• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
4دسمبر کو ہونے والے9ضمنی انتخابات میں”دھاندلی “ کے کوئی بھی ٹھوس الزامات سامنے نہیں آئے اور نہ ہی کسی قسم کا ثبوت دیا گیا جس سے فراڈ ثابت کیا جاسکے لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ انتخابات صحیح، صاف اور شفاف تھے۔ تاہم سیاسی بیانات کی حد تک کچھ رہنماؤں نے دھاندلی کے سنگین الزامات لگائے ہیں اور ان کا نشانہ ان کے مخالفین ہیں۔ ان میں سب سے پیش پیش ق لیگ کے سرکردہ لیڈر چوہدری پرویز الٰہی ہیں ۔ پیپلزپارٹی بھی الزامات لگارہی ہے مگر اس کا لہجہ اتنا زیادہ تلخ نہیں۔ اس طرح دونوں جماعتیں اپنی بدترین شکست کی وجہ سے ہونے والی خفگی مٹانے میں لگی ہوئی ہیں۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ ان کے ہارنے والے کسی ایک امیدوار نے بھی دھاندلی کا الزام نہیں لگایا اور نہ ہی اپنی جماعت کو کوئی ثبوت دیا ہے جس سے فراڈ ثابت ہو سکے۔ باقی رہی بات سرکاری ذرائع کے استعمال کی تو پیپلزپارٹی اور ق لیگ کے مشترکہ امیدواروں نے کھل کر وفاقی حکومت کے ذرائع سے فائدہ اٹھایا اور ن لیگ کے نمائندوں نے پنجاب حکومت کے خزانے سے ترقیاتی اسکیموں پر دل کھول کر خرچ کیا۔ یہ”دھاندلی“ ہر ایک نے اپنی سکت کے مطابق کی لہٰذا ان کے ایک دوسرے کے خلاف سرکاری ذرائع کے استعمال کے الزامات بے معنی ہیں کیونکہ دونوں اس ”جرم“ میں برابر کے شریک ہیں۔ آزاد الیکشن کمیشن اور متحرک الیکٹرانک میڈیا جو ہر خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کرتا ہے کی موجودگی میں ضمنی انتخابات میں دھاندلی بہت مشکل تھی۔ جب چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب حکومت پر دھاندلی کے الزامات کی بارش کی تو صوبائی الیکشن کمشنر نے موقف اختیار کیا کہ انہیں اس قسم کے الزامات کے بارے میں ایک بھی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ الزامات لگانے والوں کو چاہئے کہ وہ الیکشن کمیشن کو ٹھوس ثبوت بھی فراہم کریں ۔ ساتھ ساتھ عدالتوں کے دروازے بھی کھٹکھٹائیں تاکہ دھاندلی کو آشکار کیا جاسکے اور جن امیدواروں نے دھاندلی کی انہیں نااہل قرار دیا جاسکے۔
ہمارے جیسے ممالک میں ہارنے والے کبھی بھی خندہ پیشانی سے شکست تسلیم نہیں کرتے بلکہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے والے اصول کی پیروی میں لگے رہتے ہیں اور اس طرح سوائے اپنے آپ کے کسی کو دھوکہ نہیں دیتے۔ پیپلزپارٹی اور ق لیگ کو یہ مان لینا چاہئے کہ ان کے اتحاد کو بالکل عوامی پذیرائی نہیں ہوئی۔ اگر ضمنی انتخابات کچھ ظاہر کرتے ہیں تو یہ کہ ان دونوں کے ملا کر بھی ووٹ پہلے سے کچھ کم ہوئے ہیں جب کہ ن لیگ کی مقبولیت بڑھی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے چاہے وہ مانیں یا نہ مانیں۔ ہوا یوں ہے کہ تیر( پیپلزپارٹی کا انتخابی نشان) نے سائیکل ( ق لیگ کاانتخابی نشان ) کو پنکچر کر دیا ہے اور سائیکل نے تیر کو روندھ دیا ہے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج ان دونوں جماعتوں کے لئے لمحہٴ فکریہ ہیں۔ اگر 2013ء کے عام انتخابات میں ووٹروں کا یہی رجحان رہا تو پیپلزپارٹی اور ق لیگ کو تو جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ انہیں ابھی سے نئی حکمت عملی بنانی ہو گی۔ یہ بات کافی حد تک طے ہو گئی ہے کہ پیپلزپارٹی کا ورکر ق لیگ کے امیدواروں کو ووٹ دینے کے لئے تیار نہیں اور ق لیگ کے کارکنوں کا پیپلزپارٹی کے نمائندوں کے بارے میں بھی ایسا ہی رویہ ہے ۔ ق لیگ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی کشتیاں جلا چکی ہے اور اس کے پاس کوئی سیاسی آپشن نہیں سوائے اس کے کہ وہ پیپلزپارٹی کے ساتھ اپنا اتحاد قائم رکھے ۔ اس کی خواہش اور کوشش ہے کہ وہ ن لیگ کے ووٹ توڑ کر اس کی لیڈر شپ کی گردن میں غرور کا سریا ڈال دے ۔ اس کا خیال ہے کہ وہ اس طرح لیگی ووٹ تقسیم کر کے ان حلقوں میں جہاں ن لیگ کے امیدوار کم مارجن سے جیتے ہیں کو ہرایا جا سکے تاہم یہ پلان ضمنی انتخابات میں مکمل ناکام رہا ۔ بہت سے حلقوں میں فرق بہت زیادہ رہا اور ق لیگ کوئی خاطر خواہ اثر نہ دکھا سکی۔ ق لیگ کی پریشانی اپنی جگہ، پیپلزپارٹی کی بھی حالت کافی پتلی رہی۔ اسے امید تھی کہ منظور وٹو کو سینٹرل پنجاب کا صدر بنانے کے بعد اس کی پوزیشن کافی بہتر ہو جائے گی مگر اس سے کچھ فرق نہیں پڑا حالانکہ بہت سے ضمنی انتخابات ان علاقوں میں ہوئے جو سینٹرل پنجاب میں واقع ہیں۔ منظور وٹو والا تجربہ کامیاب ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اس صوبے میں لیڈر شپ کی مکمل ناکامی کے بعد پیپلزپارٹی انہیں آخری آپشن کے طور پر لائی ہے وہ بھی عام انتخابات سے چند ماہ قبل۔ مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ الیکشن میں کام دکھا سکیں۔ ان کے آنے سے پارٹی کو فائدہ تو کچھ نہیں ہوا تاہم ق لیگ میں بدگمانیاں ضرور بڑھی ہیں کیونکہ اس کی لیڈر شپ کے خلاف منظور وٹو کے بارے میں سخت تحفظات ہیں ۔ اگر ایک طرف ان ضمنی انتخابات نے ق لیگ اور پیپلزپارٹی کو پشیمان کیا ہے تو انہوں نے ن لیگ کی اڑان مزید اونچی کر دی ہے اور اب نوازشریف آئندہ الیکشن میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی باتیں کرنے لگے ہیں جو کہ یقینا بہت بڑی توقع ہے۔
اگر اندرون خانہ کوئی کھچڑی پک رہی ہے تو اور بات ہے مگر سب ظاہری شواہد بتاتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات وقت پر سال 2013ء میں منعقد ہوں گے۔ تاہم پھر بھی کچھ حلقے الیکشن کے ایک سال التواء کے خدشے کا اظہار کر رہے ہیں ۔ یہ ممکن ہے کہ پیپلزپارٹی اور ق لیگ چاہتی ہو کہ انہیں حکومت میں رہنے کا کچھ اور موقع مل جائے کیونکہ انہیں اگلے انتخابات میں شکست نظر آرہی ہے۔ مگر یہ کئی بار ثابت ہو چکا ہے کہ موجودہ حکومت عوامی دباؤ کا مقابلہ کرنے کی سکت اور جرأت نہیں رکھتی، وہ کیسے انتخابات کے التوا کا بہت بڑا فیصلہ کر سکتی ہے ۔ ویسے بھی الیکشن ملتوی کرنے سے سوائے خرابی اور عدم استحکام کے کچھ نہیں ہو گا جس کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ پہلے ہی ہمارے مسائل کچھ کم ہیں کہ نئے محاذ کھول لئے جائیں۔ ن لیگ، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور دوسری تمام سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ انتخابات وقت پر ہوں۔ پاکستان میں یہ بھی مثال قائم ہونی چاہئے کہ ایک جمہوری حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی، انتخابات کرائے اور پُرامن انتقال اقتدار کیا وہ بھی کسی ڈکٹیٹرکی چھتری کے بغیر۔ سب سیاسی جماعتوں خصوصاً اپوزیشن کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی۔ کراچی میں فوج اور ایف سی کی مدد سے ووٹروں کی تصدیق اور نئی حلقہ بندیاں کرانا کسی بھی طرح عام انتخابات کے التوا کا سبب نہیں بننا چاہئے ۔ ویسے بھی جو حضرات الیکشن کو ملتوی کرنے کا سوچ رہے ہیں وہ بھول رہے ہیں کہ ایک آزاد عدلیہ بھی موجود ہے جس نے جمہوری نظام کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
تازہ ترین