• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابات کی حتمی تاریخ ابھی تک مقرر نہیں ہوئی، جو اشارے مل رہے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت اپنی مدت آنہ پائی تک پوری کرنا چاہتی ہے۔ 16مارچ 2013ء کو پانچ سال کی مدت پوری کرنے کے بعد سیاسی جماعتوں کے مشورے سے نگراں حکومت قائم کرے گی۔ جس کی نگرانی میں انتخابات ہوں گے بشرطیکہ درمیان میں نئی حلقہ بندیوں یا ووٹر کی فہرستوں کی گھر گھر جا کر تصدیق کرانے کا مسئلہ نہ آ جائے یعنی انتخابات آخر اپریل یا اوائل مئی میں ہوں گے یعنی ابھی چار پانچ ماہ کا وقفہ ہے اور وہ سیاسی جماعتیں جنہوں نے آج سے سات آٹھ ماہ پہلے انتخابی مہم شروع کی تھی، تھک چکی ہوں گی اور ان کے ووٹروں کے جوش و خروش کے جذبے بھی سرد پڑ جائیں گے۔ انتخابی کمیشن نے یہ بھی اعلان کر دیا ہے کہ اگر اس درمیان کوئی نشست خالی ہوئی تو اس پر انتخاب نہیں ہوگا۔ حکومتی پارٹیوں کو اب انتخابات جیتنے کی فکر ہے۔ بنیادی معاشی مسائل پر پہلے بھی وہ توجہ نہیں تھی جو ہونا چاہئے تھی گیس کے مسئلے نے سنگینی اختیار کر لی اور موسم سرما میں اس کی مزید قلت پریشانیوں کا باعث ہوگی، بجلی کے بحران نے پوری صنعت، تجارت اور معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ برآمدات میں کمی ہوگئی ہے، درآمدات میں اضافے کی وجہ سے تجارتی خسارہ بڑھتا جا رہا ہے، روپے کی قدر بیرونی کرنسیوں کے مقابلے میں گھٹتی جا رہی ہے، امریکی ڈالر97روپے تک پہنچ گیا ہے اور اگر یہی صورت رہی تو بقول محسن بھوپالی مرحوم، اپنے ڈالر سنبھال کر رکھنا، سو روپے تک جائے گا ان کا نرخ ابھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف قرضوں کے سود میں بغیر کچھ لئے دیئے اضافہ ہو رہا ہے دوسرے خود قرضوں کی ادائیگی میں روپوں کی زائد رقم دینا پڑے گی۔ تیسرے درآمدات کی مالیت بڑھ جائے گی اور اس سے باہر سے آنے والی اشیاء کے نرخ بڑھ جائیں گے اور اس کی مطابقت میں مقامی اشیاء کے دام بھی بڑھ جائیں گی اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ یہ ایک شیطانی چکر ہے جس سے فی الحال چھٹکارا نظر نہیں آتا۔ چند ہفتے پہلے وزیر خزانہ نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 16/ارب ڈالر سے بڑھ گئے (ذرا دھیان میں رکھیئے کہ بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 294.98/ارب ڈالر ہیں) مالیاتی فنڈ کی قسط ادا کرنے کے بعد یہ ذخائر 13.57/ارب ڈالر رہ گئے۔
سال رواں کے مالیاتی بجٹ کے اہداف پورا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ سال رواں کے ابتدائی پانچ ماہ میں ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف 762/ارب روپے تھا جبکہ اس کے مقابلے میں ایف بی آر کو 688/ارب روپے وصول ہوئے74/ارب روپے کی کمی رہی اس کی وجوہ یہ بتائی گئیں کہ بڑے پیمانے والے صنعتی شعبے کی شرح نمو جو9فیصد رکھی گئی تھی اس کی شرح ایک فیصد سے بھی کم رہی حالانکہ اس درمیان افراط زر کی شرح 11.7فیصد سے کم ہو کر 9فیصد ہوگی۔ عالمی منڈی میں پیٹرولیم کی قیمت 140ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر 88ڈالر ہوگئی (واضح ہو کہ پاکستان میں نئی شرح کے تناسب سے کمی نہیں کی گئی) خود ملک میں بجلی اور قدرتی گیس کے بحران سے صنعتی کارخانے، فیکٹریاں اور پیداواری یونٹس پوری طرح نہ چل سکے جب پیداوار نہ ہونے کے برابر ہو تو ریونیو کہاں سے اکٹھا ہوگا مثلاً نومبر میں آمدنی کی وصولی کا ہدف 170/ارب روپے تھا جبکہ وصولی140/ارب اور کمی 30/ارب روپے رہی۔ امن و امان کے مسئلے کی بڑی اہمیت ہے ملک میں وفاقی ٹیکس جمع کرنے والا ادارہ فیڈرل بیورو آف ریونیو ہے مگر اس کے پاس ٹیکس گزاروں اور نادہندگان کے کوئی قابل اعتماد اعداد و شمار معلوم نہیں ہوتے۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ ملک میں 14لاکھ ٹیکس گزار ہیں۔ 2011-12ء کے مالی سال میں 676364 ٹیکس گوشوارے ایمپلائز کے توسط سے وصول ہوئے۔ 549387 گوشوارے ذاتی طور پر جمع کرائے گئے 204069 افراد نے شوگوارے ضرور داخل کئے مگر ٹیکس زیرو دکھایا۔ 109432گوشواروں میں نہ تو نیشنل ٹیکس نمبر تھا اور نہ شناختی کارڈ نمبر۔ اس طرح حقیقی ٹیکس گزاروں کی تعداد صرف 1225733 ہوتی ہے۔
