• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرنٹ افیرز (حالات حاضرہ)کو اطلاعات و رائے سازی کے علاوہ بنتی تاریخ کے حوالے سے بھی پڑھا اور پرکھا جائے تو اس کی ریکارڈنگ میں ذمہ داری کا عنصر یقیناً بڑھ جائے، یوں صدیوں سے موجود تاریخ کو توڑنے مروڑنے یا مسخ کرنے کی بددیانتی میں کمی آ سکتی ہے۔

تبدیلی و تغیر اور زمانہ سازی کی رپورٹنگ، اس کے آرکائیوز کی تیاری اور اسے ہسٹری میں ڈھالنا بلاشبہ ایک بہت مفید لیکن سنجیدہ علمی عمل ہے۔ اب اس میں ٹیکنالوجی حیران کن حد تک معاون ہو رہی ہے۔ اب بھی دانشورانہ اور صحافتی بدنیتی سے تاریخ سازی میں بددیانتی کا ارتکاب ہو رہا ہے۔ اس کا ریکارڈ ہونا بھی تاریخ سازی کی سمت درست رکھنے کے لئے اور منفی رویے سے اسے مسخ کرنا یا تروڑ نا مروڑنا بھی ریکارڈ ہونا چاہئے۔ اس سے غفلت بھی دانشورانہ بددیانتی ہو گی، جو آنے والی نسلوں کے ساتھ ایسے ہی ہے جیسے ہم اطلاعات کو پروپیگنڈے کی شکل میں عام لوگوں تک پہنچائیں اور رائے سازی حقائق کی بجائے ذاتی پسند و ناپسند یا نظریاتی اختلافات و اتفاق یا ذہنی ہم یا عدم آہنگی کی بنیاد پر ہو۔

تغیرات زمانہ سے کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے بلکہ اس کے بعد بھی عشرے ڈیڑھ عشرے بعد تک برطانیہ، فرانس،ا سپین، پرتگال اور مغربی یورپ کے ہالینڈ اور بلجیم جیسے ننھے ننھے ملک دنیا کی نوآبادیاتی طاقتیں تھیں۔ ان میں غالب ترین تو برطانیہ ہی تھا، جس کی پورے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ تک پھیلی سلطنت میں سورج ہی غروب نہ ہوتا تھا۔ فرانس کی کالونیاں (مقبوضہ علاقے) شمالی افریقہ سے لے کہ ہند چینی (موجودہ ویت نام، کمبوڈیا اور لائوسن) تک پھیلی ہوئی تھیں۔ پرتگال نے ہندوستان اور پھر مشرق بعید تک مارکی اورا سپین نے اوقیانوس کے پار لاطینی امریکہ پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے اور اسے ہسپانوی رنگ میں رنگ دیا۔ ہسپانویوں اور پرتگالیوں نے تو نو آبادیاتی نظام سے پہلے،امریکہ تک بحری مہمات سے امریکہ دریافت کیا۔

دنیا میں دور دور تک صدیوں سے آباد خطوں تک کا تجسس پھر اس کے لئے بحری طاقت کا حصول اور کمال سفارتی انداز سے اجنبی منازل پر قیام پھر قیام کو آباد کاری میں بدلنے اور پھر اس سے انتظامی کنٹرول حاصل کرتے کرتے حکومتیں قائم کرنے کی جہد، حکمت سے دور دور تک کی حاکمیت کا یہ سفر سفید فام دنیا کا کتنا بڑا کمال تھا۔ جبکہ ا س کے متوازی ہی یورپین اقوام پشیماں ہیں اوقیانوس کے اس پار بیابان اور خال خال قدیم مقامی قبائلیوں سے آباد بر اعظم امریکہ بسانے کے مشن پر تھے۔ اور ایسا بسایا کہ بسنے والے یورپ سے ہٹ اور کٹ کر ایک نئی دنیا بن گئے۔ انہوں نے اپنے اتحاد و اتفاق سے ایک عظیم قوم بننا قبول کیا اور پیچھے یورپ کے سارے تعصبات وہیں دفن کرآئے۔ دنیا بھر میں بھٹکے یہودیوں نے 1906 میں نیو یارک میں اپنی پہلی بین الاقوامی کانگریس میں، سرزمین امریکہ کو LAND OF OPPORTUNITIES قرار دیتے ہوئے ، اپنی کامیاب آباد کاری اور با اثر کمیونٹی کے طور رہنے کے لئے سونے کے کاروبار، بیکنگ اور انشورنش اور پرنٹنگ (میڈیا) انڈسٹری کی نشاندہی کی کہ ، ان شعبوں میں غالب ہو کر ہم اقلیتی ہو کر بھی امریکہ پر غالب ہو سکتے ہیں۔تاریخ امریکہ کا عروج، یورپ کا زوال ثابت جو اپنے ہی اختلافات میں بھسم ہو کر بحال تو ہو گیا ترقی بھی کر گیا، لیکن اپنے تحفظ کے لئے بخوشی اور بلاتردد امریکہ کا چھاتا اپنے سر پر تان کر نئی’’ کوالٹی آف لائف‘‘کے لئے سرگرداں ہو گیا۔ واضح رہے کہ بعد از جنگ عظیم دوم (پوسٹ وارایرا) میں یورپ کی نوآبادیاتی طاقتوں کی کالونیوں (مقبوضہ علاقوں) کی آزادی کا جو عمل DECOLONIALIZATIONشروع ہوا، وہ مغربی یورپ کے اس طاقتور خطے کے لئے جرم ضعیفی کی سزا تھی اور اس کا سب سے بڑا نتیجہ یہ تھا کہ یورپ واپس سکڑنے کے لئے ذہنناً اور عملاً تیار ہوا تو جغرافیائی دوری پر دو صدی سے تیزی سے ترقی کرتا الگ تھلگ امریکہ اب آباد دنیا سے دور رہنے کے لئے تیار نہ تھا، بلکہ ہاتھی کے پائو میں سب کا پائوکے مصداق، نظریاتی منقسم یورپ میں اپنے فاتح جنگی اتحادیوں کا دفاع بھی اپنے ذمے لے کر مغربی یورپ کو اپنے اثر میں لانے کے لئے بیتاب تھا۔ سو ، مارشل لا ایڈ پروگرام برائے تباہ شدہ یورپ کی بحالی اور نیٹو کا قیام امریکہ کے نئے عزائم کی کوکھ سے نکلے اور یورپ دم توڑتی نو آبادیوں کی آزادی کے بعد بھی ان کو تو بعد میں اپنے دائرہ اثر میں لایا، اس نے پہلے مغربی یورپ کو بلند درجے پر اپنی عسکری موجودگی سے زیر اثر کیا، مارشل ایڈ پروگرام ، ترقی پذیر دنیا کو ’’فارن ایڈ‘‘ کے نئے انسٹرومینٹ سے اثر میں لانے سے پہلے تباہ حال یورپ کی بحالی سے اسے اپنے مکمل زیر اثر کرنے کا منصوبہ بھی ثابت ہوا، گویا نیم نو آبادیاتی نظام کا آغاز یورپ کے امریکہ میں زیر اثر آنے سے ہوا،پھر جنگ عظیم سے پہلے کی یورپی نو آبادیاتی طاقتیں تو سابق ہوتی گئیں اور امریکہ نیم نو آبادیاتی نظامNEO COLONIALISMکا چمپئن بن کر’’ فارن ایڈ‘‘ کے ٹول سے ان پر اثر انداز ہوا۔

