• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے قومی احتساب بیورو (نیب) لاہور کے ڈائریکٹر جنرل شہزاد سلیم کے انٹرویوز پر تحریک استحقاق جمع کرانے سے پیدا ہونے والی صورتحال انتہائی افسوس ناک ہے۔ دنیا کو یہ تاثر جا رہا ہے کہ پاکستان کے ریاستی اور سیاسی اداروں میں ٹکراؤ کی کیفیت ہے۔ یہ افسوسناک صورتحال اس امر کی نشاندہی ہے کہ پاکستان کے ہر شعبے میں انحطاط اور زوال پذیری کا عمل جاری ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا کہنا یہ ہے کہ ڈی جی نیب لاہور کے ٹی وی چینلز کو دیئے گئے انٹرویوز ارکانِ اسمبلی کا میڈیا ٹرائل ہیں۔ سیاست کو کنٹرول کرنے کیلئے نیب کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ احتساب نہیں بلکہ انتقام ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) جب حکومت میں ہوتی ہے تو نیب کے بارے میں تب اس کا یہ مؤقف کیوں نہیں ہوتا؟ اس نے اس وقت موجودہ نیب آرڈیننس کا دفاع کیا، جب دیگر سیاسی جماعتیں اس میں ترامیم یا منسوخی کی بات کر رہی تھیں۔ اس کے رہنما نیب کے شکنجے میں پھنسے ہیں تو انہیں نیب آرڈیننس پر بھی اعتراض ہے اور نیب کا ادارہ حقیقی مقتدر قوتوں کے ہاتھوں آلہ کار محسوس ہو رہا ہے۔

جہاں تک ڈی جی نیب لاہور کے ٹی وی انٹرویوز کی بات ہے تو اس کا جواز یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف متعدد مقدمات میں ملزم ہونے کے باوجود پارلیمنٹ کے فورم پر نیب کے خلاف تقریریں کرتے ہیں اور ان کی تقریروں کو لائیو کوریج ملتی ہے۔ نیب کو بھی اپنے دفاع کا حق ہے اور ڈی جی نیب لاہور نے یہ حق استعمال کیا۔ اگر حکومت نیب کے دفاع میں پارلیمنٹ کے اندر بات کرتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ حکومت نیب کو استعمال کر رہی ہے اور سیاسی مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اس جواز میں کسی حد تک وزن ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی تحریک استحقاق کی حمایت کی۔ مسلم لیگ (ن) اور دیگر سیاسی جماعتوں نے نیب کے خلاف محاذ کیوں بنایا اور نیب کی طرف سے میڈیا کا سہارا کیوں لیا گیا؟ اس سوال کا جواب صرف یہ ہے کہ ہم انحطاط اور زوال پذیری کا شکار ہیں۔

میں نے بار بار اپنی کالموں میں کھل کر یہ لکھا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سیاستدانوں کے خلاف احتساب کا جو عمل شروع ہوا تھا، وہ بدنیتی پر مبنی تھا۔ اس کا مقصد ملک میں مقبول سیاسی قیادت کو ختم کرنا اور سیاسی عمل کو کمزور کرنا تھا کیونکہ نئی مملکت کی اصل ہیئت مقتدرہ (اسٹیبلشمنٹ) کا مفاد اسی میں تھا کہ پاکستان میں سیاست پنپ نہ سکے۔ میں آج بھی اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ’’پروڈا‘‘ اور ’’ایبڈو‘‘ جیسے قوانین بدترین اور سیاہ قوانین تھے۔ اس کے بعد جو بھی احتساب کے قوانین بنے، ان میں بھی اس بدنیتی کا عنصر شامل تھا۔ احتساب کو سیاست کے خاتمے کیلئے استعمال کرنے کی وجہ سے پاکستان میں احتساب کے ادارے نہ بن سکے اور کرپشن میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا۔ 1970ء کی دہائی تک اگر سیاستدان یہ کہتےتھے کہ احتساب کے اداروں اور احتساب کے قوانین کو سیاست کو کنٹرو ل کرنے اور سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے تو وہ حق بجانب تھے لیکن انہوں نے یہ بات کھل کر کبھی نہیں کی۔ انہوں نے سیاسی ایشوز پر بات کی اور نظریاتی سیاست کی۔ انہوں نے اپنی سیاست سے غیر سیاسی قوتوں کو شکست دی یا پسپائی پر مجبور کیا۔ ان کا دامن صاف تھا۔ اس لئے ریاستی جبر و تشدد اور قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود انہیں اخلاقی برتری حاصل تھی۔ 1980ء کی دہائی کے بعد صورت حال تبدیل ہوئی۔ حقیقی مقتدر قوتوں کے اہداف اور مقاصد تو تبدیل نہیں ہوئے۔ ہمارے سیاسی قوتوں کے رویے تبدیل ہوئے۔ پچھلے 25۔30سالوں کے دوران ہمارے سیاسی حکمرانوں کی تاریخ صرف کرپشن، اقربا پروری اور بیڈ گورننس کی تاریخ ہے۔ 1980ء کے بعد ہر عشرے میں کرپشن بڑھتی گئی اور کرپشن کے خلاف شور و غوغا بھی بڑھتا گیا۔ ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کو کرپٹ قرار دیتی رہی۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے ’’سیف الرحمانی احتساب‘‘ رائج کیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومتیں احتساب کے عمل کو اس طرح مؤثر نہ بنا سکیں، جس طرح پیپلز پارٹی کی قیادت چاہتی ہو گی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ احتساب ہوا ہی نہیں۔

