• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

ناغہ اچھا نہیں لگتا

اس بار بھی ہمیشہ کی طرح دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے صفحات کا ناغہ بالکل اچھا نہیں لگتا۔ یہ صفحہ مسلسل شایع کیا کریں۔ تحریکِ پاکستان اور ملّی نغموں، ترانوں سے متعلق مضمون بہت پسند آیا تھا۔ مویشی منڈی، عیدِ قرباں کے مسائل اور، اردو ادب اور عیدِقرباں، سب ہی تحریریں لاجواب رہیں۔ پہلے شمارے کے اسٹائل کے صفحات جشنِ آزادی اور دوسرے کے عیدِ قرباں کی مناسبت سے سجے تھے اور دونوں ہی کا رائٹ اَپ آپ نے بہت ہی خُوب صُورت انداز میں تحریر کیا۔ کافی عرصے بعد انکل محمد حسین ناز کا خط بھی پڑھنے کو ملا، بہت اچھا لگا۔ ہم تو اُن سے متعلق پریشان ہی ہوگئے تھے۔ پروفیسر سیّد منصور علی، چاچا چھکّن اور پروفیسر مجیب ظفر کا اندازِ تحریر بھی اچھا لگتا ہے۔ اللہ کرے، ’’آپ کا صفحہ‘‘ سدا یوں ہی محبتیں بڑھاتا، بانٹتا رہے۔ (پرنس افضل شاہین، ڈھاباں بازار، بہاول نگر)

ج: آمین۔

یہ کیا ماجرا ہے.....؟؟

قرطاسِ ابیض کے سہارے، ہوا کے دوش، قلم کے جوش پر آپ کے روبرو ’’نصف ملاقات‘‘ کےلیے حاضر ہیں۔ اس بار سرِورق کو معمول سے بڑھ کر دل کش پایا۔ کتابی چہرے، غزالی آنکھوں والی پری پیکر نےبزم کوخُوب رونق بخشی۔اشاعتِ خصوصی میں قائداعظمؒ کےحوالے سےخواجہ رضی حیدر کا مضمون گرچہ پُرمعنی و پُرمغز تھا۔ تاہم، ذیلی سُرخیوں کے سبب پُربہار نہ تھا۔ طاہر حبیب نے ’’داعیانِ تبدیلی‘‘ کو صائب مشورہ دیا۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں امن کے سفیر کلدیپ نیّر کی خدمات سے متعلق پڑھ کے ہم تو اُن کےمعترف ہوگئے۔ اس بار صفحہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ نہیں تھا، تو اگر آپ’’متفرق‘‘ میں چَھپنے والی رُودادِ حج وہاں شایع کردیتیں، تو کسی طور تلافی ہوجاتی۔ مدیرہ صاحبہ! یہ پچھلے چند ہفتوں سے رسالے میں بس4، 5اشتہارات ہی ہوتے ہیں۔ قبلِ ازیں8، 9ہوا کرتےتھے، تو یہ کیا ماجرا ہے۔ استنبول… استنبول… استنبول، اُف! کیادنیااسی پرختم ہوجاتی ہے؟ صفحے کا نام جہانِ دیگر ہے، تو پھر دیگر شہروں کی بھی سیر کروایا کریں۔ شیخ سعدیؒ کے مردم خیز شہر ’’شیراز‘‘ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ جوکہ رسالے کا عقبی دروازہ (بیک ڈور) ہے،اکثردوست اصول ہائے راستی، بالائے طاق رکھ کر یہاں سے دَراندازی کرکے شارٹ کٹ مارتے ہیں۔ بہرکیف، انداز اپنا اپنا۔ اس سنڈے برقی (گلِ چیں)، شری مُرلی (خوشہ چیں)، ممتاز سلطانہ (ریزہ چیں)، عطیہ کنول (حاشیہ چیں)، نواب زادہ (عیب چیں) اور مابدولت (نکتہ چیں و نکتہ پرداز) رونقِ محفل تھے، جب کہ شمعِ بزم (حق دارِ مسندِ خاص) ٹھہریں اسماء خان فرام بلوچستان، اُن کی ’’سلیم کی گلی‘‘ کی ٹرمنالوجی پر بہ جائے چیں بہ جبیں ہونے کے ہم خاصے محظوظ ہوئے۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج: اشتہارات کی کمی ہی کا تو سارا رونا ہے۔ کیا ’’سنڈے میگزین‘‘ کے علاوہ کبھی اخبار کا کوئی صفحہ کھول کے نہیں دیکھا۔ میڈیا انڈسٹری کے بحران پر تو بندہ، بندہ رائے زنی کررہا ہے۔ تن خواہوں کی عدم ادائیگی، ورکرز کی چھانٹی، بے روزگاری پر عدالتوں میں نوٹس لیے جارہے ہیں اور آپ پوچھ رہے ہیں کہ ’’زلیخا مرد تھی یا عورت…؟؟‘‘ حد ہے بھئی۔ یہ جو4، 5اشتہارات ہیں ناں، ان ہی کی وجہ سے ’’سنڈے میگزین‘‘ مل بھی رہا ہے آپ کو، وگرنہ اخبار کی20روپے قیمت سے تو انڈسٹری کی داڑھ بھی گیلی نہیں ہوتی۔

یوسف جی کا ہوٹل

’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں خواجہ رضی حیدر اور عمّارہ ارشد کے مضامین واقعی پڑھنے کے لائق تھے۔ بہت اعلیٰ تحریریں، زبردست۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں انور غازی نے تُرکی کے تاریخی شہر، استنبول کی خُوب سیر کروائی۔ خاص طور پر یوسف جی کے ہوٹل کا پڑھ کر تو جی خوش ہوگیا۔ یادداشتیں میں شاہد صدیقی نے کلدیپ نیّر پر بہترین مضمون لکھا اور ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی جلیبی بھی بے حد میٹھی معلوم ہوئی۔ اگلے شمارے میں شہادت حضرت امام حسینؓ کے حوالے سے محمود میاں نجمی کی تحریر کا جواب نہ تھا۔ واقعے کو اس عُمدگی سے قلم بند کیا کہ شاید ہی کبھی، کسی نے اس انداز میں بیان کیا ہو۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں طاہر حبیب کی ’’ایوانِ صدر کے مکین‘‘ بھی اچھی معلوماتی تحریر تھی۔ ’’لازم و ملزوم‘‘ میں ڈاکٹر قمر عباس نے انیس و دبیر کی داستان مناسب انداز میں گوش گزار کی، تو ناقابلِ فراموش کی دونوں کہانیاں بھی پسند آئیں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

شخصیت سے متاثر ہوں

سر کو ڈھکے تین عدد دوشیزائیں سرِورق کو رونق بخش رہی تھیں، دیکھ کے بہت اچھا لگا۔ میگزین کا سرسری جائزہ پہلی نظر میں لیا، تو حیرت و خوشی کا اِک جہاں منتظر تھا کہ خط تو شامل تھا ہی، مگر پسندیدہ صفحے ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں میری ننھیالسے متعلق لکھی تحریر بھی شامل تھی۔ ددھیال کے بارے میں بھی مضمون لکھا تھا کہ توازن برقرار رہے، مگر ننھیال کا نمبر پہلے آگیا۔ شکریہ، ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘۔ حجاب کے حوالے سے تمام تحریریں شان دار تھیں۔ نجمی صاحب کے مضمون کی ہیڈنگ ’’پردہ… عورت کا آہنی حصار‘‘ بہت پسند آئی۔ ’’خانوادے‘‘ میں دوبہنوں کاتفصیلی تعارف پڑھا۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل کے مضمون کی تو کیا ہی تعریف کروں، بہت شان دار، لاجواب۔ مَیں تو اُن کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوں۔ ’’اسٹائل‘‘ پر آپ کی نثر اور ڈاکٹر صاحبہ کی نظم اچھی لگیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں عزیزہ انجم پھر موجود تھیں، لگتا ہے، نظم و نثر دونوں ہی اُن کے میدان ہیں۔ کنول بہزاد بھی اپنا رنگ جماتی نظر آئیں۔ مشہور مورخ، فؤادسزگین کا ذکر پہلی مرتبہ پڑھا، ایک شخصیت اور اتنا کام۔ اگلے شمارے کی ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ کی تحریر نے دل پر بہت اثر کیا۔ کلدیپ نیّر کی شخصیت پر شاہد صدیقی کی تحریر پڑھ کے یقین ہی نہیں آیا کہ کلدیپ اس قدر معتدل رویّے کے مالک تھے۔ مختصر رُودادِ حج میں گویا دریا کو کوزے میں سمو دیا گیا۔ دانش انیس کی گفتگو بھی اُن کی دانش و ذہانت کی مظہر تھی۔ ڈاکٹر اطہر رانا نثر سے غزل کی طرف آگئے اور ’’مُسکرایئے‘‘ میں پولنگ ایجنٹ والا لطیفہ بہت پسند آیا۔ (مصباح طیب، سرگودھا)

ج: آپ ہی نہیں، سمیحہ جی کی شخصیت سے تو ہم سمیت بے شمار خواتین متاثر ہیں۔ نہ جانے کتنوں کی وہ رول ماڈل ہیں۔

تعریفی و توصیفی خطوط

ابتدا ہے، ربِ جلیل کے بابرکت نام سے، جو دِلوں کے بھید خُوب جانتا ہے۔ آپ کی محفل میں یہ میرا دوسرا خط ہے۔ اس سے پہلے بھی ایک خط شایع ہوچکا ہے۔ میں نے نوٹ کیا ہے، ایڈیٹر صاحبہ تعریفی و توصیفی خطوط کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ تب ہی چاچا چھکّن، شری مُرلی چند جیسے لوگوں کے خطوط باقاعدگی سے شایع ہوتے ہیں۔ (اسلم قریشی، ملیر، کراچی)

ج:شِری مُرلی اور چاچا چھکّن سے کہیں زیادہ باقاعدگی سے تو خادم ملک کے خطوط شایع ہوتے ہیں، جنہیں سوائے میگزین میں کیڑے نکالنے کے اور کوئی کام ہی نہیں اور آپ نے بھی آج یہ دوسرا خط لکھنے کی زحمت فرمائی ہے اور وہ بھی شایع کیا جا رہا ہے، تو پھر اِن الٹی سیدھی باتوں کا(جو بیش تر ایڈٹ کر دی گئیں)تو کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔

کچھ کرنا چاہتی ہوں

مجھے لکھنے پڑھنے کا بے حد شوق ہے۔ گھریلو ماحول سخت ہے، لیکن مَیں کچھ کرنا چاہتی ہوں۔ مَیں نثر نگاری، شعر و شاعری، حتیٰ کہ مزاح نگاری تک کر سکتی ہوں، موقع ملنے کی دیر ہے۔ (آصفہ، عیدگاہ محلّہ، ننکانہ صاحب)

ج: اس ضمن میں ہم تو اتنی ہی مدد کر سکتے ہیں کہ آپ کی جو بھی تحریر قابلِ اشاعت ہو، اُسے ترجیحی بنیادوں پر شایع کردیں۔

خراب ہینڈ رائٹنگ

کہاں سے شروع کروں، ہمیشہ آڑی ترچھی لکیریں ہی کھینچ کے رہ جاتا ہوں۔ غالباً ایک بار اس بزم (گُل دستے) کا حصّہ بھی بنا ہوں، مگر لگتا یہ ہے کہ50برس کا ہو کے بھی لکھنا نہیں آیا۔ محمود میاں نجمی کی تحریروں سے بے حد متاثر ہوں اور انہیں اپنے استاد کا درجہ دیتا ہوں۔ اپنی ہم ضلع دو بہنوں، امامہ بنتِ اسلم اور ان کی بہن کے طرزِ تحریر سے اس قدر تحریک ملی کہ اس بار خود کو خط لکھنے سے باز نہ رکھ سکا۔ میگزین تو ہمیشہ ہی ذوق و شوق سے پڑھتا ہوں۔ ہاں، ایک بات جو ہمیشہ تحریر لکھ کے پوسٹ کرنے کی راہ میں مانع رہی، وہ میری خراب ہینڈ رائٹنگ بھی ہے۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)

ج:جی بے شک… خراب ہینڈ رائٹنگ (ایک لمحے کو تو ہمیں شبہ بھی ہوا کہ یہ کہیں فُٹ رائٹنگ تو نہیں) اگر مانع رہی، تو ٹھیک ہی رہی کہ آپ کےتحریر کردہ آٹھ صفحات میں سے ہم بہ مشکل یہ چند جملے ہی اخذ کر پائے ہیں۔

اچھوتے موضوعات

اتوار کی صبح کا آغاز، نمازِ فجر کے بعد ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ پڑھ کر ہی ہوتا ہے۔ حسبِ معمول اس اتوار، میگزین ہاتھ آیا، تو سرِورق دیکھ کر اور ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں شہداء کی قربانیوں سے متعلق پڑھ کر آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔ سنڈے اسپیشل میں ’’اسلامی کیلنڈر، تاریخی حقائق کی روشنی میں‘‘ پڑھ کر معلومات میں خاصا اضافہ ہوا۔ اشاعتِ خصوصی، لازم و ملزوم، عالمی اُفق اور پیارا گھر کے تو کیا کہنے۔ سیّدہ تحریم فاطمہ نے والدین کو بچّوں کی ذمّے داریوں سے خوب آگاہ کیا۔ چٹ پٹے تیکھےپکوان بھی مزےکےتھے۔ ’’متفرق‘‘ میں سبیتا مشتاق کی تحریر بہت ہی زیادہ پسند آئی۔ سبیتا ہمیشہ اچھوتے موضوعات ہی کا انتخاب کرتی ہیں۔ الغرض، سنڈے میگزین کا ہر صفحہ اپنی مثال آپ لگا۔ (حِنا کامران، کراچی)

خطوط کی ایڈیٹنگ

سنڈے میگزین میں اس بار پھر ترکی کا سفرنامہ شایع ہوا ۔ آخر ترکی کے کتنے سفرنامے شایع ہوں گے۔ ہم نے کیا ترکی کو حفظ کرنا ہے۔ کسی زمانے میں ڈاکٹر امتیاز اطہر صدیقی کے سفرنامے شایع ہوتے تھے، اب کیوں نہیں ہوتے اور یہ بات تو ہم خود کُھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ ہم ایک بونگے انسان ہیں، لیکن کیا جہاں اتنی اعلیٰ معیار کی تحریریں شایع ہوتی ہیں، ہماری تھوڑی سی بونگیاں شایع نہیں ہوسکتیں۔ اور ہاں،براہِ مہربانی، سنڈے میگزین میں اس طرح کی بھیانک سُرخیاں نہ لگایا کریں کہ غیر مُلکی کمپنیاں ڈھائی ارب ڈالر مُلک سے باہر لے جاتی ہیں۔ کمپنیاں یہ سرمایہ گن پوائنٹ پر نہیں لے جاتیں، ہم خود ان کمپنیوں کو اپنے یہاں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں اورآخر میں آپ سےہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ ہمارے خطوط کی ایڈیٹنگ نہ کیا کریں۔ ہم یہ بات ایک ہزار بار کہہ چکے، مگر آپ کے کان پرجُوں تک نہیں رینگتی۔ (نواب زادہ خادم ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: آپ ایک کروڑ بار بھی خطوط کی ایڈیٹنگ نہ کرنے کی بات کر دیکھیں، مگر آپ کی بونگیاں کسی طور مِن و عَن شایع نہیں ہوں گی۔ آج تو آپ نے پھر کوئی ایک آدھ سمجھ داری کی بات کرلی، وگرنہ تو آپ کی بے سروپا گفتگو اونگیوں بونگیوں سے بھی بہت آگے کی چیز ہے، جسے ہم کسی طورجوں کا توں شایع کرنے کارسک نہیں لے سکتے۔

ایڈیٹر کی نظرِ کرم

ہمارا خیال ے یہ ’’چاچا جی اور راجہ جی‘‘ کو ’’حکمت و دانائی‘‘ یوں ہی نہیں ملتی۔ کچھ نہ کچھ نظرِ کرم ایڈیٹر صاحبہ کی بھی ہے۔ قبلہ میاں نجمی کی تحریریں داد کی مستحق ہیں۔ بے شک، ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ اِک بہتا چشمہ ہے، جو چاہے فیض یاب ہو۔ ایک دیرینہ خواہش کا اظہار کیا تھا کہ پروفیسر مجیب ظفر کی وہ تحریر، جو کبھی 90فی صد تو کبھی 99فیصد ایڈٹ ہو جاتی ہے، کبھی تو پوری بھی شایع ہو۔ بے چارے پروفیسر صاحب بھی دل میں ملال رکھتے ہوں گے۔ (محمّد اسلم پیرزادہ، گلشن اقبال، کراچی)

ج:آپ کی دیرینہ خواہش کی تکمیل کےلیے پروفیسر صاحب کا تازہ ’’مَیں نامہ‘‘ آپ کو ای میل کردیا ہے۔ اب آپ کےحوصلے کا کمال دیکھنا ہے کہ ہم تو ابھی بھی اپنی برداشت سے کچھ زیادہ ہی جگہ دے رہے ہیں موصوف کو اور آپ غالباً اپنے خطوط پر، ہماری نظر کرم کے تناظر میں ’’چاچا جی اور راجہ جی‘‘ کو پرکھ رہے ہیں، تو عرض یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو حقیقتاً لکھنا آتا ہے۔ سارے ہی مَن موجی نہیں ہوتے۔

تُرکی کے سِوا…

شمارہ کھولتے ہی محمود میاں نجمی کی پُراثر تحریر شہادت امام حسینؓ سے متعلق پڑھنے کو ملی۔ انہوں نے واقعات کو درجہ بہ درجہ جس عُمدگی سےبیان کیا، یہ اُن ہی کاخاصّہ ہے۔ درمیانی صفحات پرحافظ محمد ثانی کی تحریر بھی انفرادی رنگ لیےنظر آئی۔ رائو شاہد اقبال اپنی نئی اُجلی، تازہ بہ تازہ تصویر کے ساتھ یک نہ شُد، دو شُد مضامین کے ساتھ جلوہ گر تھے۔ طاہر حبیب نے’’ایوانِ صدر‘‘ کے مکینوں کا تعارف اور تفصیلات اپنے مخصوص پیرائیہ اظہار میں گوش گزار کیں۔ ڈاکٹر قمر عباس کی تحریر، ’’انیس و دبیر‘‘ کا تو کوئی جواب ہی نہ تھا۔ مضمون کو کیا ہی خُوب صُورت جملوں کی مالا پہنائی۔ پیاراگھر میں تحریم فاطمہ کا مضمون اور تراکیب بھی پسند آئیں۔ اور بھئی یہ تُرکی کا سفر آخر کب ختم ہو گا۔ ’’اور بھی مُلک ہیں زمانے میں تُرکی کے سوا…‘‘ ایران، دمشق، ملائیشیا، انڈونیشیا جیسے ممالک کی بھی سیر کروائیں۔ (چاچا چھکّن، گلشن اقبال ،کراچی)

ج: یہ سفر نامے ہم کسی کے لیے ٹوورز ارینج کر کے تو لکھواتے نہیں، جو اپنا فرمائشی پروگرام ان کے حضور پیش کریں۔ تُرکی کا سفر نسبتاً سستا ہے، تو ہر دوسرا شخص وہیں پہنچا ہوتا ہے اور چوں کہ یہ صفحہ ڈاک سے آنے والی تحریروں ہی سے تیار ہوتا ہے، تو لوگ جو سفرنامے بھیجتے ہیں، ہم شایع کر دیتےہیں۔ ویسے اگر آپ اور نواب زادہ خادم ملک صاحب مِل جُل کر ایک ورلڈ ٹور کا انتظام کرلیں اور پھر ہمیں سفر نامے لکھ لکھ بھیجیں، تو بہ خدا ہمیں چھاپنے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

