• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹر رضا ربانی نے ایک اہم بات کردی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ’’تمام جماعتیں اقتدار کے لئے بے تاب ہیں، یہی بے تابی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔‘‘ سینیٹر رضا ربانی سیاستدان ہونے کےساتھ ساتھ ایک دانشوربھی ہیں۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں کا مسئلہ درست بیان کیا ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے ہماری سیاسی جماعتوں نے اپنے نظریات کو پیچھے چھوڑ کر ہر قیمت پر اقتدار کے حصول کو اپنا نظریہ بنا لیا ہے۔ اسی نظریے نے مفادات کو جنم دیا۔ اسی نظریے کی پیدائش نے دولت کے حصول کا رواج ڈالا۔ اسی رواج نے کرپشن کے جن کو پیدا کیا۔ آج کرپشن کے اسی جن کے باعث ملک کا خزانہ خالی ہوچکا ہے۔ لوٹ مار نے پیارے پاکستان کومشکلات سے دوچار کررکھا ہے۔ بدقسمتی سے مفادات کے اس نظریے نے مذہبی سیاسی جماعتوں کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اسی لئے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوا، ورنہ یہی معاشرہ تھا جس میں سب لوگ ہنسی خوشی رہتے تھے۔ یہ بھی بدقسمتی ہے کہ معاشرے کایہ رخ پچھلے تیس پینتیس برسوں میں سامنے آیا۔ شاید اسی لئے آج وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو کہنا پڑ رہا ہے کہ ’’پاکستان میں سیاسی نہیںفکری بحران ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پیدا ہونے والا بحران معاشرے کا بحران ہے۔ لوگ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر بحران پیدا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ ہر ہفتے ایک نیا مسئلہ نکال کر سیاست چمکاتے ہیں۔ یہ نظریات کی لڑائی ہے۔ یہ بندوق سے نہیں دلیل سے لڑی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ کافیصلہ کسی نے پڑھا ہی نہیں۔ ریاست کی ناکامی یہ ہوئی کہ بندوق والوں کی دلیل کے سامنے دوسروں کو بچا نہ سکی۔‘‘ سیاسی معاملات پربات کرتے ہوئے چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ ’’ڈی جی نیب نے جیسے ہی شہبازشریف کوگرفتار کیا، ان کی ڈگری پرسوالات اٹھا دیئے گئے۔ ان کی ڈگری جعلی تھی تو سابق حکومت نے کارروائی کیوں نہیں کی؟ تحریک انصاف کا فیصلہ ہے کہ نواز شریف کے فیصلوں پر چیک کے لئے شہباز شریف کو پی اے سی کا چیئرمین نہیں بنانا، اگر اپوزیشن ہی سے بنانا ہے تو پھر بلاول بھٹوزرداری کو بنا دیں۔ خورشید شاہ کس کس کے ساتھ ہیں یہ توپیپلزپارٹی والوں کو بھی نہیں پتا‘‘