ایک تھیوری یہ ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے سے کچھ پہلے اور بعد میں تیسری دنیا کی سیاسی قوتوں کو کمزور کرنے کیلئے انہیں منصوبہ بندی کے تحت کرپشن میں لگا دیا گیا تاکہ ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے نفاذ کے خلاف کوئی مزاحمت نہ ہو۔ سیاسی قوتوں کو نظریاتی اور مزاحمتی سیاست سے بھی دور کر دیا گیا۔ اگر یہ تھیوری درست تسلیم کر لی جائے تو بھی اس ’’سامراجی منصوبہ بندی‘‘ کو تمام تر صورتحال کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ بددیانتی اور کرپشن انفرادی، اجتماعی اور انتخابی عمل ہے۔ بہرحال پاکستان تیسری دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہو گیا ہے، جہاں لوگ سیاست دانوں کی دولت، اثاثوں اور طرزِ زندگی کو دیکھ کر یقین کر چکے ہیں کہ ملک میں کرپشن ہو رہی ہے اگرچہ سیاست دانوں کے علاوہ دیگر لوگ بھی لوٹ مار میں پیچھے نہیں ہیں لیکن سیاست دانوں کی بات ہم اس لئے کر رہے ہیں کہ حالات کو بدلنے کے ذمہ دار یہی ہیں۔ آج سیاسی جماعتوں میں نظریاتی کارکنوں اور قربانیاں دینے والوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں ایشوز پر بات نہیں کرتیں۔ دنیا میں ہونے والے سیاسی مباحث سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں آج ہونے والے مباحث کا موازنہ اگر ماضی کے مباحث سے کیا جائے تو بہت افسوس ہوتا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کا وہ معیار نہیں رہا۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ملک میں سیاست ختم ہوتی جا رہی ہے۔

ارکانِ پارلیمنٹ کی اپنی مراعات کا مسئلہ ہو تو پورا ایوان ایک ہو جاتا ہے لیکن عوام کے مسائل اور ملک کو درپیش چیلنجز پر مکمل خاموشی ہے۔ صرف ان معاملات کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جا رہا ہے، جن کی نشاندہی میڈیا کرتا ہے۔ ارکانِ پارلیمنٹ کا اپنا کوئی وژن نہیں ہے۔ نئی پارلیمنٹ نے گزشتہ تین ماہ میں کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا ۔ یہ ٹھیک ہے کہ احتساب کے اداروں کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ ماضی کی طرح کسی ایجنڈے پر عمل نہیں کر رہے لیکن اداروں کو کسی مداخلت سے محفوظ بنانے کا کام بھی سیاست دانوں کو کرنا تھا۔ جیسا کہ 14مئی 2006کو لندن میں ہونے والے ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ میں کہا گیا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ آج کے سیاست دان یہ بات کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ احتساب کے اداروں کو سیاست کو کنٹرول کرنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ بات 1970ء کے عشرے تک سیاست دان کہہ سکتے تھے، جو انہوں نے نہیں کہی۔ انہوں نے ملک اور عوام کیلئے سیاست کی، جو آج کے سیاست دان نہیں کر رہے۔ ہر شعبے میں انحطاط اور تنزلی ہے لیکن سیاست میں انحطاط اور تنزلی انتہائی خطرناک ہے۔ خصوصاً جب سیاسی جماعتیں سیاست کے بجائے دیگر معاملات میں الجھی ہوئی ہوں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین