• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ مسلسل غور سے باتیں سن رہے تھے، انہیں بتایا جا رہا تھا کہ پاکستان اہم ترین جوہری ملک ہونے کے ساتھ خطے کا ایسا سنٹرل پوائنٹ میں واقع ملک ہے جس سے بنا کر رکھے بغیر دنیا کا گزارہ نہیں۔ پاکستان میں اس وقت60 فیصد آبادی18 سے35 سال کے تندرست و توانا اور حوصلہ مند نوجوانوں پر مشتمل ہے، سرزمین پاک کا تقریباً ستر فیصد سے زائد علاقہ زرخیز زرعی قطعہ اراضی پر مشتمل ہے، سمندر، دریا، صحرا، پہاڑ اور خوبصورت وادیاں چہار سو ہیں، وطن عزیز زمین میں چھپے تیل و گیس، سونے چاندی اور قیمتی و نایاب پتھروں سے مالا مال ہے، ہر قسم کے پھل فروٹ و نایاب اجناس اگتے ہیں، فیکٹریاں، کارخانے اور بڑی صنعتیں ہیں لیکن بند پڑی ہیں۔۔۔ جیسے ہی طویل دو طرفہ مذاکرات کی نشست گفتگو سے آگے بڑھ رہی تھی نئے پاکستان کی تعمیر کے لئے مدد کا تقاضا بڑھ رہا تھا، پھر وہ موقع آیا جب میزبان نے روایتی محبت میں بھوئیں چڑھاتے ہوئے نرمی سے کہا کہ پاکستان نے چین کی اس وقت مدد کی جب چین دنیا میں تنہا تھا، امریکہ دشمنی پر اترا ہوا تھا، تجربہ یا ٹیکنالوجی نہیں تھی، ایک ارب سے زائد چینی قوم نشے جیسی حالت میں بے سدھ اور مستقبل سے غافل تھی، پاکستان نے پیسوں کی بجائے ہر طرح سے چین کو نوازا، پھر چینی جاگ گئے بلکہ ہوش میں لائے گئے، ڈنڈے کے زور پر سختی بھی کی گئی، ہر ایک کو کام پر لگایا گیا اور بتایا گیا کہ مانگ تانگ کر گزارے کی بجائے محنت کرو، اچھا وقت ضرور آئے گا۔ پھر لیڈر شپ اور پوری قوم جت گئی، قوم کا سربراہ سمیت ہر شخص اپنی صبح کا آغاز نئے عزم سے کرتا تھا وقت گزرتا گیا اور محض گزشتہ 30برسوں میں دنیا کےبادشاہ امریکہ کو مقابلے کی فضا کا سامنا کرنا پڑ گیا، زرعی، صنعتی، ٹیکنالوجی، دفاعی، انفرااسٹرکچر اور سوشل سیکٹر میں انقلابی تبدیلیاں لائی گئیں، ون چائلڈ پالیسی لاکر آبادی کے بوجھ کو کم اور موجود آبادی کو کارآمد شہری بنانے کے لئے ہر شعبے میں تکنیکی تربیت دے کر روزگار کے مواقع فراہم کئے گئے، نئے شہر آباد کئے گئے، فارغ اور ہنر مندوں کو وہاں روزگار، گھر اور اچھی و بنیادی سہولتیں فراہم کی گئیں۔ آج حال یہ ہےکہ صرف ایک شہر Wuhanکا جی ڈی پی پورے پاکستان کےسالانہ بجٹ اور جی ڈی پی سے 3سے4 گنا زیادہ ہے۔ ہرشہر دارالحکومت سمیت آپس میں سڑکوں اور فاسٹ ٹرین کے ٹریکس سے جڑا ہے، سلو ٹرینز بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہیں جبکہ تقریباً ہر شہر کی اپنی ائیر لائن ہے، جہاز اور ٹرین کا ٹکٹ تقریبا برابر ہے۔ 20سے30برسوں میں 70کروڑ افراد کو غربت سے نکال کر مڈل کلاس میں شامل کر دیا گیا ہے، کرپشن کے خاتمے کے لئے موت کی سزائیں دی گئیں آج کرپشن کےخلاف خوف کی فضا ہے۔ مزدور کی کم سے کم اجرت قومی کرنسی یوان میں2سے3ہزار ماہانہ ہے۔17سال سے 80سال کے شہری کام کاج میں مصروف ہیں۔ بےگھروں اور کچی بستیوں کےمکینوں کو ہر شہر میں سینکڑوں بلند و بالا فلیٹ ٹاورز میں منتقل کیا گیا ہے جہاں ہر قسم کی بنیادی سہولتیں میسر ہیں، طبی سہولتیں مہنگی ہیں لیکن صرف امیروں کے لیے کروڑوں افراد خصوصی صحت کارڈ پر مفت علاج کراتے ہیں۔ تعلیم کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرکے نچلی سطح پر بہترین سہولیات کے ساتھ منتقل کیا گیا جبکہ تعلیم مفت ہے۔ بہت دلچسپ بات ہے کہ پورا بزنس سسٹم بینکنگ سسٹم سے ہم آہنگ کر دیا گیا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی دکان سے بڑے بزنس سنٹر میں نقد کی بجائے پلاسٹک کرنسی سے زیادہ موبائل آئن لائن پیمنٹ کا نظام ہے، چین میں کسی بھی راستے میں داخلے سے لے کر ہر مقام پر محفوظ اور خفیہ کیمروں کا عظیم نظام قائم ہے، تجارت کے لئے سمندری، دریائی، زمینی اور فضائی نظام قائم ہیں۔ چین کا تین چوتھائی حصہ اب بھی غیر آباد اور غیر ترقی یافتہ ہے۔ اب اسی کی تعمیر و ترقی سمیت دنیا بھر کی منڈیوں تک رسائی کے لئے پاکستان اور ایران کے ساتھ سمندری و زمینی گزرگاہوں کے کھربوں کے ون بیلٹ ون روڈ کے معاہدے کئے گئے ہیں۔ یہ سب زمینی حقائق ہیں، دہائیوں پہلے بغیر پیسے محض پاکستان کےتجربات اور عالمی سطح پر گڈ ول شیئرنگ سے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے والا چین اپنے تجربات پاکستان کے سامنے رکھ رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ مالی مدد سے انکار نہیں مگر غربت کے خاتمے، کرپشن کی بیخ کنی اور جدید ٹیکنالوجی کی معاونت لے لو۔ یہی تعمیر و ترقی کا صحیح راستہ ہے، اپنی قوم کو جگائو، کام پر لگائو اپنے وسائل پر بھروسہ کرو، مانگنے کی عادت ترک کرو اور اپنے زور بازو پر بھروسہ کرکے محنت شروع کرو۔ قومیں اسی طرح بنتی ہیں ترقی اور دنیا میں مقام ایسے ہی پیدا کئے جاتے ہیں۔ کاش مخلص دوست چین کی پرخلوص تلقین پر کان دھرنے والا پاکستان میں بھی کوئی پیدا ہو سکے اور قدرتی و انسانی وسائل سے مالا مال قوم کو قرضوں میں قرقی کی بجائے غربت میں غیرت کے ساتھ ہمت و محنت سے زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھا دے۔

تازہ ترین