’’یہ سب میری ماں کی دعا ہے‘‘
بس، ٹرک، کار یا رکشہ کے پیچھے لکھا یہ جملہ دیکھتا ہوں تو دل سے اِک ہوک سی اٹھتی ہے کہ کیا باپ کو حرفِ دعا یاد نہیں رہتے یا پھر اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں؟ کچھ آگے بڑھتا ہوں اور مائوں کی یاد میں بنائے گئے شوکت خانم اسپتال، صغریٰ شفیع میڈیکل کمپلیکس اور اس طرح کے بیشمار فلاحی ادار ے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں تو باپ ہونے کے ناتے احساسِ محرومی کا شکار ہو جاتا ہوں۔ ادب کی دنیا کا رُخ کرتا ہوں تو یہاں بھی باپ کی بے ادبی پورے جوبن پر نظر آتی ہے۔ روسی ادیب میکسم گورکی کا شہرہ آفاق ناول ’’مادر‘‘ کسے یاد نہیں اور پھر قدرت اللہ شہاب کی تصنیف ’’ماں جی‘‘ کو کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔ دنیا کی شاید ہی کوئی ایسی زبان ہو جس میں ماں کی عظمت پر کتابیں نہ لکھی گئی ہوں لیکن بیچارے باپ کو کسی ادیب نے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ یہاں تک کہ ملک اور وطن کی بے مثال محبت کی مثال دینا ہو تو ممتا کا استعارہ ڈھونڈا جاتا ہے اور ماں سے تشبیہہ دیتے ہوئے مادرِ وطن یا دھرتی ماں کہا جاتا ہے۔ اس صنفی امتیاز پر دل کڑھتا ہے تو سوچتا ہوں از رہِ احتجاج اپنی گاڑی پر یہ جملہ چسپاں کروا دوں ’’یہ سب میرے باپ کی عطا ہے‘‘۔
بیٹے کی حیثیت سے ماں کے بارے میں میرے جذبات و احساسات بھی وہی ہیں جو آپ جابجا ملاحظہ کرتے ہیں لیکن ایک باپ کے طور پر انتہائی مضطرب اور انسانی معاشرے سے سخت نالاں رہتا ہوں اور میرا خیال ہے کہ باپ کو وہ جائز مقام نہیں دیا گیا جس کا وہ مستحق تھا۔ ماں کے قدموں میں جنت ہے لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ باپ اپنے بچوں کی زندگی کو جنت کا باغ بنانے کے لئے دن رات محنت و مشقت کے دوزخ میں جلتا رہتا ہے؟ بچہ ماں کی کوکھ میں ضرور پلتا ہے لیکن زچہ و بچہ کی آسانی و آسائش کے لئے دنیا جہان کی نعمتیں لاکر قدموں میں کون ڈھیر کرتا ہے؟ بچے ماں ہی نہیں باپ کے لئے بھی لختِ جگر اور نورِ نظر ہوتے ہیں، باپ ان کی ایک قلقاری پر صدقے واری ہو جاتا ہے۔ بچہ چلنے کےلئے پہلا قدم اٹھاتا ہے تو باپ کی آنکھوں میں تلاطم آ جاتا ہے۔ اس کی کوئی بھی فرمائش و خواہش جائز ہو یا ناجائز، باپ اپنی استطاعت و مالی حیثیت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پوری کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ باپ اپنی خواہشوں کا گلہ گھونٹ دیتا ہے تاکہ اس کے بچوں کو کسی کمی کا احساس نہ ہو، اپنی زندگانی یہ سوچ کر تباہ حال کر لیتا ہے کہ اس کی اولاد کا مستقبل خوشحال ہو۔ بچوں کو سونے کا نوالہ کھلاتا ہے اور شیر کی آنکھ سے دیکھتا ہے تو اس سختی میں بھی اولاد کی تعلیم و تربیت کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ سر تسلیم خم کہ مائوں کے دل بہت نرم و نازک ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں کٹھور دل باپ کی سنگدلی کے فسانے کچھ ایسے تراشے گئے کہ گویا گوشت پوست کے اس انسان کے سینے میں دل ہی نہیں دھڑکتا۔ ناانصافی کا یہ عالم ہے کہ خدا نخواستہ رشتہ ازدواج میں کوئی دراڑ آ جائے تو بچے شفیق باپ سے جدا کرکے ماں کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں ہاں مگر بچوں کے اخراجات کا بوجھ بدستور اسی باپ پر ہی لدا رہتا ہے جسے اپنی اولاد سے کبھی کبھی یوں ملوایا جاتا ہے جیسے قیدیوں کو چند لمحوں پر مشتمل ملاقات کی خیرات دی جا رہی ہو۔
حقیقت تو یہ ہے کہ غیر ذمہ داری اور غفلت کا صنف سے کوئی تعلق نہیں۔ بعض مائیں اپنے بچوں کو چھوڑ کر فرار ہو جاتی ہیں، کئی بے رحم خواتین اپنے بچوں کو قتل تک کر دیتی ہیں لیکن مخصوص حالات میں پیش آنے والے ان انفرادی واقعات کو ہم مثال بنا کر پیش نہیں کر سکتے لیکن کوئی باپ غیر ذمہ دار اور لاپروا ہو تو اس انفرادی مثال کو اجتماعی رویوں پر منطبق کر کے بے لاگ تبصرہ شروع کر دیا جاتا ہے کہ تمام باپ ہی اس قماش کے ہوتے ہیں۔ باپ کا تشخص بنانے یا بگاڑنے میں بھی ماں کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ بیشتر گھرانوں میں باپ کو ایک جلاد صفت اور سخت گیر شخص کے طور پر متعارف کرایا جاتا ہے۔ مائیں بچوں کو ڈرانے کے لئے باپ کا نام دھمکی آمیز انداز میں استعمال کرتی ہیں، اگر تم نے ایسا کیا تو تمہارے باپ کو بتا دوں گی، بلائوں تمہارے باپ کو؟ اور اگر میاں بیوی کے تعلقات خوشگوار نہ ہوں تو پھر بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں کیونکہ ماں لمحہ بہ لمحہ ان کے کان بھرتی ہے کہ تمہارا باپ بہت غیر ذمہ دار اور لاپروا ہے، اس نے تمہارے لئے کچھ نہیں کیا، تمہیں پالنے کے لئے سب تکالیف میں نے ہی اٹھائی ہیں۔ یہ غیر ذمہ داری اور لاپروائی والا پروپیگنڈا تو اس تواتر اور تسلسل کے ساتھ کیا گیا ہے کہ اب تو باپ خود بھی اس بات پر یقین کرنے لگے ہیں کہ ہاں واقعی مائیں بہت فرض شناس ہوتی ہیں جبکہ باپ نہایت غیر ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ماں کی عظمت اپنی جگہ لیکن یہ کیا کہ بچے باپ کو محض اپنی ماں کا شوہر ہی سمجھنے لگیں جس کا نام صرف ولدیت کے خانے میں لکھوانا ضروری ہے۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ اگر اولاد بری اور بدخصلت ہو، کوئی کام دھندہ نہ کر پائے یا پھر غلط راستے پر چلی جائے تو ہر گالی باپ کو ہی پڑتی ہے۔ بچوں کے کرتوت اچھے نہ ہوں تو رسوائی اور جگ ہنسائی باپ ہی کے حصے میں آتی ہے، تب کوئی نامعقول یہ نہیں کہتا کہ یہ سب میری ماں کی دعا ہے لیکن دن پھر جائیں، وارے نیارے ہو جائیں تو طمطراق سے لکھواتے ہیں، یہ سب میری ماں کی دعا ہے۔ ایسی صورت میں یہ کہتے ہوئے منہ میں آبلے یا دندل کیوں پڑ جاتے ہیں کہ یہ سب میرے باپ کی عطا ہے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)