• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:محمد علی عابد…برمنگھم
پی ٹی آئی کی حکومت نے پاکستان سٹیل ملز، پی آئی اے اور واپڈا کی تقسیم کار کمپنیوں کے علاوہ تمام صنعتی اور کاروباری اداروں کی نج کاری کا اعلان کیا ہے یہ معیشت کی ترقی اور عوامی خوشحالی کا آزمودہ نسخہ ہے۔ عوام کی تحویل میں چلنے والے ادارے ترقی کرتے ہیں اور منافع بخش عوامی خدمت کی سکیمیں بناتے ہیں، مالکوں کو احساس ہوتا ہے کہ اگر ایک روپیہ کبھی غلط خرچ ہوتا ہے وہ اس کی جیب سے نکلتا ہے بچایا جانے والا روپیہ ادارے کی آمدنی میں اضافہ کرتا ہے۔ فضول خرچی، لاپروائی اور سستی اور کاروبار کی ہمہ وقت نگرانی کرتے ہیں اس کی برعکس حکومتی نگرانی میں چلنے والے کارندوں کا ادارے کے نفع نقصان سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ادارے کے مالکان آمدنی کی چوری کا تصور بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے دوسرے ساتھی اس کاروبار کی ہمہ وقت نگرانی کرتے ہیں اس کے برعکس حکومتی نگرانی میں چلنے والے اداروں کے کارندوں کا نفع نقصان سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ادارے کا نقصان ہو رہا ہے اس کی کسے پروا ہے۔ نفع ہو یا نقصان کس کی جیب میں جائے گا کسی کو پرواہ نہیں ہوتی۔ کارکن صرف اپنے افسران بالا کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں جن لوگوں نے نگرانی کرنی ہوتی ہے وہ اپنے ماتحت کارکنوں کو مال بنانے کی سکیموں کی راہ دکھاتے ہیں۔ماتحتوں میں حصہ بانٹ لیا جاتا ہے۔ اگر گاہک کسی کوتاہی یا رشوت ستانی کا شکایت بڑے افسر کو کرتا ہے وہ اپنا وقت ضائع کررہا ہوتا ہے کیونکہ رشوت کی جو رقم لی گئی ہے جس کی شکایت ہو رہی ہے اس رقم کا حصہ تو پہلے ہی صاحب بہادر کو پہنچ چکا ہوتا ہے۔ شکایت کنندہ رشوت لینے والے سے ہی شکایت کررہا ہوتا ہے جس کا نتیجہ ظاہر ہے افسر شکایت کنندہ پر کوئی الزام لگا کر شکایت کو ختم کردیتا ہے۔ شکایت کنندہ دیکھتا رہ جاتا ہے اور قہر درویش بہ جان درویش کے مطابق ظلم برداشت کرکے خاموش ہو جاتا ہے۔سرکاری تحویل میں چلنے والے اداروں میں اگر کوئی خدا کا بندہ رشوت لینے کو گناہ یا جرم تصور کرکے اس فعل سے دور رہتا ہے تو اس کے ماتحت عملہ کام میں اس کے ساتھ تعاون نہیں کرتا یہاں تک اس کا حکم نہیں مانتا اسے علم ہے کہ صاحب سے بڑا صاحب اس کا سرپرست ہے اس لئے صاحب اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ ایک بات اور ہے کہ سرکاری افسر شکاری جانور یا پرندے کی جبلت سے رہبری حاصل کرتے ہوئے اپنے شکار پر یک دم نہیں جھپٹتے وہ اپنے شکار کو بھجا دوڑا کر اس کی حمیت کو ختم کردیتے ہیں اور شکار کو اس کیفیت تک لے آتے ہیں جہاں وہ اپنے شکار ہونے کو مقدر جان کر اپنے آپ کو شکاری کے حوالے کردیتا ہے۔ جن لوگوں کا سرکاری شکاریوں سے واسطہ پڑا ہے وہ رشوت دینے کے باوجود مُکے کھاتے رہے ہوں گے۔ سرکاری تحویل میں چلنے والے اداروں میں کرپشن اور رشوت ستانی عام ہونے کے باوجود شاذونادر ہی کسی رشوت خور یا کرپٹ ملازم کو سزا ہوئی ہو۔ ہزاروں میں کوئی ایک کیس ہوگا۔ سرکاری اداروں میں سزا کا نظام اس قدر پیچیدہ اور طویل ہے کہ کسی اہلکار کو پکڑا نہیں جاتا۔پہلا قدم ہوتا ہے کہ ملزم کو ملازمت سے معطل کردیا جاتا ہے اور اس کو ادھی تنخواہ دی جاتی ہے۔ انکوائری شیطان کی آنت کی طرح طویل ہوتی جاتی ہے اکثر مقدمات میں ملزم بری ہو جاتا ہے اور وہ معطلی عرصے کی پوری تنخواہ اور گریڈ کی ترقی کا مقدر ہوتا ہے۔ پی پی پی کی حکومت نے سیکڑوں فارغ شدہ ملازموں کی برسوں پر محیط مدت کی تنخواہ دی تھی جو 122 ارب تھی۔بیورو کریسی کی ملازمت مستقل بنیادوں پر ہوتی ہے بیورو کریٹ کو ملازمت سے ہٹانے کیلئے کڑی شرائط پوری کرنی ہوتی ہیں اس لئے وہ غلطی کرکے ملازمت سے فارغ کئے جانے کے خوف سے بے نیاز ہوتا ہے وہ اپنی ریڈ ٹیپ کے نظام کو ذرہ بھر تبدیل کرنے کا روادار نہیں ہوتا۔ مکھی پر مکھی بٹھانے کی پہنچ جاری رکھتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسا اعلیٰ تعلیم یافتہ ذہین اورتجربے کار وزیراعظم بھی اس گروہ سے نالاں تھا۔ اپنے خطابوں میں انہوں نے یہ شکایت کی ہے کہ یہ لوگ کام نہیں کرتے۔ چائے پیتے رہتے ہیں جس مسئلے کو کھٹائی میں ڈالنا ہو وہ ان کے حوالے کردو آپ کا مقصد پورا ہو جائے گا یہ شکایت مختلف الفاظ میں بیسیوں بار دہرائی گئی تھی۔ بھٹو جیسا زیرک لیڈر بھی اس گروہ پر قابو نہ پاسکا تھا۔راقم کو تعجب ہے کہ موجودہ حکومت نج کاری کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ ہونے کا اشارہ دے رہی ہے لیکن یہ چھوٹے پیمانے کے ادارے ہیں جن کی نج کاری کرنے کا اشارہ دیا جارہا ہے۔
بدلنا ہے تومے بدلو مزاج مے کشی بدلو
وگرنہ ساغر مینابدل جانے سے کیا ہوگا
واپڈا Water Power Development Authority پانی اور بجلی کے ذرائع پیدا کرنے کا محکمہ ہے جس نے اپنے اصلی مقصد پر پوری توجہ دینے کی بجائے مال بنانےکیلئے تقسیم کاری کا عمل بھی ہتھیا لیا۔ یہ عوام کیلئے باعث پریشانی بنا واپڈا چونکہ بجلی کی فروخت کا واحد ادارہ تھا اس لئے عوام اس کا ظلم برداشت کرنے پر مجبور تھے اور کمپنیاں بن جانے کے بعد بھی ان لوگوں نے پرانے ہتھکنڈے جاری رکھے مسلم لیگ نے یہ کمپنیاں اس لئے بنائی تھیں کہ ان کی نج کاری آسانی سے ہوسکتی ہے۔ مسلم لیگ پی آئی اے اور میپکو کی نج کاری کررہی تھی جس پر پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور پی پی پی نے پورے زور و شور سے ہڑتالیں اور مظاہرے شروع کردیئے مظاہرین گلے میں روٹیاں لٹکا کر سڑکوں پر نکل آئے لیگی قیادت سی پیک، لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی کے معاملات کو اہمیت دیتی تھی اور اپنے خلاف قانونی کارروائی میں الجھی ہوئی تھی اس لئے انہوں نے اس پروگرام کو مجبوری میں موخر کردیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نج کاری نہیں کرے گی کرپشن اور چوری کی وارداتوں کو روکنے کے لئے پاور بینک سے قرضے لیکر نئے میٹر لگائے گی۔ یہ میٹر بھی سمارٹ میٹروں کی طرح ناکام ہو جائیں گے اور قوم مقروض ہو جائے گی کیونکہ اہلکار کرپشن کے ذرائع ایجاد کرلیں گے نج کاری کرپشن اوررشوت کئے جانے کا آزمودہ نسخہ ہے۔ موجودہ حکومت اپنی پالیسی Revise کرکے بڑے نتائج حاصل کرسکتی ہے۔
تازہ ترین