اب نادرا نے نشاندہی کی ہے کہ 36لاکھ امراء ایسے ہیں جن کے پاس ایک سے زائد قیمتی گاڑیاں، متعدد بینک اکاؤنٹس ہیں جو کاروبار یا تفریح کے لئے سال میں متعدد بار بیرونی ممالک کا دورہ کرتے ہیں اور ان کے بچے اعلیٰ بیرونی جماعتوں میں زیرتعلیم ہیں۔ نادرا نے یہ معلومات ایئرپورٹوں، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ اور بینکوں سے جمع کی ہے اور یہ سارا ڈیٹا فیڈرل بیورو کو بھیج دیا ہے۔ یہی بالائی متوسط طبقے کے لاکھوں افراد جس میں ڈاکٹر، وکیل، آرٹسٹ، فنکار، موسیقار، بینکار، ایجنٹس، کاروباری حضرات شامل ہیں ان کا بھی ڈیٹا جمع ہونا چاہئے مگر حکومت ان تمام افراد کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے پر سنجیدگی کا اظہار نہیں کر رہی نہ تو اپنے غیرپیداواری اخراجات میں کمی کرنے پر آمادہ دکھائی دیتی اور نہ مالدار، ذی حیثیت افراد کو قانون کے مطابق ٹیکس نیٹ میں شمولیت پر مستعد نظر آتی ہے۔ سال رواں کا نصف حصہ گزر رہا ہے مگر ابھی تک کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے حکومت کی مزید کوششوں سے اربوں روپے کے محاصل حاصل ہوں اور حکومت کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے میں کوئی خاص کامیابی حاصل ہو سکے۔ مالیاتی فنڈ کی مخالفت کے باوجود ایمنٹی کا نظام رائج کر رہی ہے۔ یہ طریقہ پہلے بھی ناکام ہو چکا تھا، اب بھی حکومت کو چند کروڑ کی ادائیگی کے بعد نادہندوں، چوروں اور لٹیروں کو اربوں بلیک کی رقم سفید کرنے کی سہولت مہیا ہو جائے گی۔
حکومت کی نئے ٹیکسوں کی عدم سنجیدگی کی چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ایف بی آر کو تین لاکھ ایسی قیمتی گاڑیوں کا علم ہے جن کی کسٹم ڈیوٹی اور دوسرے ٹیکس ادا نہیں کئے گئے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ پولیس نے ایسی 500گاڑیاں ضبط کر لی ہیں۔ اگر ان کے مالکان کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور دوسرے عائد ہونے والے سرچارج اور جرمانہ یکمشت مقررہ میعاد کے اندر جمع کرا دیں تو یہ گاڑیاں قانونی حیثیت اختیار کر لیں گی۔ کہا جا رہا ہے کہ سنیٹ اور اسمبلیوں کے ارکان پر اس فارمولے کا اطلاق نہیں ہوگا (حالانکہ سب سے پہلے انہی کی پکڑ ہونا چاہئے) اب ان گاڑیوں کو ایمنٹی اسکیم کے تحت لانے پر غور ہو رہا ہے۔ امریکہ نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کے علاوہ دوسری ہر قسم کی امداد بند کر دی ہے۔ محبان پاکستان سے بھی کسی اہم رقم کے ملنے کی امید نہیں، مجبوری میں عالمی مالیاتی فنڈ کے پاس جانا پڑے گا کیونکہ جنوری/ فروری اس کے پہلے قرضے کی قسط ادا کرنا ہوگی گویا ہمارے وزیر خزانہ کو ہارتے ہوئے مقدمے کی پیروی میں سرگرداں ہونا پڑے گا۔
مئی میں انتخابات سے ایک اور الجھن کا سامنا ہوگا نئی حکومت کو جمتے جمتے کچھ وقت لگے گا اور جون میں بجٹ کا اعلان ہونا ہے۔ نئی حکومت کے پاس اتنا وقت کہاں ہوگا کہ وہ چٹکی بجاتے بجٹ تیار کرے، کیا نگراں حکومت کوئی عبوری بجٹ بنائے گی اور صوبوں میں کیا ہوگا؟ انتخابات کو آگے بڑھانے میں اس پہلو کا بھی اہم کردار ہو سکتا ہے یعنی گومگو کی کیفیت ابھی بدستور باقی ہے۔
تازہ ترین