• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹی بی ایک موذی اور دائمی مرض ہے جس کا وجود بھی وطن عزیز میں ایک دائمی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ یہ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد کے ابتدائی برسوں میں سنگین صورت اختیار کر گیا تھا، اس وقت نہ اس سے بچائو کی کوئی ویکسین تھی اور نہ ہی علاج معالجے کے لئے دوسری ادویات۔ آج یہ سب کچھ میسر ہونے کے باوجود ملک میں ٹی بی کے صرف رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد ساڑھے سولہ لاکھ سے متجاوز ہو چکی ہے جبکہ غیر رجسٹرڈ مریضوں کے شامل کر لینے سے مزید آٹھ لاکھ کے اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ یہ صورتحال پوری قوم خصوصاً حکومتی حلقوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ٹی بی انفیکشن کے باعث پیدا ہونے والا مرض ہے جو عموماً پھیپھڑوں میں لاحق ہوتا ہے، تاہم بعض حالات میں یہ جسم کے کسی بھی حصے میں نمودار ہو سکتا ہے۔ غربت، تنگ دستی، تنگ و تاریک ماحول، غذائیت و پروٹین کی کمی اس کے اسباب ہیں ان حالات میں سگریٹ نوشی جلتی پر تیل کا کام دیتی ہے۔ ماہرین اس مرض کی بڑی وجہ اس سے آگہی کے فقدان کو قرار دیتے ہیں۔ لوگوں میں عموماً اس مرض کی تشخیص اس وقت ہوتی ہے جب یہ بہت بڑھ چکا ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ٹی بی اگرچہ سو فیصد قابل علاج ہے، تاہم ادویہ کی کمی کے باعث مریضوں کی بہت بڑی تعداد علاج معالجہ سے محروم رہ جاتی ہے۔ ساتھ ہی فنڈز کی کمی اس مرض کے مکمل خاتمے کے سلسلے میں سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس وقت میسر بجٹ 62ملین ڈالر سالانہ ہے جبکہ حکومت اس رقم کا محض ایک فیصد فراہم کرتی ہے جبکہ سالانہ 69ملین ڈالر مزید درکار ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک بھر میں ٹی بی کے مریضوں کی مجموعی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے نظرثانی شدہ تخمینہ لگایا جائے، صحت کے عالمی ادارے انتہائی متحرک اور فعال ہیں۔ یہ مرض چونکہ غریب طبقے میں عام ہے اس لئے عالمی اداروں کی توجہ دلائی جائے اور مرض کے خاتمے کے لئے ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون کیا جائے۔ حکومت کو اس معاملے میں خصوصی توجہ دینا چاہئے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین