• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل مشرف دور میں میری اُس وقت کے ایک نامی گرامی سیکرٹری کیبنٹ سے کئی ملاقاتیں ہوئیں جن کا مقصد یہ تھا کہ کس طرح افسر شاہی یعنی سرکاری افسروں کو اُس غلامی سے نجات دلائی جائے جس کا اُس کو سامنا ہے تاکہ یہ افسران سیاستدانوں،ہر آنے والے حکمران، طاقتور اور اپنے سینئر ز کے مفادات کی تکمیل کی بجائے ملک اور عوام کے بہترین مفاد کے لیے کام کر سکیں۔ ان ملاقاتوں میں مجھے یقین دہانی کرائی کی گئی کہ سیکرٹری کیبنٹ سیکریٹریز کمیٹی کی میٹنگ میں ان مسائل کو اُٹھائیں گے تاکہ سول سروس کے اعلٰی افسران مل کر ایسی تجاویز تیار کریں جو سرکاری افسران کو اُس بیرونی دباؤ سے چھٹکارا دلوا سکیں جس کا اُن کو سامنا ہے اور جس کی وجہ سے سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد سیاستدانوں، حکمرانوں، طاقتور طبقات اور اپنے سینئرز کو خوش کرنے کے لیے ہر جائز و ناجائز کام کرتے ہیں چاہے اس کا ملک کو کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔اس دوران سیکریڑیز کمیٹی کی میٹنگ وقفہ وقفہ سے ہوتی رہی اور توقع یہ کی جا رہی تھی کہ سول سروس کو غیر سیاسی کرنے کے لیے سفارشات تیار کر کے حکومت کے سامنے منظوری کے لیے پیش کی جائیں گی۔ کچھ عرصہ کے بعد تمام وفاقی سیکریٹریوں کی اس وقت کے حکمران صدر مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز سے ملاقات رکھی گئی۔ میں امید کر رہا تھا کہ افسر شا ہی کے ”بڑے“ ملک و قو سر سے اُن اصلاحات پر بات کریں گے جو پاکستان کی بہتری کے لیے ناگزیر ہیں۔ مگران 22, 22 گریڈیوں نے صدر اور وزیراعظم سے وفاقی سیکریٹریوں کے لیے مراعات کا ایک ایسا نیا پیکچ منظور کروالیا جس کے مطابق ہر وفاقی سیکرٹری کو اسلام آباد میں دو دو کنال کے رہائشی پلاٹ ملیں گے۔ اس کے علاوہ ریٹائرمنٹ پر زندگی بھر کے لیے ڈرائیور اورخانساماں بھی ملے گا۔ شروع میں حکومت نے یہ مراعات صرف وفاقی سیکریٹریوں کے لیے مختص کیں مگر بعدازاں تمام 22 گریڈیوں کو ان انعام و اکرام سے نوازا گیا۔ میڈیا نے اس پر شور مچایا تو موجودہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے 3نومبر 2007 کے مشرف کی ایمرجنسی سے قبل اس مسئلہ پر سو موٹو لے لیا اور حکومت سے جواب مانگا کہ ریاست کی دولت کو ریوڑیوں کی طرح کیسے بانٹا جا سکتا ہے۔ مگر بیوروکریسی کی چال دیکھیں۔ جیسے ہی چیف جسٹس اور دوسرے باضمیر ججوں کو مشرف نے فارغ کیا، اپنے دو دو پلاٹ بچانے کے لیے فوری طور پر ایک اور نئی تجویز حکومت کے سامنے پیش کر دی گئی جس کا مقصد 22گریڈیوں کی طرح سپریم کورٹ کے ججوں کو بھی اسلام آباد میں دو دو پلاٹ دینا تھا۔ فوری طور پر اس تجویز کو وزیر اعظم سے منظورکروایا گیا اور ساتھ ہی ساتھ جسٹس ڈوگر کے ساتھ مشرف کے 2007 والے پی سی او کا حلف اُٹھانے والے سپریم کورٹ کے دوسرے ججوں کو بھی فوری طور پر دوسرا پلاٹ بھی الاٹ کر دیا گیا۔ڈوگر کورٹ نے بھی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سو موٹو کو فارغکرنے میں دیر نہ کی اور اس طرح 22 گریڈیوں نے اپنے ذاتی فائدے کو محفوظ بنانے کے لیے سپریم کورٹ کے ججوں کو بھی ان خصوصی عنایات میں اپنا حصہ دار بنا لیا۔ بعد ازاں گریڈ 17-21 کے ملازمین کے لیے شروع کیے ہاؤسنگ پروجیکٹ میں بھی یہ 22 گریڈیے شامل ہو گئے۔ آپ ان 22 گریڈیوں میں صاف اور ستھرے افسران کو انگلیوں میں گن سکتے ہیں مگر ابھی تک کوئی ایک سیکریڑی یا 22 گریڑیا نہیں ملا جس نے دوسرا پلاٹ اسلام آباد میں لینے سے انکار کر دیا ہو۔ سپریم کورٹ کے موجودہ ججوں میں سے اکثر نے اسلام آباد میں دوسرا پلاٹ لینے سے انکار کر دیا ہے اور اس کام میں شروعات چیف جسٹس صاحب کے انکار سے ہوئی۔ مگر یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست کی دولت کی اس انتہائی متنازع اور امتیازی تقسیم کو فوری روکا جائے جس کی توقع سپریم کورٹ کے علاوہ کسی سے نہیں۔حال ہی میں سپریم کورٹ نے سول سروس کوغیر سیاسی کرنے اور افسران کی تعیناتیوں کوتحفظ دینے کے لیے ایک بہتریں فیصلہ دیا مگر مجھے یقین ہے کہ سیاستدانوں سے زیادہ سول سروس کے اعلٰی افسران اس فیصلے کے راستہ میں رکاوٹ بنیں گے کیوں کہ اگر سول سروس غیر سیاسی ہو گئی تو پھر ان 22 گریڈیوں کی عیاشیوں اور لوٹ کھسوٹ کا کیا ہو گا۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ جوں جوں سرکاری افسر اپنی ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے توں توں وہ کمروز سے کمزور ہوتا جاتا ہے۔ ایک محدود طبقہ کے علاوہ سرکاری ملازمین عمومی طور پر اپنی ترقی اور بہتر عہدے کیلئے سیاستدانوں، حکمرانوں ، مہربانوں اور سینئرافسران کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو cream of the nation(قوم کا فخر) کہلوانے کا شوق رکھنے والوں کو اگر یہ خطرہ ہو کہ اپنے سے اوپر والے کا غیر قانونی حکم ماننے سے اُن کو اپنے عہدے سے فارغ ہونا پڑ سکتا ہے تو ایک بڑی تعدار ملک کو قوم کے کسی بھی نقصان کی پروا کیے بغیر ایسے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر بہت سے ”ایماندار“ آنکھیں بند کر لیتے ہیں جبکہ ایسے اعلٰی افسران کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے جو غلط کو غلط کہنے کی جرأت رکھتے ہیں ۔ پاکستان کرپشن میں دنیا کے بدترین ممالک میں شامل ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ کوئی بھی پروجیکٹ ہو یا ادارہ سیاستدان اور حکمران افسر شاہی کی مدد اور شمولیت کے بغیر لوٹ کھسوٹ نہیں کر سکتے۔یہاں تو اپنے عہدوں اور ترقیوں کے لیے لوٹ کھسوٹ کا راستہ بھی افسر شاہی ہی دکھاتی ہے۔حال ہی میں متنازعہ طور پر اسلام آباد میں تعینات کچھ چھوٹے افسران کو غیر قانونی طور پر اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک وفاقی وزیر کے ایماء پر عہدوں سے ہٹایا گیا۔ یہ کارروائیاں کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے کم از کم تین انتہائی اہم سیکریٹریوں سے پوچھا گیا مگر کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ یہ کہہ سکتا کہ نہیں یہ کارروائی غیر قانونی ہے۔ جب میڈیا نے ان زیادتیوں کو اجاگر کیا تو اس کے باوجود افسر شاہی اوراُس کے تمام 22 گریڈیے خاموش تماشائی بنے رہے۔ بلکہ کچھ نے تو متعلقہ افسران کو ہراساں کرنے کی کوشش کی کہ اگر زیادتی کے خلاف بولے تو اپنا ہی نقصان ہو گا۔ ایک اندازہ کے مطابق پاکستان میں بیس لاکھ سے زیادہ ملازمین ہیں مگر صرف ایک گریڈ 19کی خاتون افسرانیتا تراب متاثرہ افسران کے ساتھ کھڑی ہوئی۔ اسی خاتون افسر نے کچھ عرصہ قبل Moral Revivalکے نام پر سرکاری افسروں کے لیے ایک تنظیم بنائی جس کا مقصد افسر شاہی میں اس بات کو اجاگر کرنا ہے کہ وہ اپنی اخلاقی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے کسی بھی شخص کا کوئی غیر قانونی حکم نہیں مانیں گے۔ اس تنظیم میں آج تک بمشکل سو افسران شامل ہوئے اوران میں کوئی ایک بھی گریڈ 20 یا اس سے اوپر کا افسر موجود نہیں۔ لگتا ہے کہ ہماری افسر شاہی اس موجودہ ذلت، غلامی اور بے شرمی کے ماحول کی تبدیلی کے لیے تیار نہیں۔
تازہ ترین