• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں آج یوم مہربانی منایا جا رہا ہے۔اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنے پر راغب کرنا اور دوسروں کے لئے نیک جذبات رکھنے کی ترغیب دینا ہے۔

اس دن کو منانے کا آغاز تیرہ نومبر 1998 کو جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں ہواجب عالمی تحریک برائے مہربانی یعنی کہ ورلڈ کائنڈنیس موومنٹ کی بنیاد رکھی گئی۔

ایک ایسے وقت کہ جب معاشرہ انتہا اور شدت پسندی کے منفی رجحانات کےعلاوہ سماجی اوراخلاقی تنزلی کاشکارہورہاہو،نیکی کےکاموں،مہربانی اور رحم دلی کے جذبوں کوفروغ دینے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے ۔

مہربانی کاجذبہ معاشرے میں بھائی چارے،محبت،اخوت اور امن کاموجب بن کر فلاح کاعنصرلےکرآتاہےمگر افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے سماجی اورمعاشی مسائل اور منفی رویوں سے یہ جذبے ماند پڑ رہے ہیں ۔ان جذبوں کو خاص طور پر نئی نسل میں فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

مہربانی ایک ایسی زبان ہے جو کہ بہرےافراد سن اور نابینا افراد دیکھ سکتے ہیں،مہربانی کاکوئی عمل کتناچھوٹا ہی ہو کبھی رائیگاں نہیں جاتا

کسی بھوکے کو کھاناکھلادینا،کسی کی تلخ بات پر مسکرادینا،کسی سے اچھا برتاؤ کرنابھی ایک طرح کی مہربانی ہے۔

مہربانی کافلسفہ اور وصف ہی ہے، جو معاشرے میں مثبت سوچ اورفکر رکھنےوالے افراد کو مشکل وقت میں دوسروں کے کام آنے ، حسن سلوک اور غمگساری کےعلاوہ دیوار مہربانی اور انسانیت کی خدمتجیسے فلاحی کاموں پرآمادہ کرتاہے ۔

اسلام سمیت تمام مذاہب بھی اسی کاپرچارکرتے ہیں۔اللہ نے جتنے احکامات دئیے بندوں کےقدرت کےمطابق ہیں،انسانوں سےنرمی کرنا،یہ اسلامی تعلیمات میں ہیں، لوگوں کےساتھ آسانی کرو، انہیں متنفرنہ کرو، بچوں پر شفقت، لوگوں سے حسن سلوک رکھنا یہ تو اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہیں۔

معاشرے میں اچھا برتاؤ، ضرورت کےوقت کسی کےکام آنے اور نیکی کے دیگر اعمال سےلےکرتلخی کےباوجود ہر ایک سےمسکرا کرملنے،درگزرکرنے اور راستے سے پتھر یاکوئی نقصان پہنچانےوالی چیزہٹادینے تک سب مہربانی کی شکل ہیں ۔

اس حوالے سےگزشتہ دنوں ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے مضافات میں ’’شی‘‘ کے علاقے میں ایک پروقار تقریب ہوئی جس میں ناروے کی کرکٹ فیڈریشن کی سیکرٹری جنرل مس ’’گرے بروآس‘‘ نے ایک خصوصی ایوارڈ سید تجمل شاہ کو پیش کیا۔


تازہ ترین