اگر ہم وزیر اطلاعات کی باتوںکو دو حصوں میں تقسیم کرلیں تو پہلا حصہ معاشرے کے فکری رجحانات سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ سیاسی بے رحمی پر مشتمل ہے۔ پہلے معاشرے کی بات کرلیتے ہیں۔ یہ معاشرہ بہت عمدہ تھا، قریباً چالیس برس پہلے اس میں عدم برداشت کا زہرگھولا گیا۔ آج یہ معاشرہ زہر آلود ہو چکاہے۔ آپ اتفاق کریں یا نہ کریں اس آلودگی میں اضافہ سیاسی قیادتوں نے کیا۔ انہوں نے لوگوں کے مسائل حل نہیں کئے۔ ہر جماعت بے شمار سیاسی وعدوں کے ساتھ اقتدار میں آئی اور اقتدار میں آ کر تمام وعدے بھول گئی۔ اگلے الیکشن میں لوگ دوسری جماعت کے ہتھے چڑھ گئے۔ اس طرح جماعتیں باریاں لیتی رہیں اور معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتارہا۔ پچھلے تیس پینتیس برسوں کی سیاسی کمائی یہ ہے کہ اس نے معاشرے میں غربت، افلاس، جہالت اور بیروزگاری تقسیم کی۔ آج کے بگاڑ کی وجہ غربت ہے۔ دولت کی ہوس میں تمام حدیں پار کرنا لوگوںکا شیوہ بن گیا ہے۔ کیالوگوں کو یاد نہیں کہ پچھلے پانچ دس سالوں میں کچھ عیسائی بستیاں جلائی گئیں، اس وقت حکومتیں کیا کر رہی تھیں؟ جس فکری بحران کی بات فواد چوہدری کررہے ہیں، دراصل وہ سیاستدانوں ہی کا پیدا کردہ ہے۔ پچھلے چالیس سال میں فکر اقبال کو گم کیا گیاحالانکہ اقبال نے ملّا ازم سے زیادہ اہم صوفی ازم کوقرار دیا۔ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم صوفیا کا دیا ہوادرس بھول گئے۔ صوفیا تو امن کی بات کرتے تھے، برداشت کی بات کرتے تھے، حسن سلوک کی بات کرتے تھے۔ صوفیا نے کبھی بھی معاشرے میںنفرتوں کو تقسیم نہیں کیا تھابلکہ ہمیشہ محبتوںکو بانٹا۔ آج بھی وقت ہے ہم صوفی ازم کی طرف چلے جائیں تاکہ عدم برداشت ختم ہو تاکہ قائداعظم اور علامہ اقبال کی فکر پیداہوسکے۔ لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ دو بڑے مذاہب کے مقدس مقامات پاکستان میں ہیں۔ ان دو مذاہب میں سکھ مذہب اور بدھ مت شامل ہیں۔ آپ کو یاد ہونا چاہئے کہ حالیہ مظاہروں کے باعث کچھ سکھ یاتریوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اس لئے کہ ٹریفک بند تھی۔ ہمیں فواد چوہدری کی باتوں سے بہت حد تک اتفاق ہے مگر انہیں چاہئے کہ وہ اپنی جماعت کی طرف بھی دیکھیں۔ ان کی جماعت کے کچھ اراکین ہمیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا بھاشن دے رہی ہیں۔ یہ نیا بحران کون لوگ پیدا کر رہے ہیں۔ کیا یہ نیا بحران پی ٹی آئی کی ایک رکن اسمبلی پیدا نہیں کررہیں۔ ایک طے شدہ معاملے کو چھیڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر ان کی کم علمی بھی ان کی تقریر سے جھلک رہی ہے۔ مجھے اس سلسلے میں اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن علامہ افتخار حسین نقوی نے قرآن و حدیث کی روشنی میں بہت کچھ بتایا ہے۔ سو، مہربانی کرکے فواد چوہدری صاحب اپنی پارٹی کے اراکین کو منع کریں کہ وہ ہمیں اسرائیل سے دوستی کادرس نہ دیں۔ باقی آپ کی بات درست ہے کہ اگر نیب کے ڈی جی کی ڈگری جعلی تھی تو پچھلی حکومت کوکارروائی کرنی چاہئے تھی۔

گزشتہ دنوں دو اہم فیصلے ہوئے ہیں۔ ایک تو خیبر پختونخوا حکومت نے اجمل وزیر کو اپنا ترجمان مقرر کیاہے۔ یہ فیصلہ خیبرپختونخوا حکومت کے لئے بڑا سودمند ثابت ہوگا کیونکہ اجمل وزیر بہت سمجھدار ہیں اور خوب سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں پھر فاٹا کے معاملات میں بھی وہ حکومت کے خاصے مددگارثابت ہوں گے۔ دوسرا فیصلہ پیپلزپارٹی نے کیا ہے۔ تین پی والی پارٹی نے چوہدری منور انجم کو ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات مقرر کیا ہے۔ منور انجم کام کرناجانتے ہیں۔ پارٹی کے نظریاتی آدمی ہیں۔ انہیں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ساتھ کام کرنے کابھی تجربہ ہے۔

صاحبو! جب تک دولت کی ہوس ختم نہیں ہوگی تب تک معاشرے سے غربت، افلاس، مہنگائی اور بیروزگاری کاخاتمہ نہیںہوگا۔ حکمرانوںکا یقین دولت جمع کرنے پر نہیں دولت تقسیم کرنے پر ہونا چاہئے تاکہ لوٹ مار اورکرپشن کا خاتمہ ہو۔ اگر غربت مٹ گئی توعدم برداشت بھی مٹ جائے گی ورنہ سمجھداروں کے لئے سرور ارمان کا یہ شعر کافی ہے کہ ؎

مقتل کھلے ہوئے ہیں مقفل خدا کا گھر

مذہب شکم پرست انائوں کی زد میں ہے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین