• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کالا باغ ڈیم پر قومی اسمبلی میں حکومتی ارکان کا جارحانہ رویہ۔ دو صوبائی اسمبلیاں ڈیم کے خلاف قراردادیں منظور کر چکیں تو پھر کونسا اتفاق رائے درکار ہے، یہ ہے موقف حکومتی ارکان اسمبلی کا۔
ایک محلے کے تمام رہائشیوں نے ایک رہائشی کو محلہ بدر کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ وہ محلے کے مفادات کا خیال رکھتا تھا، چونکہ اکثریت کا فیصلہ تھا غلط ہونے کے باوجود مان لیا گیا، اور اپنے نقصان کو بہ جان و دل برداشت کر لیا گیا۔ اگر وطن عزیز کے اندر ایک قومی مفاد کا منصوبہ مکمل کرنے کے بجائے منسوخ کیا جا رہا ہے، تو ممکن ہے حکومتی ارکان اسمبلی جو قوم کی خیر خواہی کے لئے چنے گئے تھے، ان کا یہ نادر شاہی فیصلہ ٹھیک ہو، کیوں کہ اقتدار بھلا کب قوم کے فائدے کے برابر ہو سکتا ہے
شبِ برأت اچھی ہے اے جان نہ ہے اچھی شبِ قدر
آپ حصے میں مرے آئیں وہی رات اچھی
اور اس زرین فیصلے سے بڑھ کر تو یہ خوش خبری ہے کہ پانی کی طرف سے پانی کے بہاؤ میں کمی کے باعث بجلی کی پیداوار ایک ہزار میگا واٹ گھٹ گئی، نون لیگ نے اسی میں اپنی سیاسی عافیت سمجھی کہ اس ”بہترین فیصلے“ سے اظہار لاتعلقی کر دیا۔ گویا میاں نواز شریف اپنی دانست میں اپنا یہ موقف یوں بیان کر رہے ہیں
جب اتنی نعمتیں موجود ہیں یہاں اکبر
تو حرج کیا ہے جو ساتھ اس کے ”ڈیم فول“ بھی ہے
گویا قومی اسمبلی دو صوبائی اسمبلیوں کے تابع ہے، مگر عدلیہ سے اس کی کٹی ہے، آخر لاہور ہائیکورٹ بھی تو کافی ہائی ہے، اس بلندی کو سر کرنا بھی مشکل ہے، گویا حکومتی ارکان اپنے منشور کے عین مطابق عوام کو بجلی پانی سے محروم رکھنے میں ہی اپنی جے سمجھتی ہے سبحان اللہ۔
#####
قطر میں دوہا فورم کے موقع پر گیبون کے صدر علی بنگو سابق فرانسیسی صدر سرکوزی کی سابق بیوی سسلیا سے گلے ملے۔
اگر کفر و اسلام گلے مل جائیں تو اور کیا چاہئے، یہ بڑا اچھا شگون ہے، اس طرح سرکوزی بھی تھوڑے سے کبیدہ خاطر ہوں گے کیونکہ وہ جب تک صدر رہے فرانس میں مسلمانوں کو چین سے بیٹھنے نہ دیا، بالخصوص حجاب تو ان کی عقل پر ہی پڑ گیا تھا، یہ جو علی بنگو نے سسلیا سے معانقہ فرمایا ہے، تو اس سے عالم اسلام اور دیگر مذاہب میں مکالمہ تو کیا معانقہ ہی ہو جائے گا، اور معانقہ وہ تکلم ہے کہ جس کا ابلاغ رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے، خدا جانے ہمارے ہاں ابھی اتنی دوریاں کیوں ہیں، شاید ”سجن مجبوریاں ہیں“ عرب امارات میں جو تہذیب نو کی عمارات تعمیر ہو رہی ہیں، اس سے مسلم امہ قدامت کے اندھیروں سے نکل کر اپنی تعمیر و ترقی میں بہ اندازِ نو شریک ہو گی تو خوب مزا آئے گا، یہ دہشت گردیاں، یہ خود کش حملے، یہ جبر مسلسل صرف اس لئے ہے کہ بالخصوص ہمارا ملک تو تازہ ہوا میں سانس لینے ہی سے متنفر ہے، اور یہی وہ محرومیاں ہیں، جو دہشت بن کر وحشت پھیلا رہی ہیں، آزادی تو حاصل کر چکے آزاد نہ ہو سکے، آخر یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ
لگی ہے آگ الفت کی ہمارے رشتہِٴ جاں میں
جلا کرتے ہیں مثلِ شمع ہم بزمِ حسیناں میں
سسلیا اور علی بنگو کی معانقہ نواز ملاقات کی تصویر دیکھ کر پتہ چلا کہ دو وقت کیسے ملتے ہیں، اور اندھیرے اجالے کا ملن کیسا ہوتا ہے، یہ کشادہ ظرفی ضرور دن بدلے گی اور نئی سحر طلوع ہو گی۔
#####
گھریلو صارفین صنعتوں بجلی گھروں کے لئے گیس قیمتوں میں بھاری اضافے کی سفارش۔
اوگرا نے مقدور بھر زور لگا رکھا ہے کہ وہ کب عام آدمی کے بارے کہے کہ بے چارا اوگرا! اب عوام کو صوفیائے کرام کے اس قول پر عمل کرنا چاہئے کہ مرنے سے پہلے مر جاؤ، اب گرے ہوئے کو صرف دفن کرنا باقی ہے، وہ بھی اگر حکومت کو ایک اور موقع مل جائے تو تدفین بھی کر دے گی، اس فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اس ”کالونی“ میں تمام تر سہولیات فراہم کی جائیں گی، بس یہ ہے کہ ووٹرز اپنے کرم فرماؤں کو ایک بار پھر شرف قبولیت بخش دیں۔ عوام جو کبھی قوت کا سرچشمہ تھے اب حکومت کا سرچشمہ ہیں، اور ارباب حکومت یا آئندہ اس کے متمنی اس چشمہ رواں سے خوب پیاس بجھائیں گے، اوگرا تو ایک نقاب ہے، نقاب پوش سے کوئی پوچھے کہ کیا جاتے جاتے گیس کی قیمتوں میں بھاری اضافے کا تحفہ کسی بھاری شکست کے لئے دیئے جا رہے ہو؟ ہائے اس ملک کے غریب لوگ امیر حکمران کہ
پھر کیا پارئہ جگر نے سوال
ایک فریاد آہ و زاری ہے
اور یہ جو نئی تیاریاں نئے انتخابات کی برپا ہیں
ہو رہا ہے جہاں میں اندھیر
زلف کی پھر سر رشتہ داری ہے
گھروں سے روشنی گئی، کھیتوں سے پانی گیا، اور اب چولہوں کی آگ بھی بجھانے کا پروانہ تیار ہے، میاں صاحب وڈے کی بے نیازی سے معلوم ہوتا ہے، کہ اب یہی سب خوبصورت ذمہ داریاں ان کو دی جانے والی ہیں۔
#####
دلیپ کمار کہتے ہیں: زندگی نے وفا کی تو پشاور کے آبائی گھر کی یاد تازہ کریں گے، ویسے دلیپ کمار مائنڈ نہ کریں تو ہم ان کے شوبز کے ناطے سے عرض کر دیں
عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومن
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
زندگی کی 90 بہاریں دیکھنے کے بعد اگر وہ اس خزاں رسیدہ آبائی گھر میں بھی بہار ڈھونڈنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو دیر کس بات کی سائرہ کا ہاتھ پکڑیں اور اس پشاور کا رخ کریں جس کے بارے کتنی ہی سائرائیں اپنے دلیپ کماروں سے کہتی ہیں
لاڑشا پیخاور تا قمیص تور مالا راوڑا
تازہ تازہ گلونہ درے سلور مالا راوڑا
(پشاور جاؤ، میرے لئے کالی قمیص لاؤ، اور بھولنا مت ساتھ تین چار تازہ پھول بھی لیتے آنا) ہماری علاقائی زبانوں میں بڑا رس ہے، اور قومی زبان اردو ان کا ڈسپلے ہے، کیونکہ ان کا کوئی نہ کوئی لفظ اردو میں موجود ہوتا ہے، لیکن المیہ ہے کہ ہم نے قومی زبان کو مقتدرہ اردو زبان کا ادارہ دے کر بھی سرکاری زبان نہیں بنایا، شستہ اردو بولنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود غلط انگریزی بولنے کو قومی زبان پر ترجیح دیتے ہیں، بہرحال دلیپ کمار بھلے بھا رتی سہی مگر ان کا ڈی این اے پاکستان میں ہے، اس لئے یہ وہ عہد آفرین اداکار ہیں جو بیک وقت دونوں ملکوں کا ثقافتی لیجنڈ ہیں۔
#####
تازہ ترین