• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز کے معاشی حالات مستحکم ہوتے توحکومت کو سعودیہ، چین اور آئی ایم ایف کے درپر دستک کیوںدیناپڑتی۔ بیل آئوٹ پیکیج کے لئے آئی ایم ایف کا وفد پاکستان میں وزارت خزانہ سے مذاکرات کر رہا ہے ، شنید ہے دو ادوار مکمل ہوچکے ہیں جن میں پاکستان کی معاشی پالیسیاں زیربحث آئی ہیں۔ دوست ممالک سے رجوع کیا گیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اب اگر آئی ایم ایف کے پاس جانا بھی پڑا توایسا نہ ہوگاکہ اس کی تمام شرائط کو من وعن تسلیم کرنا پڑے۔ جیو کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے انہی باتوں کا اعادہ کیا کہ آئی ایم ایف سے کم سےکم پانچ چھ ارب ڈالر لیں گے۔ سعودی عرب کی طرح چین سے بھی اچھی خبر آئےگی۔ پاکستان میں چین کے ڈپٹی چیف آف مشن چائولی چیئن نے وزیر اعظم کے دورۂ چین سے متعلق تمام قیاس آرائیوں کو ردکرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کےمابین آئندہ 5سال کی سمت کاتعین ہوا ہے۔ بقول وزیر خزانہ اسد عمر گیس اور بجلی کی قیمتیں آئی ایم ایف کے دبائو پر نہیں بڑھیں، پی آئی اے اور اسٹیل ملز کی نجکاری کرنے کے بجائےان اداروںکو پائوں پر کھڑاکرکے دکھائیں گے۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں مذکورہ اقدامات کو ہدف تنقید بناتے ہوئے مطالبہ کررہی ہیں کہ بتایا جائے سعودی عرب اور چین سے کن شرائط پرقرض لیا جارہا ہے؟ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں تین تین مرتبہ حکومت کرچکی ہیں اوراس امر سے بخوبی واقف ہوں گی کہ کچھ امور عیاں نہیں کئے جاتے؟ کیا ان جماعتوںکو چین اور سعودیہ کی دوستی پرشک ہے جو اس قدر ابہام پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جو خدشہ تھا اس کا مسکت جواب وزیراعظم نے دےدیا کہ یمن اور سعودیہ معاملے میں پاکستان سیاسی حل پر توجہ دے گا اور یہ بھی کہ پیکیج کے بدلے سعودیہ نے کوئی شرائط نہیںلگائیں۔ ان حالات میں چین اور سعودیہ ہمارے کام آئے ہیں تو یہ خوشی کی بات ہے کہ اس طرح پاکستان کو آئی ایم ایف کی ہر بات تسلیم نہ کرنا پڑے گی اور نہ کرنی چاہئے۔

تازہ ترین