• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا یہ مقتدر طبقہ واقعی قوم کی بے بسی اور لاچاری پر اِترا رہا ہے؟ کیانواز شریف ، کائرہ، خورشید شاہ کے بیانات کی روشنی میں ”ن لیگ“ اور زرداری پارٹی کامُک مکا ہو چکا؟ اور آخری سوال کیا”نواز شریف“ کی 2013 میں ریلیز ہونے والی فلم پہلے پانچ ادوار کی فلموں سے مختلف ہو گی یا بس ماضی کی تکرار اور تھڑے کی گفتگو سمجھی جائے ؟ امریکہ میں دورانِ تعلیم چیئرلیڈر(CHEER LEADER) کی اصطلاح سے آگاہی ہوئی وہاں دورانِ کھیل میدان کے باہر بھڑکیلے ملبوسات میں بچیاں اپنی اپنی ٹیموں کی حوصلہ افزائی کے لیے موسیقی پر اچھل کود کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی تھیں ۔ یہ چیئر لیڈر جو ہماری علاقائی اصطلاح میں ”حوصلہ افزائی فنکار“ کہلائیں گے میانوالی، سرگودھا، خوشاب ، جھنگ ، بھکر کے اضلاع میں نیزہ بازی ، کبڈی ، ریچھ کتے کی لڑائی ، کتوں کی لڑائی وغیرہ پر گلے میں بڑا ڈھول ڈالے کارندوں کی صورت موجود رہا کرتے تھے۔ ادھر نیزہ بازی میں مَلک صاحب نے نیزے سے کلہ اکھاڑایا سیال صاحب کے کتے نے بندھے ہوئے ریچھ کو زیر کیا اُدھر کارندہ بڑھک لگاتا ہوا ڈنڈی زور سے ڈھول پر مارکر اچھل کود شروع کر دیتا۔اوریوں خان صاحب ، ملک صاحب، سیال صاحب کی فتح کا اعلان ہو جاتا۔ اجڑی قسمت اب چندلکھاری بھی اس کسب میں کمال حاصل کر چکے۔اپنے قائدین کی خوشنودی کے لئے حقائق کو تو ڑنے مو ڑنے کے لئے ہمہ وقت تیار۔ان میں ”شیدا اور میدا“ بہت نمایاں ہیں۔” شیدا“ نسبتاََ سنجیدہ دانشورانہ طرزِ عمل کا لبادہ اوڑھے اپنامال بیچتا ہے ۔ جب کہ” میدا“ مزاحیہ تجزیے کر کے پھولے نہیں سماتا۔”شیدا“ اپنے اسلامی تشخص کی بناپرعموماََ دائیں طرف سے مخاطب ہوتا ہے۔ جبکہ ”میدا “ بائیں طرف سے بھی اپناکام چلا لیتا ہے۔ایسے حضرات تجزیوں کے پردے میں حتی المقدورعوام الناس کو گمراہ کرنے کے عمل میں جُتے ہیں ۔دیکھا دیکھی چندنیم خواندہ،نیم لکھاری بھی جہالت کے مرتکب ہو چکے ، ایسے جُہلا کو تو خیر نظر انداز کرنا ہی بہتر ۔اُ ن کو زدوکوب کرنے کے لیے اُنکی اپنی جہالت ہی کافی ہے۔ چند” مقبوضہ افراد “کے اوپر سروے کا انعقاد پھر کم علمی اور مجمو عہ اضداد سے بھر پور تبصرے ۔ جِن کا کوئی سرنہ پیر۔ اور عمران خان تختہ مَشق۔اپنے قائدین کے لئے رطب اللسان اور تحریکِ انصاف پر دشنام طرازی۔ پنجاب حکومت کے اربوں روپے اور وسائل جو غریب عوام کی بہتری پر خرچ ہو سکتے ۔ سیاسی اللے تللوں کی نذر ہو گئے۔ کوئی نشان دہی کرے تو جرمِ قبیح ؟
صدقے واری جاؤں ۔ 5سال سے پنجاب کے سیاہ و سفید کے مالک گِلہ عمران خان سے کہ اپوزیشن کی اپوزیشن۔ حضور اگر آپ پنجاب کو چار چاند لگا دیتے ۔ قانون، دیانت اور انصاف مقدر بناتے تومرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو سر چھپانے کو جگہ نہ ملتی ۔ لیکن آپ کا مطمع نظر تو اپنے کاروبار اور جائیداد کو چار چاند لگا ناتھا ۔ پچھلے پانچ سالوں میں پنجاب کے کھربوں روپے آپ کے تصرف میں ۔کیا حشر کیا آپ نے پنجاب کے وسائل کا؟
ایسی بے حسی ۔کیا کمی ہے ہمارے پنجاب اور باقی صوبوں میں جوبِن کھلے مُرجھا رہے ہیں ۔سوائے اس کے کہ ہماری قسمت میں نااہل، بدنیت اور کرپٹ حکمران لکھ دئے گئے ہیں ۔
عوام کی حالت ِ زاردیکھیں اور نعرہ مستانہ سنیں۔ اخبارات اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے پنجاب کا حساب دینے کے لیے کوئی تیا ر نہیں۔ خاکسار نے چند خامیوں کی نشاندہی کی، پنجاب حکومت کی انتظامی مشینری میرے خلاف مستعد ہوگئی۔ میں خادمِ اعلٰی کی نظر عنایت و کرم پر تہہ دل سے مشکور ہوں کہ میرے معاملات کی چھان بین کے لئے سرکاری اہلکاروں اور مختلف سطحوں کی انتظامیہ کی آپ نے نیند حرام کر دی۔ برادرم پرویز رشید مجھے بلا کر ساری معلومات لے لیتے تواپنے بارے پوری آگاہی دے دیتا۔
ماضی کی ہزیمتوں سے آپ نے سیکھنا نہیں ۔جو لوگ اپنے بہنوئی اور چچازادبھائیوں کو پٹوا کر جیل میں ڈال سکتے ہیں بھلا وہ عمران خان کے بہنوئی یا چچازاد کو بخشیں گے ۔ ”تم ہی تو ہو“ عمران کی سابقہ بیوی پربھی سمگلنگ کا جھوٹا پرچہ درج کروانے سے احترازنہ کیا ، کرکٹر سرفراز نواز کو اختلاف کرنے پر ہڈیاں تڑوانا پڑیں۔ بے شمار صحافی، سیاست دان، کاروباری شخصیات کے جیل جانے ،مار پیٹ اور صفحہ ہستی سے مٹ جانے کے قصّے چار سو۔مجھے ان حقائق کا بخوبی ادراک تھا اور بقائمی ہوش و حواس میں نے آپ کے خلاف پنجاب اور پاکستان کا مقدمہ دائر کیا ۔میری وجہ مخاصمت عمران خان نہیں۔یہ وطنِ عزیز اوراس کا نظریہ میرا عقیدہ ہے۔
حضور دلیل کے جواب میں ریاستی جبرذلت،خواری، رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔قوم پرایسی آزمائش۔ جہالت اورنااہلی میں دنیاکا آٹھواں عجوبہ لاہور کی100 ارب روپے کی سڑک کی صورت میں ہم پر نازل ہو چکا۔ اس پراٹھنے والے اخراجات پنجاب کے تعلیم و صحت کے بجٹ سے تجاوز کر چکے ۔ توجہ دلائیں تو زچ ہوتے ہیں۔ جنابِ والا بتائیں مشرف اور زرداری کا عذاب اس قوم پر نازل کس نے کیا ؟ مشرف کوکون لایا ؟ قوم جب مشرف کو نکالنے کے لیے بیگم صاحبہ کی قیادت میں یکسوہوئی تومال واسباب سمیت جدہ کے سرور پیلس( فراری کیمپ) میں جا براجمان ہوئے ۔ قوم کو مشرف کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑدیا؟پیپلز پارٹی کو دوام بخشنے اور زرداری کو منصب ِصدارت پر جلوہ افروزکروانے کے بعدکیا آپ کی سیاست کا کوئی اخلاقی جواز رہ جاتا تھا ؟اگر عمران خان کا دھڑکا نہ ہوتا ”نواز ۔ زرداری “پارٹنر شپ ابھی خوابِ استراحت میں ہی ہوتی ۔پنجاب کے اندر زرداری پارٹنر شپ قومی مفاد میں ساڑھے تین سال چلتی رہی عمران خان کے ڈراؤنے خواب نے جگا دیا۔یوم ِحساب،آپ کو حساب دیناہی ہو گا ،نو جوانوں اور لاچاروں کی نفرت اور حقارت آپ کو آڑے ہاتھوں لینے کے لئے تیار۔ کچھ کر لیں سروے 78فیصد چھوڑ یں 100فیصد آپ کے لئے مختص ہو جائے پھر بھی جائے پناہ نہیں ملے گی ۔ادھر نگران حکومت آئی ۔ ٹھکانہ ڈھونڈنا مشکل ۔جاگنے میں بہت دیر کردی۔ رائے عامہ فیصلہ کر چُکی۔ ٹریلر دکھا کر فلم کی تشہیر کا وقت گزر چکا ۔پاکستان کی حالت ِ زار پرآپ کے ٹسوے مگر مچھ کے آنسو ہیں جو صرف ہمارے جذبات کو مزید برانگیختہ کر سکتے ہیں ۔ پچھلے کالم میں صوبہ بہارکی بہار اور بے حال پنجاب کی حالت ِ زار پیش کر چکا ہوں ۔
مرکز مخالف حکومت کے باوجود وہاں شرح نمو 17 فیصد‘ ملاحظہ فرمائیے پاکستان کی غریباََ اوسط ترقی 3.4 فیصد اور پنجاب کی 2.8 فیصد ‘ ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔ نشاندہی کرنے والوں کے خلاف آپ لٹھ لے کر پڑ گئے۔ایک دوست کا قول ِزریں”قائدین کے ساتھ سچ کا مذاق مت کرو‘بہت برا پیش آتے ہیں“ ۔ضمنی انتخابات کا ایسا فسانہ فقہی بحث سے قطع نظر تحریک انصاف نے حصہ ہی نہیں لیا۔مقابلہ کیسااور جیت کس کے خلاف ؟ اس کے اوپر ایساسماں” شیدے میدے “ کی ایسی طربیہ قوالیاں‘ لگتاہے کہ ہیجڑوں کے گھر چاند سا بیٹا پیدا ہوگیا ۔قطع نظر اس کے کہ پٹواریوں ، تھانیداروں ، مجبور سکول ٹیچرز ، ترقیاتی سکیموں، لیپ ٹاپ ، رشوت کے زور پر سیٹیں اپنی ہی وا گزار کروائیں بلکہ ایک ہاری بھی۔ عمران خان اور شفقت محمود بالکل حق بجانب۔ معاشرے کو سڑاند سے بچانا ہے تو ”شریف سیاست“ کا خاتمہ ضروری ۔پیپلز پارٹی کھلی گندگی اور شریف سیاست چھپی گندگی ۔کھلی گندگی کو ختم کرنے کے لئے اجالے کی تپش ہی کافی ۔جبکہ ڈھکی گندگی کوفی الفور نہ نکالا گیاتو سڑاند کا تعفن برسوں معاشرے کو بدبودار رکھے گا۔”بڑی برائی“ کا سودا اب بکنے کا نہیں۔درحقیقت دونوں کھوٹے ‘ ایک ہی سکہ کے دورُخ ۔
تحریک ِانصاف کے رائے حسن نواز نے انفرادی حیثیت سے حصہ لے کر صرف نو سر بازیوں کو طشتِ ازبام کیا۔ اگر ااطمینان قلب ہوتا تو ”ن“ کی ”جیت “ شایدکالم کے حصہ کی مار تھی ۔ عمران خان پر دشنام طرازی کے روزنامچے آپ کے ذہن کی کھلبلاہٹ کا پیغام ہی تو دے رہے ہیں۔ جاتے جاتے ”ن لیگ کا“نازنینِ اخلاق و کردار ملاحظہ ہو۔ جو صاحب چیچہ وطنی سے منتخب ہوئے۔ کاغذاتِ نامزدگی پیپلز پارٹی کی طرف سے جمع کروائے۔ کروڑوں کے فنڈزسے ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائے ” وفا داری بشرطِ استواری اصل ایماں “ ٹکٹ ن لیگ کا جمع کرادیا اور جیت کا سہرا”ن “ کے سر۔نعرہ تکبیر۔ عمران خان ہار گیا،تالیاں۔ جتنی بڑھکیں مارنی ہیں مارلیں پنجاب حکومت کے خاتمے کے ساتھہی آپ شامِ غریباں مناتے نظر آئیں گے۔اب تو عوام الناس کی سانسیں اکھڑنے کو ہیں یا اللہ رحم۔ان سیاسی چال بازوں کا مکر تمہارے مکر کی گرفت میں کب آئے گا؟المدد المدد ، یا خدا یا خدا ۔وطنِ عزیز بھیڑیوں کے چُنگل میں ہے اس پر رحم فرما ۔
تازہ ترین