یورپ نے اپنی خود مختاری اور خودی بطور یورپ برقرار رکھنے کے لئے یورپین اکنامک کمیونٹی کی راہ نکال کر ارتقاء کا سفر طے کرتے ہوئے یورپین یونین کو جو اپنی منزل بنایا وہ اس میں بے حد کامیاب رہا۔ لیکن تیزی سے ہوتی یورپ کی حدانیت پر برطانیہ کے یونین سے رضا کارانہ علیحدگی BREXITنے برطانیہ پر امریکی اثر کوتو بے پناہ بڑھا دیا لیکن بقیہ یورپ تاک میں ہے کہ کب اور کیسے امریکی اثر سے نکلیں خصوصاً نیٹو(بعد از خاتمہ کمیونسٹ روس) سے جان چھڑائیں۔ گزشتہ روز صدر ٹرمپ جنگ عظیم کے ایک سو سال پورے ہونے پر تقریب میں شرکت کیلئے تو ان کی آمد سے پہلے فرانسیسی صدر اپنے ریڈیو انٹرویو میں روس و چین حتیٰ کہ امریکہ کے خطرے سے مقابلے کے لئے ’’یورپی اتحادی فوج‘‘ بنانے کی تجویز دے چکے تھے۔ سو، صدر ٹرمپ نے پیرس پہنچتے ہی جو اپنا مخصوص انداز اختیار کیا، وہی سب کچھ کہہ رہا تھا لیکن وہ بولنے سے بھی کب چوکتے ہیں، فرمایا فرانسیسی صدر کا بیان امریکہ کی توہین ہے۔ مہمان صدر نے ملاقات میں میزبان صدر پر واضح کر دیا کہ انہوں نے نیٹو کے مقابل ’’یورپی فوجی اتحاد‘‘ کی تجویز دے کر ان کی توہین کی ہے تو فرانسیسی صدر نے دوران بات چیت ان کے گھٹنے پکڑ کر بے تکلف انداز اختیار کیا تو اس کا صدر ٹرمپ پر کوئی اثر نہ ہوا تاوقتیکہ ان سے نیٹو کی اہمیت تسلیم کرا کر وہ مطمئن ہو سکے۔ یہ تو اپنی جگہ لیکن فرانسیسی صدر کی تجویز اور اس پر امریکی صدر کا رد عمل سے کچھ واضح ہوا اور یورپین یونین، نیٹو، برطانیہ کی نیٹو سے علیحدگی اور امریکہ کا یورپ کی جانب رویہ یہ کیسی تبدیلی ہے۔ کیا یہ صدر ٹرمپ کو مطمئن کرنے سے رک جائے گی ؟ یا......

تغیر کا درجہ دیکھئے کہ ابراہیم لنکن نے امریکہ کا مسحور تشخص بنایا اور امریکہ لنکن فلسفے کی ڈیڑھ سو سالہ آبیاری سے امریکہ بنا وہ امریکہ جس نے سوویت ایمپائر کے خلاف سرد جنگ میں جمہوریت، بنیادی انسانی حقوق، آزادی اور آزاد معیشت سے دنیا کو مسحور کیے رکھا۔ اب وہ ٹرمپ کی انتہاپسندانہ پالیسوں کے باعث مذہبی ونسلی تعصب کی پروموٹر طاقت کے طور پر جانی جا رہی ہے۔ جیسے بھارت کا تغیر کیا کم ہے جہاں کتنے بڑے مینڈیٹ سے ہندو بنیادپرست ڈاکٹر ایمبیڈکر(بھارتی آئین ساز) کے فلسفہ جمہوریت و سیکو لر ازم کے برعکس عام انتخابات سے بھارتی وزیر اعظم بنا۔ اب ٹرمپ اور مودی دونوں پکے نظریاتی و سیاسی یار ہیں۔ زمانے کا یہ تغیر امریکہ کو کیسا امریکہ بنائے گا اور بھارت کو کیسا بھارت۔ بہت کچھ دیکھا گیا بہت کچھ دنیا دیکھے گی دونوں بڑی جمہوریت کے رنگے کیسے ہوں گے؟ پاکستان میں اسٹیٹس کو ٹوٹ رہا ہے۔ خاندانی سیاست دم توڑتی معلوم دیتی ہے۔ مشرق کی کتنی ہی کھڑکیاں کھل گئیں جہاں سے تازہ ہوا اور روشنی بڑھتی جا رہی ہے۔

تازہ ترین