• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اربن انجینئرنگ ، سول انجینئرنگ کی ایک شاخ ہے ، جو کسی شہر یا علاقے میں جگہ کی بہترین اور مؤثرمنصوبہ بندی یا اسپیشل پلاننگ کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اس میں خیال رکھا جاتا ہے کہ اسکول، کالج،ہسپتال،ڈسپنسری،لائبر یری، کارخانے اور سیروسیاحت کی جگہیں کہاں کہاں تعمیر ہونی چاہئیں تاکہ عوام زیادہ سے زیادہ اِن سہولیات سے استفادہ حاصل کر سکیں ۔ا سپیشل پلاننگ کی اہمیت کو ، پیرس ایگریمنٹ آن کلائمٹ چینج ، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز (SDGs)، ہیبیٹٹ IIIاور یونائٹیڈنیشنل کانفرنس آن ہاؤسنگ اینڈ سسٹین ایبل اربن ڈویلپمنٹ میں بھی اُجاگر کیا گیا ہے۔

پاکستان میں بھی بڑھتی ہوئی آبادی، اِنسانی ضروریات اور ہجرت کے بڑھتے ہوئے تناسب کے پیشِ نظر مؤثر منصوبہ بندی موجودہ مسائل کے حل اور بہتر ین مستقبل کے حصول کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔پاکستان کو سرمایہ کاری کے لئے جیوگرافک انفارمیشن سسٹم پر مبنی ایک مکمل فریم ورک کی ضرورت ہے ۔

پاکستان کی صورتحال

کئی حکومتوں کے بلند و بالا دعووں کے باوجود کھوکھلے اقدامات کے باعث پاکستان سے جڑا لفظ ’’ ترقی پذیر‘‘ ہٹ نہیں سکا ، نہ ہی مستقبل قریب میں ا س کے آثار نظر آتے ہیں کیونکہ یہاں اربنائزیشن پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ مشرق وسطیٰ میں ایسے شہر تعمیر ہو رہے ہیں، جو ہم سائنس فکشن فلموں میں دیکھتے تھےمثلاََ ابوظبی میں حکومت نے صحراؤں میں ایک ایسا شہر بناڈالا، جو نہ صرف ماحولیاتی آلودگی سے پاک ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بھی نہیں۔ صحرا میں بسائے گئے ’مصدر سٹی‘کو ماحولیات کے لئے پہلا پائیدار شہر اورمستقبل کا ایک مثالی شہر قرار دیا جارہاہے۔پاکستان میں کسی زمانے میں اسلام آباد کو ایک خاص پلاننگ کے تحت بسا یا گیا تھا ، لیکن باقی شہروں کی بات کی جائے تو سب جگہ منصوبہ بندی کا فقدان نظر آتاہے ۔

ہمارے یہاں ہر طالب علم بہت محنت کرتا ہے ۔اس کی یونیورسٹی کی تعلیم اورتعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے پورے کے پورے خاندان کو قربانی دینا پڑتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ دُکھ کی بات یہ ہے کہ18سال پڑھنے کے بعد بھی ہمارے تعلیمی ادارے کثیر تعداد میں بے روزگا ر پید اکر رہے ہیں۔ایسے نوجوانوں کی تعداد کم نہیں جو پچھلے کئی سال سے روزگا ر کی تلاش میںہیں اور ابھی تک کو ئی روزگا ر حا صل نہیں کرپائے۔اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے جلد از جلد مارکیٹ کی طلب کے مطابق بہترین پیشہ ورانہ کورسز یونیورسٹیوں میں متعارف کروائے جائیں۔ایک ایسا سائنسی ڈیش بورڈ قائم کرنے کی ضرورت ہے، جس میں یونیورسٹیوں اورملازمتوں کی معلومات ایک جگہ موجود ہو ں اورہر ماہ یہ معلومات اَپ ڈیٹ بھی ہو تی جائیں، تاکہ تجزیہ کرنے میں مدد ملے اور پتہ چل سکے کہ ہماری جاب مارکیٹ کس نوعیت کی ہے اور ہم یونیورسٹیوں میں کس طرز کے کورسز پڑھارہے ہیں۔اس اہم کام سےکیرئیر پلاننگ میں بھی بہت مدد ملے گی۔

اربن انجینئرنگ میں داخلہ

ہائرایجوکیشن کمشن پاکستا ن کے مطابق پاکستان کی 182 یونیورسٹیوں میں ہر سال 14لاکھ طالبِ علم داخلہ لیتے ہیں،جن میں سب سے زیادہ تعدادمینجمنٹ ، ہیومینیٹیز گروپ اور سوشل سائنسز کے طالب علموں کی ہے، جوکہ 6 لاکھ ستائیس ہزار 3 سو ہے۔ اربن انجینئرنگ کے طالبِ علموں کی تعداد صرف 381 ہے ، سٹی اور ریجنل پلاننگ CRP میں صرف569طالبِ علم داخلہ لیتے ہیں اور جیوانفارمیٹکس میںطالبِ علموں کی تعداد صرف 141ہے ۔

انٹرن شپ کے مواقع

اربن انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کا یہ فائدہ ہے کہ آپ کیلئے سول انجینئرنگ کے دروازے کُھل جاتے ہیں، ساتھ ہی آپ آرکیٹیکٹ کے شارٹ کورسز یا ڈپلومہ کرکے اپنی تعلیمی استعداد میں اضافہ کرسکتے ہیں ۔ پاکستان میں کئی ادارے مثلاََNESPAK، پیرا گون کنسٹرکٹرز، واٹر ڈویژن ، نیشنل ہائی وے اتھارٹی ، پورٹ قسم اتھارٹی وغیرہ اربن انجینئرز کو انٹرن شپ کی پیشکش کرتے ہیں ، جہاں آپ عملی طور پر اپنی مہارتوں میں اضافہ کرسکتے ہیں۔

ملازمت کے مواقع

اربن انجینئرز کی تعداد چونکہ بہت کم ہوتی ہے ، اسی لئے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتاہے ، درج بالا اداروں سمیت 30 کے قریب سرکاری اور نجی ادارے ہیں جو نہ صرف انٹرن شپ آفر کرتے ہیں بلکہ ملازمت کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک سے باہر مشرق وسطیٰ اور کینیڈا میں اربن انجینئرز کی بہت مانگ ہے۔ پاکستانی اداروں میں جاب یا انٹرن شپ کیلئے آپ ’’ڈپارٹمنٹ آف اربن اینڈ انفرااسٹرکچر انجینئرنگ‘‘ کی ویب سائٹ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ 

تازہ ترین