                                                                                            فی امان اللہ

                        اس ہفتے کی چٹھی

مَیں ہوں سنجاوی سے اسماء خان دمڑ.....جی ہاں، اس جریدے کی مستقل خریدار، پرستار اور نامہ نگار۔ تازہ شمارہ آمنے ہے اور ہم سامنے۔ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے مصداق ہم پڑھتے ہیں، سب سے پہلے اپنا صفحہ۔ تقریباً ہر تحریر میں جب محمّد حفیظ کے انٹرویو کو سراہا گیا، تو ہم حیرتوں کے سمندر میں ڈوب ڈوب گئے کہ کیسا انٹرویو، کہاں کا انٹرویو، کب ہوا یہ انٹرویو۔ عرصے بعد کوئی دل چسپ پسندیدہ تحریر چَھپتی بھی ہے، تو وہ بھی ہمارے ایڈیشن سے ڈراپ کردی جاتی ہے۔ بہت صدمہ ہوا، ایڈیٹر صاحبہ! بہت صدمہ، آپ کی اس بے اعتنائی، بے رُخی پر۔ سُنیں، ہمارے ایڈیشن میں یہ سیاست دانوں کے خشک انٹرویوز بھی مت چھاپا کریں۔ کوئی دل چسپی نہیں ہے، ہمیں اُن سے۔ یوں بھی ’’جب اونٹ گیا، تو مہار کا کیا کرنا‘‘۔ آگے بڑھے، تو ایک اور صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ کی دوسری اشاعت اور ہمارے نام کسی کا کوئی پیغام ہی نہیں آیا۔ کیا اس بَھرے جہاں میں ہم کسی کو بھی پیارے نہیں۔ ’’عالمی افق‘‘ میں ’’اردوان جُھکنے پر آمادہ نہیں‘‘ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ اِک وہی تو ایسا حکمراں ہے، جو سب کے ماموں جان (امریکا) کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں کسی صاحب کے بتائے ہوئے غصّے پر کنٹرول کے طریقے بہت دل چسپی سے پڑھنے شروع کیے، مگر کوئی طریقہ قابلِ عمل نہ لگا۔ خدا کے بندے! اس سے منفرد اور کارگر طریقےتو ہم بتادیتے۔ مثلاً جب پارہ ہائی ہوجائے، تو ڈائری لکھنے کی بجائے اسے چیر پھاڑ کے پھینک دیں۔ جو چیز سامنے ہو، اُٹھا کر دیوار سے دے ماریں۔ صوفے، کرسیاں، برتن سب الٹ پلٹ دیں۔ اور پھر اگر آپ کنوارے ہیں، تو امّاں جان یا ابّا جان اور اگر بیاہے ہیں، تو بیگم جان کے عتاب سے بچنے کے لیے کسی کونے کھدرے میں چُھپ کے بیٹھ جائیں۔ کسی کے ہتھے لگ گئے تو گارنٹی ہے، اگلے کئی ماہ بلکہ شاید سال بھر غصّہ آپ کو چُھوکر بھی نہیں گزرے گا۔ کیسا.....؟؟ ’’میں نظر میں ہوں یا نظر مجھ میں ہے…‘‘ توبہ مبالغہ آرائی کی انتہا تو دیکھیں۔ ماڈل صاحبہ الہڑ مٹیار، چلبلی نار، البیلی حسینہ کی بجائے ’’بڑی آپاں‘‘ لگی۔ خیر، کوئی بات نہیں ’’دل ہونا چاہیدا جوان… عُمراں وچ کی رکھیا‘‘ اور آخر میں آئمہ بیگ اور عمّار مسعود کے انٹرویوز پڑھ کر تو اگلے پچھلے سارے صدمے، شکوے گویا اُڑن چھو ہوگئے۔ بے اختیار ہی ’’میگزین زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگانا پڑا۔ اب حیران مت ہوں کہ یک دم کایا کیسے پلٹ گئی۔ آپ ہی تو کہتی ہیں ’’لڑکیاں، چِڑیاں، بکریاں، تریوے ذاتاں وَکھریاں‘‘ بہت عرصہ پہلے ’’کچھ توجّہ اِدھر بھی‘‘ کے لیے ایک تحریر جو ’’چیک پوسٹوں پر اہل کاروں کے ناروا سلوک‘‘ سے متعلق تھی، روانہ کی تھی، اب تک لاپتا ہے۔ اگر قابلِ اشاعت ہے، تو ’’دُوری سے نہ مار وے ڈھولا‘‘۔ (اسماء خان دمڑ، سنجاوی، بلوچستان)

ج:جتنی جلدی تمہاری تحریر میں بہتری اور پختگی آئی ہے، کم ہی لوگوں میں دیکھی ہے۔ یہاں تو اسٹاف اور نوآموزوں کو سِکھا سِکھا کے ہم ’’پھانوے‘‘ ہوگئے، مگر مجال ہے کہ کسی کو کوئی بات سمجھ آجائے۔ ہاں، محمّد حفیظ کے انٹرویو والی مسٹری یہ ہے کہ ’’انٹرویو‘‘ دراصل فادرز ڈے کی مناسبت سے تھا۔ شیڈول تو وہ ہر اسٹیشن پر ہوا ہے۔ چوں کہ ٹائٹل اسٹوری تھی، تو ڈراپ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں تم نے اسے چوں کہ انٹرویو سمجھا ہی نہیں، تو شاید پڑھا بھی نہ ہو۔ یوں بھی وہ انٹرویو کم، ہمارا رائٹ اَپ زیادہ تھا۔           

                           گوشہ برقی خُطوط

٭ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی کا مضمون ’’پردہ، عورت کا آہنی حصار‘‘ ایک لاجواب تحریر تھی۔ اللہ پاک مُلک کی تمام بیٹیوں کو ہدایت دے اور ہمیں ہمارے دینی احکامات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا ہو، آمین۔ ایک درخواست ہے، کوئی سا بھی صفحہ ڈراپ کرلیا کریں، لیکن سرچشمۂ ہدایت کو ضرور شیڈول کریں کہ پورا ہفتہ اسی صفحے کا انتظار پوری شدّت سے کیا جاتا ہے۔ (سندس بتول)

٭اللہ جانے آپ کو مجھ سے کیا خار ہے کہ میری ای میل شامل نہیں کرتیں۔ خادم ملک جیسے میگزین دشمن لوگوں کے خطوط تو باقاعدگی سے شایع ہوتے ہیں۔ میری چھوٹی سی ای میل کے لیے جگہ ہی نہیں بنتی۔ (عمران الیاس، مرغزار کالونی، لاہور)

ج: خادم ملک جیسے میگزین دشمن لوگ باقاعدگی سے خطوط لکھتے ہیں، تو اُن کے خطوط شایع بھی ہوجاتے ہیں۔ آپ کی ای میلز بھی باقاعدہ آتی رہیں، تو شایع بھی ہوتی رہیں گی۔ ہماری تو نہ کسی سے دوستی ہے اور نہ ہی دشمنی۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ خادم ملک کا خط کم از کم میگزین کے مندرجات سے متعلق تو ہوتا ہے۔ آپ کی ای میل میں تو سوائے ’’عدم اشاعت‘‘ کے رونے کے، اور کچھ ہے ہی نہیں۔

٭ میرے خیال میں ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ خاصی طویل اور بورنگ ہوتی ہے۔ اس بے معنی، بے مقصد طویل تحریر کے بجائے دو تین مختصر خطوط چھاپ دیئےجائیں، تو زیادہ بہتر ہے۔ (ڈاکٹر محمد یاسین فریو، گلشن اقبال، کراچی)

ج: ہمارے خیال میں آپ کی اس رائے سے بیش تر قارئین اتفاق نہیں کریں گے۔ کیوں کہ یہ سلسلہ قارئین کے اصرار پر شروع ہوا اور پسندیدگی ہی کے سبب طویل عرصے سے جاری ہے۔

٭ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی کی خوفِ خدا میں ڈوبی تحریر پڑھ کے دل کے سمندر میں جیسے جوار بھاٹا آگیا۔ باربار پڑھی، گھر کے ہر فرد نے پڑھی۔ دل ہے کہ اُڑ کر حرم شریف جانے کو بے قرار ہے۔ یوں تو نجمی صاحب کی ہر تحریر روح پرور، ایمان افروز، سبق آموز ہی ہوتی ہے، لیکن ’’ربِ کعبہ کے حضور‘‘ نے تو جیسے سماں باندھ دیا۔ ہر شخص نے خود کو اُن مقدّس و متبرّک مقامات پر موجود پایا۔ دلی تمنّا ہے کہ جلداز جلد اُن کا ’’سفرمدینہ‘‘ بھی اشاعت کی منزل تک پہنچے۔ (ثناء چوہدری، لاہور)

ج:جی، اِن شاء اللہ تعالیٰ، آپ کی دلی تمنّا جلد پوری ہونے جارہی ہے۔

قارئین کرام

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین