• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان دنیا کا وہ بدقسمت ملک ہے جہاں پچھلے چار عشروں سے بڑی طاقتوں کے مفادات کی جنگ کے نتیجے میں بدترین بدامنی اور خوں ریزی جاری ہے۔ پچھلی صدی کی آٹھویں دہائی کے آخری برسوں میں سوویت یونین اور موجودہ صدی کے پہلے سال میں امریکہ کی فوجی مداخلت نے افغان عوام کے لیے امن و آشتی کے روز و شب کو ایک بے تعبیر خواب بنا دیا ہے۔ سوویت یونین کو سخت جان مقامی مزاحمت کے سبب ایک عشرے کے اندر نہ صرف افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کرنا پڑا بلکہ اپنے وجود سے بھی ہاتھ دھونا پڑے جبکہ امریکہ کی سیاسی اور عسکری قیادت بھی 17سال کی جنگ میں ناقابل شکست مزاحمت سے دوچار رہنے کے بعد اب اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں اور امن کے قیام کے لئ ے مقامی مزاحمت کاروں یعنی تحریک طالبان سے بات چیت ضروری ہے۔ پاکستان پچھلے کئی برسوں سے اسی موقف کا علمبردار ہے اور امریکہ کی حمایت اور چین کے تعاون سے حکومت پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کئی کوششیں بھی کر چکی ہے جو آخری مراحل میں امریکی ڈرون حملوں میں طالبان رہنماؤں کی ہلاکت کے نتیجے میں ناکام ہو گئیں، تاہم گزشتہ روز ماسکو فورمیٹ کے نام سے روسی دارالحکومت میں افغانستان میں امن کے لیے ایک بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد نے جس میں پاکستان، چین، ایران، بھارت، افغانستان، امریکہ اور طالبان سمیت گیارہ ملکوں کے وفود شریک ہوئے، امید کا ایک نیا چراغ روشن کر دیا ہے۔ ایک امریکی اخبار کے مطابق کانفرنس کے دوران بظاہر کوئی بریک تھرو سامنے نہیں آیا، تاہم شرکاء نے بجا طور پر کانفرنس کے انعقاد ہی کو کامیابی قرار دیتے ہوئے مستقبل میں ایک اور بیٹھک پر اتفاق کیا ہے لیکن فی الحال اس کی تاریخ طے نہیں کی گئی۔ افغان طالبان کے وفد کا یہ ماسکو کا پہلا سرکاری دورہ تھا جسے اس کی بڑی سفارتی کامیابی سمجھا جا رہا ہے۔ کانفرنس میں شرکت سے قبل طالبان وفد میں شامل ایک رکن نے کہا ’’ہم اس کانفرنس میں اس لیے شرکت کر رہے ہیں کیونکہ ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم بھی افغان مسئلے کے پُرامن حل کے خواہاں ہیں اور اس مقصد کیلئے کسی بھی اجلاس میں شریک ہو سکتے ہیں‘‘۔ مذاکرات کا آغاز روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کی تقریر سے ہوا، جن کا کہنا تھا کہ روس افغانستان میں امن کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھے گا اور امید ہے کہ ماسکو اجلاس میں افغانستان امن عمل سے متعلق سنجیدہ اور تعمیراتی بات چیت ہو گی۔ کانفرنس میں پاکستانی وفد کی قیادت دفتر خارجہ کے ایڈیشنل سیکرٹری برائے افغانستان و مغربی ایشیا محمد اعجاز نے کی۔ دفتر خارجہ کے مطابق اجلاس میں پاکستانی وفد نے افغانستان میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کیلئے پاکستانی عوام کے برادرانہ جذبات کو اجاگر کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان نے کئی سال قبل افغان تنازع کے حل کیلئے افغان حکومت اور عوامی قیادت کے درمیان بات چیت کو ضروری قرار دیا تھا جسے آج بطور بین الاقوامی رہنماء اصول اختیار کیا گیا ہے۔ پاکستانی وفد نے اس بات پر زور دیا کہ نتیجہ خیز امن عمل کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنا تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور واضح کیا کہ افغان تنازع کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ دوسری جانب پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے گزشتہ روز سینیٹ کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان نے امریکہ پر واضح کر دیا ہے کہ افغانستان میں اس کی ساری توقعات پاکستان پوری نہیں کر سکتا۔ کسی دوسرے ملک کی خواہش پر ہم ایران سے تعلقات خراب نہیں کریں گے اور امریکی پابندیوں کے باوجود ایران سے تجارتی روابط قائم رکھیں گے۔ پاکستان کا یہ دوٹوک موقف یقینی طور پر ہمارے قومی مقاصد اور مفادات کے مطابق ہے۔ امریکی قیادت کو بھی دنیا کے بدلتے ہوئے حقائق اور حالات سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنا ہو گا۔ طاقت کے بل پر دوسری قوموں سے اپنے مطالبات منوانے کی روش کی کامیابی تیزی سے بدلتی دنیا میں اب کامیاب نہیں ہو سکتی۔ افغانستان کا تجربہ سوویت یونین کی طرح امریکہ کو بھی یہ سبق سکھانے کے لیے کافی ہونا چاہئے۔

تازہ ترین