• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی جو چاہے کہے، میں اپنی حرکتوں اور علتوں سے باز نہیں آتا۔ سنتا سب کی ہوں، مگر کام اپنی مرضی کے کرتا ہوں بلکہ ہر کام اپنی مرضی کے مطابق کرتا ہوں۔ فائر بریگیڈ والے آگ بجھا کر چلے جاتے ہیں۔ ان کے چلے جانے کے بعد میں جائے وقوع پہنچ جاتا ہوں اور راکھ میں چھپی ہوئی چنگاریاں کریدنے لگتا ہوں۔ میں ایسا کیوں کرتا ہوں؟ کیا میں تفتیشی افسرہوں، اور دوسروں کے عیب نیب تک پہنچاتا ہوں؟ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں ایک سیدھا سادہ اللہ سائیں کا آدمی ہوں۔ میں دال میں کچھ کالے کی نشاندہی نہیں کرتا۔ میں کالے میں دال کی نشاندہی نہیں کرتا۔ آپ مسکرائیں مت۔ میں اپنے آپ کو پارسا اور صاف ستھرا ثابت کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ میں جو کچھ کرتا ہوں اپنی مرضی کے مطابق کرتا ہوں۔ دوست احباب اور رشتہ دار میت دفنانے کے بعد جب چلے جاتے ہیں، تب میں قبرستان میں وارد ہوتا ہوں۔ گڑا مردہ اکھاڑنے لگتا ہوں۔ گڑے مردے اکھاڑنے کی میری عادت بہت پرانی ہے۔ تب ملک مالی بحران سے دوچار نہیں ہوا تھا۔ پیسے کی ریل پیل تھی۔ ساہوکار کیڑے لگے ہوئے دانت پر سونے کا ملمع چڑھواتے تھے۔ کچھ دولت مند ایسے بھی ہوتے تھے جو صحت مند دانتوں پر سونے کا ملمع چڑھواتے تھے۔ اور جو ضرورت سے زیادہ دولت مند ہوتے تھے وہ ناقص دانتوں کی جگہ خالص سونے کے دانت لگواتے تھے۔ ان دنوں ایسا کبھی نہیں ہوتا تھا کہ میت دفنانے سے پہلے میت کے منہ سے سونے کے دانت نکال دیئے جاتے۔ مجھے نہیں یاد کہ کبھی ایسا ہوا ہو۔ مردے کو منہ میں لگے ہوئے سونے کے دانتوں سمیت دفنا دیا جاتا تھا۔ جب تک شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے تھے، اور کوے ہنس کی چال نہیں چلتے تھے تب تک مجھ جیسے پاپی قبرستانوں کا رخ نہیں کرتے تھے۔ مگر حالات تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ دیدہ دانستہ کوے ہنس کی چال چلنے لگے۔ اور پھر ایسا رواج پڑا کہ کوے اپنے آپ کو اصلی ہنس اور اصلی ہنس کو کوا کہنے لگے۔ ہنس جو کبھی اتراتے ہوئےپانی پر تیرتے رہتے تھے ، بہت شرمندہ ہوئے۔ہنسوں نے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا فیصلہ کیا۔ اور پھر ایک روز ہنسوںنے ہنستے ہوئے چلو بھر پانی میں ڈوب کر خودکشی کرلی۔ تب ہم نے قبرستانوں کا رخ کیا اور اردو زبان کو گڑے مردے اکھاڑنے کا محاورہ دیا۔ ہم مستعدی سے گڑے مردے اکھاڑتے تھے اور ان کے منہ سے سونے کے دانت نکال کر جیب میں ڈالتے تھے اور مردوں کو دوبارہ اسی قبر میں دفن کردیتے تھے۔

