• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک ِخداداد پاکستان کے چاروں صوبے دوسرے قدرتی وسائل کی طرح جنگلی حیات جیسی نعمت سے بھی مالا مال ہیں لیکن اس کی حفاظت میں ہم سخت کوتاہی برت رہے ہیں۔ جنگلات کا ایک بڑا حصہ ٹمبر مافیا کی نذر ہو گیا۔ قانون اور اس کے محافظوں کے ہوتے ہوئے بھی جنگلی جانوروں کا شکار معمول کی بات ہے، تاہم وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے صوبے میں سائبیریا سے آنے والے نایاب پرندوں کے غیر قانونی شکار کا سختی سے نوٹس لے کر درست اقدام کیا ہے۔ غیر قانونی شکار کی مکمل روک تھام کو یقینی بنانے کی جو ہدایت انہوں نے ڈپٹی کمشنروں کو دی ہے اس پر مؤثر عمل درآمد اسی صورت میں ممکن ہے کہ سب سے پہلے محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کے ان ملازمین کی کڑی نگرانی کی جائے جو غیر قانونی شکار میں سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ ان کی ملی بھگت کے بغیر کسی کے لیے بھی قانون کی خلاف ورزی ممکن نہیں۔ یہ بات ملک کے چاروں صوبوں، شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر حکام کیلئے نہایت قابلِ توجہ ہے کہ نایاب جنگلی جانوروں کا غیر قانونی شکار زیادہ تر بااثر اور علاقائی وڈیروں کے ایما پر ہوتا ہے یہی بات بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے بھی محکمہ تحفظ ِجنگلی حیات کو اپنے ہدایت نامے میں کہی ہے کہ مینڈیٹ اور قانونی اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتی جائے۔ جنگلی حیات کی بقا پاکستان جیسے سیاحتی، سرسبز و شاداب اور قدرتی حسن رکھنے والے ملک کا نہایت قیمتی اثاثہ ہے۔ تحفظ کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ بھی ضروری ہے۔ یہ علاقے وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں سے دور واقع ہیں جس کی وجہ سے اعلیٰ مرکزی حکام کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں لہٰذا صوبائی قیادتوں کو اپنی ترجیحات میں محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کافروغ بہرصورت شامل رکھنا موجودہ اور آنے والے وقت کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اس کا اہتمام نہ کیا گیا تو ملک میں جنگلات اور جنگلی حیات معدوم ہو جائیں گی جو ایک ناقابل تلافی قومی نقصان ہو گا۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین