• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خاں کو مکمل طور پر یقین ہے کہ اگلے سال ان کی تحریک انصاف پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کرلے گی اور میاں محمد نواز شریف بھی پورے اعتماد کے ساتھ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مستقبل ان کی پاکستان مسلم لیگ نون کا ہے جو عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی کم از کم دو تہائی نشستوں پر قبضہ کرلے گی۔
ان دونوں اولڈ گولڈ اور نویں نکور سیاستدانوں نے پاکستان کے بالغ رائے دہندگان کو خوش کرنے کے لئے کم از کم عرصے میں”سونامی“ اور ”عوامی انقلاب“ کے تحفے پیش کرنے کے وعدے بھی کئے ہیں جن کو وہ یقینی طور پر وفا کریں گے۔ عمران خاں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو اقتدار ملنے کے پورے نو دن بعد یعنی ڈیڑھ ہفتے بعد لوگوں کو واضح طور پر مثبت تبدیلیاں دکھائی دینے لگیں گی جبکہ میاں محمد نواز شریف نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اقتدار ملنے کے پورے ایک سو بیس دنوں یعنی چار مہینوں کے بعدزیادہ سے زیادہ اگست 2013ء تک پاکستان کے لوگوں کو ایک بالکل نیا، قطعی مختلف، ترقی یافتہ، خوشحال پاکستان تعمیر کرکے دے دیں گے۔
عمران خاں اقتدار ملنے کے نو دن بعد پاکستان کے عوام کو جو پاکستان دکھائیں گے وہ بھی موجودہ پاکستان سے بالکل مختلف بلکہ متضاد وگا۔ یہاں کے عوام بھی بہتر حالت میں مطمئن دکھائی دے رہے ہوں گے پاکستان غیر ملکی قرضوں کے بوجھ سے نجات پاچکا ہوگا اور اس کی قومی آمدنی مسلسل اور متواتر بڑھ رہی ہوگی بلکہ دن دونی اور رات چوگنی ترقی کررہی ہوگی۔ میاں نواز شریف اقتدار میں آنے کے چار ماہ بعد جو پاکستان یہاں کے اٹھارہ کروڑ عوام کے حوالے کریں گے وہ کرپشن سے مکمل طور پر پاک ہوگا مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ میاں صاحب کرپشن سے پاک پاکستان اپنے پاس رکھنے اور اس پر حکومت کرنے سے گریز کیوں کریں گے کیا وہ کرپشن سے پاک پاکستان کو عوام کے حوالے کرکے کئی اور کسی اور ملک میں تشریف لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔یہ بات تو عمران خاں سے بھی پوچھنے کی ہے کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد لوگوں کو مثبت اور واضع تبدیلیاں نو دنوں کے بعد کیوں دکھائی دیں گی۔ فوری طور پر کیوں دکھائی نہیں دے جائیں گی؟ انہیں یہ واضح اور مثبت تبدیلیاں دیکھنے کے لئے نو دنوں تک انتظار کیوں کرنا پڑے گا؟ کیا اس کی ذمہ دار ”سونامی“کی شدت اور تیزی ہوگی کہ جس کی وجہ سے لوگوں کو نو روز تک کچھ دکھائی نہیں دے گا۔میاں نواز شریف کے کرپشن سے” پاک پاکستان“ سے یہ کہاوت یاد آتی ہے کہ مشرقی پنجاب کے سکھوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے لوگوں کے ساتھ مل کر جو”خالصتان“ بنائیں گے اس کا نام”خالص خالصتان“ ہوگا۔یہ تو سب جانتے ہوں گے کہ مذکورہ بالا دونوں پیش گوئیاں صحیح ثابت نہیں ہوسکتیں یا تو عمران خان کا دعویٰ صحیح ہوگا یا نواز شریف کی دھمکی درست ثابت ہوگی البتہ تیسری صورت کا امکان خود میاں نواز شریف بھی ظاہر کرچکے ہیں کہ صدر آصف علی زرداری میاں صاحب سے وزارت عظمیٰ کا حلف لے رہے ہوں گے جیسے محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے سبز لباس میں صدر غلام اسحاق کے سامنے وزارت عظمیٰ کا حلف لیا تھا۔ بغرض محال اگر ان دونوں پیش گوئیوں میں سے کوئی ا یک پیش گوئی بھی درست ثابت ہوئی تو پاکستان کے لوگوں کو کس قدر افسوس ہوگا کہ وہ اپنی قومی زندگی کے چھونسٹھ سالوں میں ایسے بے بدل لیڈروں سے کیوں محروم رہے جو نو دنوں یا صرف چار مہینوں میں ملک اور قوم کی حالت اور تقدیرکو یکسر بدل کے رکھ سکتے ہیں اور موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے نو دنوں یا چار مہینوں میں ایسا انقلاب برپاکرسکتے ہیں کہ جو دنیا کے کسی بھی ملک کے کسی سیاسی لیڈر کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا۔غیر ملکی قرضوں کے بغیر قومی دولت کی فراوانی اور عوام کی خوشحالی کی ایک صورت جو دکھائی دے سکتی ہے یہ ہے کہ جس طرح ساٹھ اکسٹھ سال پہلے جنوبی کوریا نے ہمارے ڈاکٹر محبوب الحق کے اقتصادی نسخے سے فائدہ اٹھایا تھا ویسے ہی دنیا بھر کے ممالک پاکستان کے انقلابی سیاسی لیڈروں کو کم از کم نو دنوں یا چار مہینوں کے لئے بھاری معاوضے پر ادھار حاصل کرنے کی درخواستیں دیں اور عالمی مالیاتی بحران کی زد میں آئے ہوئے سرمایہ داری نظام میں پاکستان کی اہمیت عالمی بنک اور عالمی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف) سے بھی زیادہ ہوجائے اور زرمبادلے کے خزانے آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ ایک اندازے کے مطابق اگر ہمارے اوورسیز پاکستان محنت کشوں کی ترسیل زر اس مالی سال کے دوران پندرہ ارب ڈالروں تک پہنچنے والی ہے تو یقینی بات ہے کہ اوورسیز پاکستانی انقلابی لیڈروں کی کمائی سینکڑوں کھربوں سے بھی تجاوز کرسکتی ہے۔
تازہ ترین