• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف …رخسانہ رخشی،لندن
’’سماں‘‘ ایک خوبصورت کیفیت کا نام ہے وقت، ساعت، موقع محل، رت، حالت عالم، رونق، لطف جوبن، تماشہ، سیر، نظارہ یہ تمام کیفیات کا بس ایک ہی نام ہے ’’سماں‘‘ یہ سماں کبھی بندھ بھی جاتا ہے اور ایسا بندھتا ہے کہ ایک عالم پر طاری رہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جب سے انسانی زندگی کا باقاعدہ کاروبار شروع ہوا ہے تب سے انسانی جان اس کیفیت سے دوچار ہے بلکہ اس میں اسیر ہے۔ اسے خوبصورت سماں نہیں کہہ سکتے کیونکہ لمحہ لمحہ بدلتے حالات کے اتار چڑھائو کو ہم کسی بھی طور بھی لطف، رونق، جوبن، نظارہ وغیرہ نہیں کہہ سکتے۔ ہاں دلچسپ حالات ضرور کہہ سکتے ہیں جو اس کے لاگو ہوتے یا عوام کے سر تھوپنے پر ہم اسے کہتے ہیں۔
تو یہ ’’سماں گرانی کا سماں‘‘ ہے جسے ہم ’’مہنگا سماں‘‘ کہتے ہیں اس مہنگے سماں سے اونچے دام آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں۔ پس اس ’’مہنگے سماں‘‘ کو ہم مہنگائی کہتے ہیں۔ سلطنت، عوام اور اداروں کا بے حد دلچسپ سماں بندھ جاتا ہے جب مہنگائی پر طرح طرح کے مکالمے بولے جاتے ہیں، گئی آئی حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ عام لوگ کہتے پائے جاتے ہیں کہ فلاں فلاں حکمران کا دور اچھا تھا کم از کم گرانی کا سماں تو نہ تھا۔ مگر ہم تو کہیں گے کہ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے دین اسلام پھیلنے سے پہلے یا بعد اس قسم کے مسائل سے واسطہ پڑتا رہا ہے۔ چاہے وہ ناپ تول میں کمی بیشی ہو یا قحط لے آنا ہو اشیاء کو ذخیرہ کرکے یہ تمام کام مہنگائی پھیلانے میں معان ثابت ہوتے ہیں۔
ہماری نانی اور دادی کے ادوار میں بھی مہنگائی کے سماں بندھتے رہے ہیں میٹھی میٹھی سی مہنگائی یعنی ہلکے ہلکے سے دستک دیتی مہنگائی سنا ہے ایسے لطف دیتی تھی گویا کوئی تہوار اچانک نازل ہوگیا ہو۔ ہلکی ہلکی بڑھتی مہنگائی میٹھی میٹھی چبھن دیتی آج کے دور کی طرح نہیں کہ تابڑتوڑ حملے ہوتے رہیں، مہنگائی کی چابک پڑتی رہے، کمر ٹھونک کر مہنگائی کا نزول ہو اور عام انسان کی کمر توڑ کر چلی جائے۔ تو بات ہورہی تھی کہ ماضی کے ادوار میں گرانی کمر کس کرنازل نہیں ہوتی تھی بلکہ ایسے ہوتی تھی کہ لوگ ہلکا لیتے تھے ایک نئی سی تبدیلی کی طرح۔ آج کی طرح نہیں کہ ہزاروں قسم کے جرائم قتل و غارت گری، مار دھٓاڑ غنڈہ گردی، ظلم و زیادتی اور اس پر ستم یہ کہ مہنگائی کی چابک کھا کر لوگ خودکشی بھی کرنے لگیں نہ صرف خود کو مار لیں بلکہ خاندان کو بھی مہنگائی کی بھینٹ چڑھا کر مار ڈالیں، اپنے بچوں کو بیچنے لگیں سستے داموں یعنی کہ اشیائے خوردنی مہنگی سے مہنگی ہوں اور لوگوں کے جگر گوشے سستے داموں بکیں۔
پہلے کسی زمانے میں اگر کوئی اپنے ہاتھوں یا حالات کے ہاتھوں غربت کی نذر ہوتا تھا تو وہ کسی کو مارتا نہیں تھا نہ ہی چوری ڈکیتی کرتا تھا آج کی طرح بلکہ وہ جاکر درگاہوں اور مزاروں پر صفائی شروع کردیتا تھا کہ دو وقت کا کھانا ملے گا ورنہ وہیں بیٹھ کر بھیک مانگ لیتا تھا اور تو اور کوئی جسمانی بیماری نہ ہو تو محنت مشقت سے کام لیتا تھا یعنی کئی قسم کے حربے استعمال کرتا تھا اپنے حالات بدلنے کو۔ مجرمانہ سرگرمیاں بہت کم تھیں، بہت کم لوگ تھے جو مجرمانہ ذہن رکھتے تھے اور جرم کا ارتکاب کرتے تھے۔ ویسے یہاں یورپ میں بھی مہنگائی کم نہیں ہوتی مگر وہ کیا ہے کہ پرانے زمانے کی گرانی کی طرح کہ ایشین ممالک میں جیسے بھونچال نما گرانی بڑھتی ہے ویسی نہیں آرام سے پھیلتی ہے بہت دنوں بعد لوگوں کو معلوم پڑتا ہے پھر وہ جب چیز دیکھتے ہیں تو تب بولتے ہیں کہ اچھا اسکی قیمت پہلے اتنی تھی اور اب ایک سے لیکر دس پینی یا 5پی بڑھ گئی ہے۔ لوگ گرانی کا توڑ بھی اپنے طریقے سے کرلیتے ہیں کچھ لوگ اخراجات میں کمی کردیتے ہیں یورپ میں جب لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم باہر جاکر خوب خرچ نہیں کرسکتے تو وہ آئوٹنگ کم کردیتے ہیں۔ ریسٹورانٹ کی بجائے گھر میں کھانا تیار کرتےہیں۔ ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ یورپ میں لوگ مہنگائی سے تنگ پڑیں یا مہنگائی کا توڑ یوں کرتےہیں کہ اپنے گھر بیچ کر چلتے پھرتے گھر یعنی کاروان میں رہنا شروع کردیتے ہیں اسی کاروان میں سیر سپاٹا بھی ہوگیا اور رہائش بھی ہوگئی ایک دفعہ ناروے میں کچھ برطانوی لوگوں سے ہم نے پوچھا کہ انگلینڈ میں کہاں رہتے ہیں تو کہنے لگےاسی کاروان میں رہتے ہیں ہمارا کوئی شہر یا مستقل ٹھکانہ نہیں۔ اسی طرح گرانی کے سماں سے بھاگتے ہوئے ایک برطانوی خاندان نے اس کا حل یوں نکالا کہ اپنا لگثری گھر بیچ کر کشتی میں رہنا شروع کردیا وہ ایسے کہ گھر فروخت کیا کوئی ڈھائی لاکھ پائونڈ میں اور کشتی خریدی اسی ہزار پائونڈ میں اور پھر خاندان سمیت اسی میں اپنی رہائش اختیار کرلی۔ دیکھئے سکون کا سکون، بچت کی بچت۔ اسی طرح ہماری بات ادھوری رہ گئی کہ نانی دادی کے زمانے میں بھی گرانی ہلکے سے دستک دیتی تھی جیسے موسم انگڑائی لے، جیسے رت بدل جائے، پرانے وقتوں کی جوان بوڑھیاں طرح دار قسم کی خواتین تخت پر بچھی سفید چاندنی گول تکیوں سے ٹیک لگائے اپنے پان کی گلوری تیار کرتے ہوئے کہتی تھیں، آئے ہائے گرانی کا سماں پھر سے بندھ گیا ابھی چند سال پہلے ہی تو اسکے بڑھنے کا چرچا ہوا تھا۔ پھر گلوری بھرےمنہ کو پیک دان میں اگلتے ہوئے کہتیں اے مٹی ڈالدو اس گرانی پہ، پر یہ بتائو سنیما کی ٹکٹ پر تو اس کا اثر نہ ہوا ہے کہ صبیحہ خانم کے بعد ہم نے زیبا اور شمیم آرا کی فلمیں دیکھنا شروع کرنی ہیں۔ صبیحہ سنتوش کے دور میں تو چونی اٹھنی میں بھی فلمیں دیکھی ہیں ہم نے۔ غرض ہر حیثیت کے لوگ مہنگائی پر اپنے اپنے انداز میں واویلا کرتے۔ بہت بڑے خاندان یعنی بیس تیس نفوس پر مشتمل خاندان کی بہوئوں کوئی مسالا سل بٹے پر پیستے، کوئی شامی کباب کا قیمہ پیستے اور کوئی پالک پیستے ہوئے اپنے اپنے شوہر کی طرف سے صادر حکم اور پیغام ایک دوسرے تک پہنچاتیں کہ نشی کہے ابی کہہ رہے تھے اس عید پر مٹھائی باہر سے کم آئیگی اور گھر پر ہی میٹھے پکوان تیار ہونگے، یہ ہی سل بٹہ استعمال کرتی سب سے چھوٹی بہو بھی گرامی منش یعنی بزرگ بن کر اپنے میاں کا پیغام پہنچاتیں کہ گڈو کے ابا بھی کہہ رہے تھے شیرمال باہر سے نہیں آئیں گے گھر میں ہی اس دفعہ قورمے سے گھر کی روٹی چلے گی، منجھلی بہو بولی اس دفعہ شیرخرمہ نہیں بنے گا شاہی ٹکڑوں کی فرمائش ہے وہ ہی بنائوں گی۔ یوں ہی نیا اور پرانا دور ہنسی خوشی گرانی قبول کرتے ہوئے اور ہر مہنگی شے کا توڑ اور ترکیب اور نعم البدل ڈھونڈتے گزرہی جاتا ہے۔ پرانے دور کی خواتین کی تراکیب سے یا برطانوی لوگوں کی سمجھ بوجھ سے تو کیوں ناحالیہ گرانی کا سماں بھی ہنستے کھیلتے کسی نہ کسی طرح گزار دیں اچھے دنوں کے انتظار میں۔
تازہ ترین