• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں کالم لکھنے بیٹھا ہی تھا کہ میرے دائیں گھٹنے میں دفعتاً درد کی ٹیس اُٹھی اور قلم ہاتھ سے گر گیا۔ اپنے رب سے مغفرت کی دعا مانگی اور التجا کی کہ مجھے چلتے پھرتے اُٹھا لینا۔ تکلیف کا احساس کم کرنے کے لیے میں نے کسی کتاب کا سہارا لینا چاہا، تو دیوانِ غالبؔ ہاتھ لگا۔ اس کے اوراق اُلٹتے پلٹتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے چچا غالبؔ ہمارے عہد ہی میں پیدا ہوئے اور اپنے اشعار میں ہمارے حالات ہی پر رواں تبصرہ کر رہے ہیں۔ اِن دنوں ہمارے وزیرِاطلاعات فواد حسین چوہدری کا بڑا چرچا ہے۔ ہر جگہ وہی نظر آتے ہیں اور انہی کی آواز گونجتی رہتی ہے۔ اُن کے جملوں میں بڑی کاٹ ہے اور گہرائی بھی، مگر ہو یہ رہا ہے کہ وہ اِتنی قوت سے اپنے سیاسی حریفوں پر حملہ آور ہوتے ہیں کہ کھلبلی اُن کی اپنی صفوں میں مچ جاتی ہے۔ حضرتِ غالبؔ نے اُن کے لب و لہجے کے بارے میں تبصرہ کیا ہے ؎

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے

تمہی کہو یہ اندازِ گفتگو کیا ہے

بات میں گھن گرج بہت ہے اور اُن کی لذتِ گفتار پر رشک بھی آتا ہے، مگر ؎

آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے، بچھائے

مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا

اُنہیں ڈاکوؤں، چوروں اور وطنِ عزیز کی دولت لوٹنے والوں سے سخت نفرت ہے اور وہ اُنہیں خلا میں بھیج دینا چاہتے ہیں۔ منجھے ہوئے سیاست دان جناب خورشید شاہ نے بڑا بلیغ طنز کیا ہے کہ تب تو حکمران بنچوں پر ایک شخص بھی نظر نہیں آئے گا۔ جناب فواد چوہدری کا حلقۂ یاراں بڑا وسیع ہے اور یہ حلقہ اُن سے بہت ساری اُمیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے، لیکن اُن کی پیش دستی نے عجب عجب گُل کھلائے ہیں۔ گزشتہ منگل کے روز قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا، وہ اِسی پیش دستی کا ثمر تھا۔ پیپلزپارٹی جس نے بلوچستان میں نون لیگ کی حکومت کے گرانے اور سینیٹ کی چیئرمین شپ کے انتخاب میں تحریکِ انصاف کا ساتھ دیا، اس کا تحریکِ انصاف کے ساتھ تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ پورا منظر بےحد شرمناک اور مستقبل کے لیے حددرجہ تکلیف دہ تھا۔ حضرتِ غالبؔ کف ِافسوس ملتے ہوئے کہہ رہے تھے؎

دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں

آگ اِس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا، جل گیا

وہ شدتِ درد سے پکار اٹھے ع

اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے

حضرتِ غالب نے تحریک ِانصاف کی سیاسی ریاضت کا ذکر بھی نہایت موثر انداز میں کیا ہے ؎

کاو کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ

صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا

وزیراعظم عمران خان پر ایک نشے کی کیفیت طاری ہے اور اِس عالمِ بےخودی میں وہ ’اناالحق‘ کا نعرہ بلند کر رہے ہیں اور ساتھ ہی اقتدار کے وصل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ؎

نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں

تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں

زلفیں تو معلوم نہیں آج کل کن کن بازوؤں پر پریشاں ہیں، مگر عمران خان صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد میں اپنے اہلِ وطن سے بڑے بڑے وعدے کیے اور تمام بت پاش پاش کر دینے کے پیمان باندھے۔ وہ سیاست کے بہت سارے ذائقے بھی چکھتے رہے۔ کبھی وہ جنرل پرویز مشرف کے سحر میں مبتلا رہے اور اُنہیں پوری دیانت داری سے قوم کا مسیحا سمجھتے تھے۔ اُنہوں نے تقریباً دو عشرے الیکٹ ایبلز کے خلاف جہاد کیا اور ابتدا میں اُن کی طرف زیادہ تر وہ لوگ راغب ہوئے جن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا یا جو فطرتاً سلیم الطبع تھے، لیکن انتخابات میں مسلسل ناکامی کے بعد نادیدہ طاقتوں نے یہ احساس دلایا کہ اقتدار میں آنے کے لیے وہ تمام حربے استعمال کرنا ہوں گے جو حصولِ اقتدار کے لیے لازمی عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں، چنانچہ اُنہوں نے بڑے پیمانے پر الیکٹ ایبلز اپنی جماعت میں شامل کر لیے اور دیکھتے ہی دیکھتے عوام کے انتہائی غیرپسندیدہ عناصر نے جماعت پر قبضہ جما لیا۔ اقتدار میں آنے کے بعد جناب عمران خان اس طائفے میں گھر گئے جو اخلاقی اور سیاسی طور پر مفلس اور دولت سے مالامال ہیں۔ اُن کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ وہ عوام کے اندر اسی وقت تک مقبول رہیں گے جب تک وہ ماضی کے حکمرانوں کی ایک بھیانک تصویر کھینچتے اور یہ راگ الاپتے رہیں گے کہ اُنہیں خزانہ خالی ملا ہے اور معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب ملی ہے۔ وہ ہر موقع پر ایک ہی بات دہرا رہے ہیں کہ پاکستان کے ادارے تباہ کر دیے گئے ہیں، ملک پر قرضوں کا بوجھ لدا ہوا ہے، کرپشن سے معیشت آخری دموں پر ہے اور ہم بدترین معاشی بحران کا شکار ہیں۔

وہ ماضی کا ماتم ملک کے اندر کرتے رہتے، تو شاید قابلِ برداشت رہتا، مگر اُنہوں نے یہ رام کہانی ریاض میں بھی سنائی جہاں وہ سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ اِس کانفرنس میں متعدد عالمی کمپنیوں کے سربراہان اور سرمایہ کاروں نے حصہ لیا اور اس سے 150کے لگ بھگ مقررین نے خطاب کیا۔ شنگھائی میں بھی چین کی طرف سے سرمایہ کاری کے لیے بہت بڑی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس میں بھی ہمارے وزیراعظم کو پاکستان کے اندر سرمایہ کاری کے امکانات واضح کرنے کا موقع ملا، مگر اخباری اطلاعات کے مطابق وہاں بھی وہ اپنے وطن کی خرابیاں گنواتے رہے۔

جناب وزیراعظم نے آسیہ مسیح کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے اور فسادات پھوٹ جانے پر جو تقریر کی، اس میں نہایت ضرررساں الفاظ بھی استعمال ہوئے جو بغاوت پھیلانے والوں کی تقریروں میں باربار دہرائے گئے۔ اس کے بعد اُن پر مختلف اطراف سے نصیحتوں کا انبار لگایا جا رہا ہے۔ کوئی صاحب کہہ رہے ہیں کہ اُنہیں صرف لکھی ہوئی تقریر پڑھنی چاہیے۔ کوئی مشورہ دے رہا ہے کہ وہ اپنی ٹیم کے اندر فوری طور پر ردوبدل کریں۔ کسی کی تجویز ہے کہ وہ ان عناصر سے چھٹکارا حاصل کریں جو قوم کے اندر اتحاد پیدا کرنے کے بجائے انتشار پھیلا رہے اور حکومت کے لیے دشواریاں پیدا کر رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ اپوزیشن مائنڈ سیٹ سے نکل کر حکومت کی ذمہ داریوں کا پورا پورا احساس کرنے کا مظاہرہ کریں، مگر حضرتِ غالب نے پوری صورتِ حال سے نکلنے کا ایک خوبصورت نسخہ بتایا ہے ؎

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

تازہ ترین