• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک ماہ پہاڑ کی پُر پیچ گھاٹیوں کے لمبے سفر کی طرح کٹا۔
گزشتہ شب، جب امارات کے دیو پیکر طیارے نے اسلام آباد کے ہوائی اڈے کو چھوا تو رات تیسرے پہر میں داخل ہوچکی تھی اور فنی طور پر صبح کے ڈیڑھ بج رہے تھے۔ میں نے کھڑکی سے جھانکا۔ رن وے پانی سے تر تھا اور اب بھی ہلکی، بہت ہی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ بارش مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔ اس میں ایک عجیب سی رومانویت ہوتی ہے۔ بھولی بسری یادوں کی خوشبو، گم شدہ موسموں کی بو باس اور لطیف جذبوں کی دھیمی دھیمی آنچ، بارشوں کی سوغاتیں ہیں۔ کبھی آپ کو پہاڑوں کی اس بارش کا تجربہ ہو جب ٹھٹھری ہوئی رات کی دلگیر ساعتوں میں ٹین کی چھت پر ٹپ ٹپ بوندیں برستی ہیں تو جان پائیں کہ دنیا کی سب سے دلکش موسیقی کسے کہتے ہیں۔
ٹھیک سے یاد نہیں لیکن غالباً اشفاق احمد نے کہا تھا کہ جب کچی مٹی پر بارش کا پہلا چھینٹا پڑتا ہے تو سوندھی سوندھی سی خوشبو اٹھتی ہے۔ یہ دنیا کا سب سے دلآویز عطر ہے جس کی مستی کسی دوسرے خوشبو میں نہیں پائی جاتی۔ سردیوں کی بارش میں ایک خاص ٹھہراؤ، ایک خاص گمبھیرتا سی ہوتی ہے۔ وہ ساون کی بارشوں جیسا خروش نہیں رکھتی کہ طوفانی انداز میں برسے اور پل بھر میں جل تھل کر دے۔ وہ ہولے ہولے، تھم تھم کر، رُک رُک کر برستی اور اپنی رفتار میں ایک موسیقانہ تسلسل رکھتی ہے۔ اس میں ممتا کی بے لاگ محبت جیسا رچاؤ ہوتا ہے اور وہ سرد رتوں میں بھی محبوبیت کی دھیمی دھیمی سی آنچ جگا دیتی ہے۔
پختہ رن وے پہ برستی نہایت ہلکی بارش، کچی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو تو نہیں دے رہی تھی لیکن دروازے سے نکلتے اور سیڑھی پہ پہلا قدم رکھتے ہی مجھے پاکستان کی مانوس خوشبو نے بوسہ دیا۔ کئی دن دبئی میں گزار کر وہاں کی زندگی کا رنگ و آہنگ دل و دماغ پر گہرا تاثر قائم کرتا ہے۔ کمال کا نظم و ضبط، زندگی کی وہ ساری آسائشیں جو انسان کے ذہن میں سما سکتی ہیں، جان و مال کا تحفظ، مثالی امن و امان، قاعدوں اور ضابطوں میں ڈھلی زندگی، صفائی ستھرائی اور وہ سب کچھ جس کی معاشروں میں آرزو کی جا سکتی ہے۔
لیکن سچی بات یہ ہے کہ میں جب تک وہاں رہا، مسلسل ایسے لگا جیسے کچھ کھو گیا ہے۔ اپنے بیٹے کے گھر رہتے، دوستوں کا بڑا حلقہ رکھتے اور گھوم گردش کے باوجود اجنبیت کے ایک موہوم سے احساس نے مجھے اپنی لپیٹ میں لئے رکھا۔ زندگی معمول سے ہٹ گئی تھی اور بظاہر یہ معمول بڑا اچھا تھا۔ نہ مسلسل بجتا ہوا ٹیلیفون، نہ ہر آن آواز دیتی ہوئی دروازے کی گھنٹی، نہ اخبارات کا پلندا اور نہ غیرضروری میل ملاقات۔ یہاں تو کچھ بھی گرفت میں نہیں ہوتا۔ سو سکون ہی سکون لیکن اس سکون کے عین قلب میں دھری ایک چھوٹی سی چنگاری جو پیہم سلگتی رہتی ہے۔ متحدہ عرب امارات تو اسلامی تشخص رکھتی ہیں جہاں مساجد آباد ہیں اور اذانوں کی مشکبو صدا گونجتی رہتی ہے۔
اُردو ہر کہیں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ بظاہر چار سو آشنائیاں سی آشنائیاں لیکن اجنبیت کی دھند چھٹنے میں نہیں آتی۔ یہ دھند مکہ مدینہ کے سوا ہر کہیں میرے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ دبئی کے شاندار ایئر پورٹ کے ٹرمینل 3 کی دنیا کسی عجوبے سے کم نہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلام آباد کا بے نظیر بھٹو ایئر پورٹ ویران خانہ لگا۔ پاکستان کے دارالحکومت کا ہوائی اڈہ، اتنا بے مایہ نہیں ہونا چاہئے اور نہیں تو کم از کم لاہور اور کراچی جیسا ہی سہی لیکن بہت پرانا منصوبہ نہ مشرف کے آٹھ سالہ عہد میں آگے بڑھا نہ موجودہ حکومت کے دور میں کوئی اہم پیشرفت ہوئی۔
صبحدم میں نے گھر کے برآمدے سے نکل کر باہر کا منظر دیکھا۔ درخت، پودے، سڑک، گھر سب کچھ بھیگ رہا تھا اور سردی غضب کی تھی۔ ہلکی بارش کی چند بوندوں نے ہی اجنبیت کی ساری دھند صاف کردی۔ میں اپنے پاکستان میں ہوں۔ وہ جیسا بھی ہے میرا ہے اور میں اس کا ہوں۔ میں ایک ماہ بیرون ملک رہا لیکن ایک ایک لمحہ پاکستان میں بسر کیا۔
اخبارات کا وہی پلندا۔ سرسری سی نگاہ ڈالی۔ کوئی ڈیڑھ سو خطوط ابھی دیکھوں گا۔ درجن بھر خط ہی دیکھے ہیں جن میں سے پانچ میں کہا گیا ہے کہ سیاست اپنی جگہ، کبھی کبھی شعر ضرور سنایا کریں۔ آج میرا دل بھی نہیں چاہ رہا کہ وطن واپسی کی کیفیت اور اتنے خوبصورت موسم کے طلسم کو جھٹلاتے ہوئے سیاست کی اکتا دینے والی بیزار کن داستانیں لے بیٹھوں۔ سو آیئے، موسم کی رومانویت سے ہم آہنگ ایک نظم، جو مجھے خود بھی اچھی لگتی ہے۔ ”ہمزاد کی جستجو“۔
کوئی تو ہو
جس کی چشم افسوں طراز میں میرے خواب مہکیں
وہ مسکرائے
تو گوشہ لب سے پھوٹتی مستنیر شوخی میں
میری یادوں کی چاندنی ہو
وہ دل گرفتہ سی شام کے
سر مگیں تحیّر میں ڈوب جائے
تو اس کی پلکوں میں تیرے آنسوؤں میں
میرے نقوش ابھریں
وہ حلقہ دوستاں میں مصروف گفتگو ہو
تو لفظ و معنی کے منضبط رشتہ و تعلق سے ماوریٰ
صوت و حرف کا خوش ادا تسلسل
مرے لئے ہو
وہ چپ رہے
تو فضا میں ہر سو میرے تکلّم کی نغمگی ہو
وہ چاند راتوں میں
نیم خوابید راستوں پر چلے
تو، ہر برگِ خشک سے
میری آہٹوں کا طلسم جاگے
وہ بارشوں کی حسیں رُتوں میں
گھٹاؤں کے رتھ میں بیٹھ کر میری چھت پہ اترے
بہار آئے
تو
اس کے آنگن کے ہر گلِ نوشگفتہ سے
میری باس آئے
میں جس قدر اس سے دور جاؤں
اسی قدر میرے پاس آئے
وہ اپنی پرشوق منزلوں کے سفر پہ نکلے
تو کامراں راستوں کی
پُرکیف وادیوں سے
مری شکستہ دلی کا احساس کرکے
بے آب و رنگ بستی کو لوٹ آئے
کوئی تو ہو
جس کے دل کے مضراب
میرے نغموں سے مرتعش ہوں
کوئی تو ہو
جو مرے لئے ہو
کوئی تو ہو
جو مری طرح ہو
تازہ ترین