• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر عزیزہ انجم، کراچی

زندگی رشتوں کی بُنت سے وجود میں آتی ہے اور رشتوں ہی کی بُنت کاری اُسے خُوب صُورت بنادیتی ہے۔حیات کے سفر کی کڑی دھوپ میں رشتوں کا سائبان سایا بنتا ہے، تو رشتوں کے درخت کی گھنیری چھاؤں میں گھائل دِل قرار پاتا ہے۔ نومولود جب اس دُنیا میں پہلی سانس لیتا ہے، تو بہت سے رشتے اس کے وجود سے جُڑے، اس کی محبّت سے بندھے، اس کے منتظر ہوتے ہیں۔جب وہ آنکھیں کھولتا ہے، انگلی پکڑ کر چلنا سیکھتا ہے، کورے کاغذ پر پہلی تصویر بناتا ہے، حرف پہچانتا ہے اور لکیریں کھینچتا ہے، تو زندگی کے ان تمام تر معاملات میں کچھ جان چھڑکنے والے رشتے ناتے اس کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔یوں عُمر اور جذبات کی منزلیں طے کرتے ہوئے وہ رشتوں کی نازک، مگر مضبوط ڈور تھام کر خود کو کبھی اکیلا محسوس نہیں کرتا کہ رشتوں کی چاشنی زندگی میں حلاوت و شیرینی گھول دیتی ہے۔

بلاشبہ زندگی ساتھ مانگتی ہے۔غم، خوشی، دُکھ، سُکھ، اچھے ، بُرے وقت، کم زور اور طاقت وَر لمحوں میں اپنوں کاساتھ، جو انسان کو توانا کرتا ہے اور اس کے قدموں کو زمین پر مضبوطی سے جماتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام میں ہر تعلق، رشتے اور انسان سے وابستہ ہر فرد کی اہمیت، احترام اور مقام کی بہت وضاحت کے ساتھ تفصیل بیان کی گئی ہے، تاکہ ایک دوسرے سے حُسنِ سلوک سے پیش آیا جائے۔لیکن موجودہ دَور میں رشتے اور رشتے دار، یہ دو لفظ انسانوں کی لغت میں اپنا حُسن اور معنی کھو بیٹھے ہیں۔گلے شکوے، شکایتیں، تلخیاں، بدگمانیاں اور رنجشیں اتنی زیادہ ہیں کہ دِل کے اندر بھی تنہائی ہے اور گھر کے اندر بھی۔ رشتوں کا احترام مروّت، محبّت کے جذبات سب بدلتی ہوئی زندگی کی نذر ہوگئے ہیں۔ رشتے داری بوجھ بن گئی اور رشتے نبھانا ایک مشکل کام۔اس لیے کہ ہم سب نے رشتوں سے وابستہ ذمّے داریاں ادا کرنے کی بجائے ان سے دامن چھڑوانا شروع کردیا ہے۔ہر فرد کو دوسرے سے شکایت ہے اور اپنے دامن اور دِل کی تنگی پر کسی کی نظر نہیں جاتی۔ ہمارے دین نے رشتے داروں کے حقوق کے بارے میں کیا کہا ہے، رشتے داری نبھانے، صلۂ رحمی کرنے اور رشتے داروں سے حُسن سلوک کے بارے میں پیارے بنی ﷺنے کیا فرمایا ہے، ہم کبھی جان بوجھ کر تو کبھی لاعلمی میں اس سے پہلو تہی کرجاتے ہیں۔

نبی مہربان محمّد ﷺکی حیاتِ طیّبہ اور آپﷺ کی تعلیمات، رشتے داروں سے حُسنِ سلوک اور صلۂ رحمی کے احکامات سے مزّین ہیں۔ نبیﷺ کی مبارک زندگی پیغمبرانہ شان کے ساتھ عزیز و اقارب سے حُسنِ سلوک کا بے مثال نمونہ ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا ،’’جو شخص چاہتا ہے، اُس کے رزق میں اضافہ ہو اور اس کی عُمر لمبی ہو، تو اُسے چاہیے کہ رشتے داروں سے حُسنِ سلوک کا معاملہ کرے۔‘‘اللہ کے نبیﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا،’’رشتے داروں پر مال خرچ کرنے اور ان پر صدقہ کرنے کا دہرا اجر ہے۔ ایک صدقے کا دوسرا صلۂ رحمی کا۔‘‘ ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا نے ایک غلام آزاد کیا، تو نبیِ کریمﷺنے ان سے فرمایا،’’ اپنے ماموں کو دے دیتیں، تو اچھا تھا۔ انہیں ضرورت تھی۔‘‘حضورِپاکﷺعزیز و اقارب سے محبّت سے پیش آتے تھے۔ آپﷺکا ددھیال مکّےمیں تھا، تو ننھیال مدینے میں۔ آپﷺ اپنے دادا، چچا اور پھوپھیوں سے بے پناہ محبّت کرتے تھے۔ آپ کی چاچی فاطمہ بنتِ اسد رضی اللہ عنہا کاجب انتقال ہوا، تو آپﷺنے اپنا کُرتا ان کے کفن کے لیے عنایت کیا۔ ان کی قبر میں لیٹے، تاکہ شدائدِ قبر میں کمی ہو اور ان کا ذکر بہت اچھے الفاظ میں کیا۔ بچپن میں ان کے اپنے ساتھ حُسنِ سلوک اور محبّت کو یاد کیا۔ وہ رویّے، جو رشتوں میں دراڑ ڈالتے ہیں، اللہ کے نبی ﷺ نے ان منفی رویوں،بدگمانیوں، پیٹھ پیچھے بُرے الفاظ سے ذکرکرنے، باتوں کو منفی انداز میں لینے، حسد اور دِل کی تنگی سے سختی سے منع فرمایا ہے۔مگر یہاں تو یہ معاملہ ہے کہ ہم دوسروں کے سلوک سے شاکی رہتے ہیں، عام سی بات کو بھی منفی انداز سے سوچتے ہیں،جب کہ اللہ کے نبی ﷺنے ارشاد فرمایا ہے کہ،’’صلۂ رحمی یہ نہیں کہ جو آپ کے ساتھ اچھا سلوک کرے، آپ بھی اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں۔ صلۂ رحمی یہ ہے کہ جو آپ کے ساتھ اچھا سلوک نہ بھی کرے، آپ اس کے ساتھ دِل بڑا کرکے اچھا سلوک کریں۔‘‘سیرتِ طیّبہﷺ کا پیغام یہی ہے کہ دِل کے آئینے کو صاف رکھیں۔ عزیزو اقارب سے اچھا سلوک رکھیں۔ اُن کی خوشیوں میں شریک ہوں اور کُھلے دِل سے ان کی کام یابیوں پر مبارک باد دیں۔ اپنی خوشیوں میں انہیں شریک کریں کہ زندگی کی ساری سہولتیں میسّر ہونے کے باوجود بھی لوگوں کو محبّت بَھرے دِلوں، پیار کے چند بولوں اور نرم رویوں کی شدید ضرورت رہتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ خواتین، خاندان جوڑنے اور توڑنے دونوں ہی میں ماہر ہوتی ہیں، تو کیا ہی اچھا ہو کہ اس ضمن میں خواتین اپنا مثبت کردار ادا کریں اور رشتے ناتوں کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے برداشت، صبر اور عفو و درگزرسے کام لیں۔

تازہ ترین