• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

والدین کی شفقت سے محروم بچے محبت و توجہ کے طلب گار

’’زمانے کے بے رحم تھپیڑے اور زندگی کی خاردار جھاڑیوں کی چبھن پہلی بار اس دن محسوس ہوتی ہے، جب سر سے باپ کا سایہ اٹھتا ہے۔‘‘

اسکول لائف کے دوران ایک ٹیچر نے سوال کیا کہ آپ جانتے ہیں سب سے معصوم کون ہے؟ چند سیکنڈ بعد انھوں نےخود ہی جواب دیا( جو آج تک اسی لمحے کی طر ح تروتازہ ہے)، ’’ وہ لوگ جن کےسر سے تحفظ (ماں باپ ) کا سایہ چھن جائے، اس لیے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کا خیال رکھیں‘‘۔ ماں باپ کا نعم البدل دنیا کی کوئی چیز نہیں ہوسکتی اور نہ کبھی ہوگی۔ دنیا میں جو لوگ اس قیمتی رشتے سے محروم ہوجاتے ہیں، وہ یتیم کہلاتے ہیں۔ لفظ ’یتیم‘ کہنے میںبھی کتناعجیب اور تکلیف دہ لگتا ہے۔ اس لیے یہی دعا ہے کہ خدا کبھی کسی کو یتیم نہ کرے۔ لیکن کائنات کا ایک اصول ہے، جس پر ہر مسلمان کا یقین ہے کہ جو اس دنیا میں آیا ہے اسے جانا بھی ہے کیونکہ انسان خداکی ایک امانت ہے۔ دینِ ا سلام یتیموں کو سہارا دینے، ان کی مکمل کفالت کرنے، ان سے پیار کرنے اور انہیں کھانا کھلانے، وسائل مہیا کرنے اور آسودگی فراہم کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

دنیا بھر میں یتیم بچوں کی تعداد

دنیا بھر میں نومبر کے دوسرے ہفتے میں پیر کے روز یتیم بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یونیسف کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دُنیا میں اس وقت15کروڑ30لاکھ بچے یتیم ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں چائلڈ لیبر کی تعداد 16کروڑ 80لاکھ ہے اور اس بڑی تعدا د کا 11فیصد حصہ یعنی 6کروڑ بچے یتیم ہیں اور یہ تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر ان بچوں سے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی جائے تو پوری دنیا کے گرد حصار بن سکتا ہے۔

یتیم بچوں کا عالمی دن اور آپ کی ذمہ داری

کل (بروز پیر) دنیا بھر میں یتیموں کا عالمی دن منایا جائے گا۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد یتیم بچوں کی کفالت اور ان کی مشکلات کا خاتمہ ہے۔ اسلام بھی ہمیں حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد کی طرح یتیم بچّوں کے بھی تعلیمی اخراجات اور ان کی ضروریات زندگی کو اپنی استطاعت کے مطابق پورا کریں اور ان کی بہترین تعلیم و تربیت کریں۔تاہم آج کے دور میں جب ہر انسان مہنگائی سے پریشان ہے اور دن بدن بے روزگاری کی شرح دن بدن بڑھتی جا رہی ہے، ایسے میں یتیم بچوں کو گود لیناخاصامشکل معلوم ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی کئی امر ایسے ہیں، جن کے تحت آپ ان بچوں کی مدد کرسکتے ہیں۔ بطور مسلمان یہ مدد دینی و دنیاوی خوشنودی کے لیے بھی بے حد ضروری ہے۔

٭آپ اپنی کمیونٹی یا آرگنائزیشن کو یتیموں کی کفالت اور ان کی مد د کے لیےاستعمال کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پراگر آپ ایتھلیٹ ہیں تو کسی آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر ایک ایونٹ کا اہتمام کریں اور جو فنڈز جمع ہوں وہ یتیم بچوں کی تعلیم وتربیت پر خرچ کریں۔

٭اگر آپ ایک اچھے اسپیکر ہیں تو اپنے الفاظ کو یتیم بچوں کی مدداور کفالت کے لیے استعمال کرسکتے ہیں مثلاً آپ اس دن کے موقع پرایک تقریب کا انعقاد کرسکتے ہیں، جس میں معاشرے کے تمام امراء کے سامنے یتیموں کی کفالت اور ان کےحقوق سے متعلق آپ کی تقریر لاکھوں روپے کے فنڈز جمع کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس رقم کو یتیم بچوں کی تعلیم وتربیت، بچیوں کی شادی اور تربیت و پرورش پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔

٭ا گر بچپن میں یتیم بچوں کو یوں ہی چھوڑ دیا جائے تو یہی بچے کل سڑکوںپر آوارہ گردی کرتے پھریں گے اور اگر بری صحبت یا غلط تربیت کا شکار ہوجائیں تو یہ معاشرے کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ انھیں معاشرے کا مفید شہری بنانے کے لیے ضروری ہےکہ ان کی تعلیم وتربیت پر توجہ دی جائے۔ اگر آپ استطاعت رکھتے ہیں تو کسی ایک بچے کی تعلیم کا خرچہ اپنے ذمہ لے لیں۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا،’’مَیں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح(قریب) ساتھ ہوں گے ‘‘اور آپ نے اپنی شہادت اور بیچ والی انگلی سے اشارہ کیا۔ (بخاری شریف)

٭اگر آپ یتیم بچوں کی تعلیم وتربیت یا ان کی کفالت کی استطاعت نہیں رکھتے تو ان کے ساتھ نرمی اختیار کریں۔ یتیم بچوں کے ساتھ حسن سلوک بھی کسی نیکی سے کم نہیں، ان بچوں کو باپ کی کمی شدّت سے محسوس ہوتی ہے اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ کاش کوئی ایسا ہوتا، جو باپ کی طرح لطف وکرم کا معاملہ کرتا، محبت بھری نگاہ ڈالتا اور بڑے پیار وشفقت سے ان کے سر پر ہاتھ رکھتا۔ اگر آپ یتیم بچوں سے شفقت سے پیش آئیں گے تو وہ آپ سے مانوس ہوجائیں گے اور باپ کے کھونے کا غم ہلکا ہو جائے گا۔

٭جن بچوں کے سر پر باپ کا سایہ نہ ہو دنیا ان کی دولت کو لوٹ کا مال سمجھنے لگتی ہے، ہر کوئی ان کے مال پر حق جتانے لگتا ہے۔ اسلام بھی ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے کہ وراثت میں ملنے والے یتیم کے مال کی حفاظت کرنا اس کے کفیل کی ذمّہ داری ہے، جس کے بارے میں روزِ قیامت پوچھ گچھ ہوگی۔

٭ اگر آپ کے اردگرد کوئی یتیم بچی موجود ہے تو اس کی شادی کے اخراجات کی ذمہ داری اُٹھانے کی کوشش کریں یا کچھ مدد کریں۔اس کے علاوہ اپنے اردگرد صاحب استطاعت لوگوں کے ساتھ مل کر ایک یتیم بچی کی شادی کروانا بھی ایک احسن اقدام ہے۔

تازہ ترین