اب مجھ جیسے پاپی گڑے مردے نہیں اکھاڑتے۔ معیشت کا بیڑا غرق ہونے کے بعد ساہوکاروں نے منہ میں سونے کے دانت لگوانا چھوڑ دیئے ہیں۔ بحران کے ابتدائی دنوں میں ایک سو مردے اکھاڑنے کے بعد مشکل سے ایک مردے کے منہ سے ایک دوسونے کے دانت مل جاتے تھے۔ اور پھر ایسے دن بھی آئے جب دس ہزار مردے اکھاڑنے کے بعد ایک مردے کے منہ سے ایک سونے کا دانت نکلتا تھا۔ وہ دانت بھی اصل میں چاندی کا دانت ہوتا تھا۔ اور پھر معیشت کے چوپٹ ہونے کا پتہ تب چلا جب ایک لاکھ گڑے مردے اکھاڑنے کے باوجود کسی ایک مردے کے منہ سے ہمیں سونے ، چاندی، پیتل یا تانبے کا ایک دانت تک نہیں ملا۔ تب ہم نے گڑے مردے اکھاڑنے کو بے سود جانا اور گڑے مردے اکھاڑنے کے کام سے دستبردار ہوگئے۔ اب ہمارے ملک میں گڑے مردے اکھاڑنے کا کام سیاستدانوں نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔ اور وہ لوگ گڑے مردے اکھاڑنے کا کام بڑی خیرو خوبی سے انجام دے رہے ہیں۔

کہتے ہیں کہ اللہ سائیں جب روزگار کا ایک دروازہ بند کردیتا ہے تب دس دروازے کھول دیتا ہے۔ یہ سنی سنائی بات نہیں ہے۔ یہ میرے اپنے مشاہدے کی بات ہے۔ گڑے مردے اکھاڑنے سے پہلے کسی نہ کسی طور پر میری روزی روٹی لگی رہتی تھی۔ مثلاً گڑے مردے اکھاڑنے سے پہلے میں گورکن تھا۔ قبریں کھودا کرتا تھا۔

کراچی میں لوگ کثرت سے آتے ہیں اور کثرت سے مرتے ہیں۔ اگر لوگ بیمار پڑنا چھوڑ دیں اور صحت مند رہنے لگیں تو اسپتالوں کو تالے لگ جائیں اور ڈاکٹر بیچارے بھوکے مرنے لگیں۔ اسی طرح لوگ اگر مرنا چھوڑ دیں تو گورکن بیچارے بیروزگار ہوجائیں اور فاقوں کا شکار ہو جائیں۔ کراچی میں روزانہ دو چار قبریں کھودنے کا کام مل جاتا ہے۔ ایک پتے کی بات بتادوں آپ کو۔ کراچی میں بیسیوں قبرستان ہیں۔ گورکنی ٹھیکے پر دی جاتی ہے۔ لہٰذا ایک ٹھیکیدار کے ماتحت آپ کو گورکنی کرنا پڑتی ہے۔ مجھے روزانہ دو تین قبریں کھودنے اور مردے دفن کرنے کا کام مل جاتا تھا۔ اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی تھی۔ وائے قسمت ! ایک مرتبہ ٹھیکیدار نے مجھے ایک ایسی پرانی قبر کھودنے کو دی جس میں چالیس پچاس برس پرانے مردے کی ہڈیاں پڑی ہوئی تھیں۔ میں نے واویلا مچایا اور قبر میں قبر کھودنے اور مردے پر مردہ دفن کرنے سے انکار کردیا۔ ٹھیکیدار نے کھڑے کھڑے مجھے کام سے فارغ کردیا۔ ایک دروازہ بند ہوگیا۔ کچھ ہی دنوں بعد مجھے گڑے مردے اکھاڑنے کا کام مل گیا۔

ملکی معیشت کے چوپٹ ہو جانے کے بعد لوگوںنے منہ میں سونے کے دانت لگوانے کا شوق چھوڑ دیا ہے۔ اس لئے ہم نے بھی گڑے مردے اکھاڑنے سے کنارہ کشی کرلی ہے۔ میرے کچھ جاننے والے ، جو میری طرح گڑے مردے اکھاڑتے تھے، معیشت کے چوپٹ ہو جانے کے باوجود گڑے مردے اکھاڑنے کا کام کرتے رہتے ہیں۔ وہ مردوں کے منہ میں سونے کے دانت تلاش نہیں کرتے۔ وہ مردوں کی کھوپڑیاں میڈیکل کے طلبا یعنی ایم بی بی ایس کے طلبا کو بیچتے ہیں۔ اب ان بیچاروں کا کام بھی ٹھپ پڑنے کو ہے۔ حکومت نے چین سے کھوپڑیاں منگوانے کا معاہدہ کرلیا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین