مراسم ہیں، نیم حکیموں کے ساتھ بھی اسکی خصوصی دوستی ہے، جو اسے وقت سے پہلے یہ خوشخبری سنا دیتے ہیں کہ ان کا فلاں مریض مرنے والا ہے، چنانچہ میرا یہ دوست عجیب وغریب ذوق وشوق کے ساتھ تجہیزوتکفین میں شریک ہوتاہے ، بلکہ مردے کو قبر میں لٹانے سے پہلے وہ خود اس میں لیٹ کر قبر کے سائز اور مرحوم کے سائز کا اندازہ لگاتا اور پھر گورگن کو کمی بیشی کے لئے کہتا ہے مجھے نہ تو اس دوست کی سمجھ آتی ہے اور نہ اپنی کہ ہم وہ لوگ ہیں جو کسی کو خوش بھی نہیں دیکھ سکتے، راہ چلتے کسی دوست کو روک کر کہتے ہیں ”بھائی ؟آج آپ بہت کمزور لگ رہے ہیں، خیر تو ہے ؟ اس کے بعد خیر کہاں ہونی ہے، پھر وہ ہوتا ہے اور ڈاکٹروں کے پھیرے ہوتے ہیں، اور اتنے پھیرے ہوتے ہیں کہ یار لوگ اسے ”بھائی پھیرو“ کہنے لگتے ہیں، میں آج حکیم صاحب پر مرتب کی گئی کتاب یادیں اور باتیں پڑھ رہا تھا اور حیران ہو رہا تھا کہ یہ شخص اگرچہ ہم میں سے تھا لیکن نہ خود کبھی مایوس ہوا اور نہ دوسروں کو کبھی ہونے دیا، انہوں نے ”مایوس مریض کی ”آخری آرام گاہ “ جیسا کوئی دعویٰ تو نہیں کیا، البتہ اس ”مرض“ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے پاکستانی بچوں کی تربیت میں دلچسپی لی، ان کیلئے ”نونہال اسمبلی “ بنائی ، ان کے لئے ایک خوبصورت جریدے کا اجراء کیا، اس کے بعد انہوں نے ”مدینتہ الحکمت “ کی بنیاد رکھی، کتابیں لکھیں اور یوں فراز کے اس شعر
شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
کو عملی جامہ پہنایا، چنانچہ مجھے یقین ہے کہ حکیم صاحب مرحوم کی ان تربیت گاہوں سے فیض یاب ہونے والے افراد پاکستان کے مستقبل سے کبھی مایوس نہیں ہوں گے، پاکستان ایک زندہ و تابندہ و پائندہ حقیقت ہے، اسے آباد و آزاد رہنا ہے اور اس کے لئے برا سوچنے والوں کی قسمت میں برا ہونا لکھ دیا گیا ہے، یہ جملہ لکھتے وقت حکیم صاحب کی آواز میرے کانوں میں سنائی دے رہی ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں” تم ٹھیک کہتے ہو، لیکن ہمارا دشمن جاگ رہا ہے ، اسے ہمیشہ کے لئے سلانے کی خاطر ہمارا جاگتے رہنا ضروری ہے، جاگتے رہو…جاگتے رہو !
تازہ ترین