• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معروف آرکیٹیکٹ، مصنفہ اور سماجی کارکن، ماریہ اسلم سے خصوصی بات چیت

عکّاسی: اسرائیل انصاری

آج سےکم و بیش 10برس قبل مارچ 2008ء میں پاکستانی مطبوعات کی دُنیا میں اے ڈی اے (آرکی ٹیکچر، ڈیزائن، آرٹ) نامی ایک انگریزی جریدہ سامنے آیا، جسےابتدا میں اس کے مواد کی بنا پر فنِ تعمیر سے متعلق ایک جرنل تصّور کیا گیا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میگزین نے فنونِ لطیفہ اور اس کی مختلف اشکال کو بھی اپنے اندر سمو لیا اور آج یہ تبدیلی کا عامل بن چُکا ہے۔ نیز، تین مختصر سے الفاظ سے موسوم اس جریدے میں جمالیاتی تنقید کے کئی جہاں آباد ہیں اور یہ تجزیاتی فکرکی ممکنات تلاش کرنے کے ساتھ ہی جمالیاتی ذوق کی راہ میں آنے والی رُکاوٹیں دُور کرنے کی ایک سعی بھی ہے۔ آرکیٹیکٹ، مصنّفہ اور سماجی کارکُن سمیت دیگر کئی حوالے رکھنے والی باہمّت خاتون، ماریہ اسلم کی زیرِ ادارت ہر دو ماہ بعد شایع ہونے والے اپنی نوعیت کے اس واحد رسالے کا بنیادی مقصد آرکی ٹیکچر، ڈیزائن اور آرٹ کے شعبے میں پاکستان کی مثبت تخلیقات کو دُنیا کے سامنے پیش کرنا اور تخلیقی ذہن رکھنے والے پاکستانی آرکیٹیکٹس، آرٹسٹس اور ڈیزائنرز کی کہانیاں شایع کر کے اُن کی مختلف بین الاقوامی فورمز تک رسائی کی راہیں ہم وار کرنا ہے۔ تاہم،جمالیاتی ذوق کی تسکین کے ساتھ ہی یہ مُلک کے سماجی، اقتصادی و ماحولیاتی مسائل سمیت زندگی کے دیگر شعبوں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ آرکی ٹیکچر، ڈیزائن اور آرٹ جیسے تخلیقی شعبوں میں اپنی خدمات کی بنا پر اس میگزین کو بیرونِ مُلک خاصی پزیرائی مل رہی ہے۔ اسی کے پلیٹ فارم سے ’’کیا آپ اپنے شہر کے بارے میں جانتے ہیں؟‘‘ کے نام سے مکالمے کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا ہے، جس کے تحت مختلف شہروں میں گفتگو اور بحث مباحثے کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، رسالے کی اشاعت کے10سال مکمل ہونے پر رواں برس اگست میںاے ڈی اے ایوارڈز19-2018کا بھی اعلان کیا گیاہے، جن کا مقصد قومی سطح پر تخلیقی اذہان کو نمایاں کرنے اور انہیں تقویت دینے کے ساتھ بین الاقوامی پیمانے پر تخلیقی افراد کے درمیان بھائی چارہ پیدا کرنا ہے۔دُنیا بَھر میں موجود پاکستانی آرکی ٹیکچر، ڈیزائن اور آرٹ پر مشتمل اس انعامی مقابلے میں اپنی تخلیقات آن لائن پیش کر کے حصّہ لے سکتے ہیں۔

معروف آرکیٹیکٹ، مصنفہ اور سماجی کارکن، ماریہ اسلم سے خصوصی بات چیت
نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے

میگزین کی بانی اور چیف ایڈیٹر، ماریہ اسلم کا شمار ایسی شخصیات میں ہوتا ہے کہ جو کام یابی کی منازل طے کرنے کے لیےاپنے راستے خود تلاشتی اور تراشتی ہیں۔ انہوں نے 1998ء میں انڈس ویلی انسٹی ٹیوٹ سے آرکی ٹیکچر میں بیچلرز اور2017ء میں میک گِل یونی ورسٹی سے ماسٹرز کیا ۔ گزشتہ دِنوں ہم سے خصوصی گفتگو کے دوران ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’’اگر کوئی فرد مجھ سے میری شناخت پوچھتا ہے، تو میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ گرچہ مَیں ایک آرکیٹیکٹ ہوں، لیکن اس کے ساتھ ہی ایک سماجی کارکُن، مصنّفہ، محقّق، مُدیرہ اور پہل کرنے والی بھی ہوں۔ درحقیقت،مَیں اور میری ٹیم اے ڈی اے کے پلیٹ فارم سے ہر وہ کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جس کے نتیجے میں پاکستان میں بہتری آئے۔ مَیں نے 2008ء میں بہ طور آرکیٹیکٹ اپنے کیریئر کے آغاز کے ساتھ ہی رسالے پر بھی کام شروع کردیا تھا۔ اسے اپنی نوعیت کا منفرد میگزین کہا جا سکتا ہے ، کیوں کہ اس وقت پورے مُلک میں ایسا کوئی دوسرا رسالہ شایع نہیں ہوتا کہ جو آرکی ٹیکچر، ڈیزائن اور آرٹ جیسے تینوں شعبوں کا احاطہ کرتا ہو۔ تاہم، یہ میرے لیے فخرو انبساط کا لمحہ نہیں، بلکہ افسوس ناک اَمر ہے کہ 10برس گزرنے کے بعد بھی اس جیسا کوئی دوسرا جریدہ سامنے نہیں آیا۔ خیال رہے کہ ہمارے مُلک کی 60فی صد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور اُن کے لیے ایسے میگزینز کی اشاعت بے حد ضروری ہے، کیوں کہ یہ دُنیا کے سامنے پاکستان کا سافٹ امیج پیش کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ ہم بھی دُنیا کو یہ باور کروارہے ہیں کہ پاکستان میں حسین مقامات اور تخلیقی اذہان کی کمی نہیں۔ مَیں نے اسے اپنے بچّوں کی طرح پروان چڑھایا اور سینچا ہے اور اس سے میری وابستگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب مَیں نے خود کو کُلی طور پر اے ڈی اے کے لیے وقف کر دیا ہے، جس کی وجہ سے میری پریکٹس بھی کافی متاثر ہو رہی ہے۔ اس کی اشاعت کے 10برس مکمل ہونے پر ہم نے’’ اے ڈی اے ایوارڈز 2018-19‘‘ کا اعلان کیا ہے، جن کا ایک مقصد یہ جاننا بھی ہے کہ اس عرصے میں ہم نے آرکی ٹیکچر،ڈیزائن اور آرٹ کے شعبےمیں کیا کیا کام یابیاں حاصل کیں۔درحقیقت، یہ منصوبہ پاکستانی تخلیق کاروں کی بین الاقوامی پلیٹ فارمز تک رسائی کی ایک کاوش ہے۔ان انعامی مقابلوں میںدُنیا بَھر میں موجود مذکورہ شعبوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی حصّہ لے سکتے ہیں۔ ہر ایک شعبے کو مزید 10,10درجات میں تقسیم کیا گیا ہےاورخواہش مند افراد آن لائن اپنی تخلیقات پیش کر کے ان ایوارڈز کا حصّہ بن سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی فرد نے مذکورہ بالا شعبوں سے متعلق کوئی کتاب یا کوئی مضمون تحریر کیا ہے یا کسی کتاب کا ٹائٹل ڈیزائن کیا ہے، تو وہ بھی اپنی تخلیق پیش کر سکتا ہے۔ یاد رہے کہ ان ایوارڈز کے اجراء میں ہمیں آغا خان ایوارڈ فار آرکی ٹیکچر اور جنگ گروپ سمیت دیگر اداروں کی معاونت حاصل ہے۔‘‘

رسالے کی اشاعت اور مقاصد سے متعلق کیے گئے ایک سوال کے جواب میں ماریہ نے بتایا کہ ’’ ہم مُلک کی ہر جامعہ میں اپنا میگزین پہنچاتے ہیں، چاہے کوئی طلب کرے یا نہ کرے۔ اس کے علاوہ یہ مُلک کے تمام مشہور بُک اسٹورز اور ہوائی اڈّوں سمیت دوسرے اہم مقامات پر بھی دست یاب ہے۔ یہ پاکستان کا واحد میگزین ہے کہ جسے ایم آئی ٹی، یو ایف ٹی، کورنیل اور ہارورڈ جیسی دُنیا کی ممتاز جامعات نے سبسکرائب کروایا ہے۔ سو، مَیں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ہمارا جریدہ وہ واحد کھڑکی ہے کہ جس سے پاکستان کی تازہ ہوائوں کے جھونکے بیرونِ مُلک جاتے ہیں۔ ابتدا میں یہ ہر 3ماہ بعد شایع ہوتا تھا، لیکن اب یہ ہر دو ماہ بعد مارکیٹ میں دست یاب ہے اور اب تک اس کے 43شمارے شایع ہو چُکے ہیں۔ ہم اپنے میگزین میں عموماً مُلک بَھر میں آرکی ٹیکچر، ڈیزائن اور آرٹ کے موضوع پر منعقد ہونے والی تقاریب کور کرتے ہیں، جب کہ سال میں ایک مرتبہ ایسا شمارہ بھی شایع کرتے ہیں کہ جو کسی ایک موضوع پر مبنی ہوتا ہے۔ تاہم، مَیں اور میری ٹیم صرف میگزین کی اشاعت ہی تک محدود نہیں، بلکہ ہم نے ’’کیا آپ اپنے شہر کے بارے میں جانتے ہیں؟‘‘ کے نام سے ٹاک شوز کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔ اس کا آغاز کراچی سے ہوا اور اب ہم مُلک کے دیگر شہروں میں بھی پروگرامز منعقد کر رہے ہیں۔ کراچی میں منعقدہ ہمارا ٹاک شو اس قدر مقبول ہوا کہ اس کے بعد ہمیں اسپین میں کراچی اور ملاگا کے شہریوں کے درمیان بات چیت کے لیے پروگرام کرنے کی پیش کش کی گئی ۔ دراصل ہمارا منتخب کردہ موضوع اس قدر متنوّع، حسّاس اور جذباتی ہے کہ اپنے اپنے شہروں سے لگائو رہنے والے افراد ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے لیے بے چین ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کراچی میں ہونے والے ٹاک شو میں رولینڈ ڈی سوزا، عارف حَسن اور دینا قاضی جیسی شخصیات نے شہر سے متعلق حیران کُن حقائق پیش کیے۔ اس نشست میں رولینڈ نے گوانیز کے طرزِ تعمیر کے کراچی کی عمارات پر اثرات سے متعلق بہترین کہانیاں سُنائیں۔ کراچی پر اتھارٹی کی حیثیت رکھنے والے عارف حَسن نے بھی شہر سے متعلق چشم کُشا حقائق بیان کیے، جب کہ دینا قاضی کا کہنا تھا کہ تزئین و آرایش کے نام پر تاریخی مقامات کا نام اور صُورت بدلنا، تاریخ کا صفایا کرنے کے مترادف ہے۔ پھر ہم اے ڈی اے کے پلیٹ فارم سے شہر کو درپیش مسائل کے حل کے لیے بھی آواز بلند کر رہے ہیں۔ تاہم، ہماری خدمات کا دائرہ صرف کراچی تک محدود نہیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ان ٹاک شوز میں سرکاری حُکّام بھی شامل ہوں، تاکہ وہ بھی اس مفید بات چیت سے مستفید ہو سکیں۔ نیز، ہم نے گزشتہ 10برس کا ریکارڈ بھی جمع کر رکھا ہے اور ہماری خواہش ہے کہ اسے بھی بروئے کار لایا جائے۔ ہم ان ٹاک شوز کو اپنے میگزین میں بھی کور کرتے ہیں، تاکہ یہ بھی ریکارڈ کا حصّہ بن جائیں۔ اس کے علاوہ ہم سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اپنے پیغام کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ‘‘

ماریہ اسلم کا اس سوال کے جواب میں کہ ’’کیا انہیں اپنا میگزین اردو زبان میں شایع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی؟‘‘ کہنا تھا کہ ’’دراصل، آرکی ٹیکچر، ڈیزائن اور آرٹ کی تعلیم انگریزی زبان ہی میں دی جاتی ہے، لیکن اگر کوئی مُجھے یہ مشورہ دے گا، تو مَیں ضرور اس پر سوچ بچار کروں گی، کیوں کہ ایران سے ایک ایسا رسالہ شایع ہوتا ہے، جس کا ایک حصّہ اردو زبان پر مشتمل ہے۔ تاہم، اس مقصد کے لیے ہمیں مزید وسائل کی ضرورت ہو گی، جب کہ اے ڈی اے در حقیقت ایک وَن ویمن شو ہے کہ اس کے تمام اخراجات مَیں خود برداشت کرتی ہوں۔ مَیں اپنی پریکٹس سے ہونے والی آمدن رسالے پر خرچ کرتی ہوں۔ پھر آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے مُلک میں طباعت کتنی مہنگی ہے اور چُوں کہ ہمارے لیے تصاویر اہمیت کی حامل ہوتی ہیں اور ہمارا میگزین بیرونِ مُلک بھی جاتا ہے، تو ہمیں پرنٹنگ کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے رسالے کا معیار برقرار رکھنے کے لیے مَیں نے گزشتہ 10برس کے دوران طباعت سے متعلق خاطر خواہ علم حاصل کیا۔ مَیں نے اپنی جمع پونجی سے اس کا پہلا شمارہ شایع کیا تھا اور اس میں ایک اشتہار بھی نہیں تھا، لیکن مُجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ اب مختلف تعلیمی ادارے نہ صرف ہمارا میگزین سبسکرائب کرنے کی درخواست کرتے ہیں، بلکہ اسے اپنے لائبریری کا حصّہ بنا کر فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔ اے ڈی اے کو پاکستان سے زیادہ بیرونِ مُلک پزیرائی ملی اور مُجھے اپنے میگزین ہی کی وجہ سے مختلف ممالک میں منعقد ہونے والے انعامی مقابلوں میں بہ طورِ جج مدعو کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں مَیں نے بھارت میں منعقدہ ایک انعامی مقابلے میں بہ حیثیتِ جج شرکت کی ہے۔ اس کے علاوہ مَیں یورپ میں منعقد ہونے والے ’’ورلڈ آرکی ٹیکچر فیسٹیول‘‘ میں بھی شریک ہوئی اور کینیڈا میں منعقد ہونے والے آرکی ٹیکچر، ڈیزائن اور آرٹ کے مختلف مقابلوں میں بھی جج کے طور پر شرکت کر چُکی ہوں۔ تاہم، مُجھے اس بات پر دُکھ ہوتا ہے کہ ہمیں ایچ ای سی سمیت مُلک کے دیگر تعلیمی اداروں کی جانب سے وہ پزیرائی یا معاونت نہیں مل رہی، جس کے ہم مستحق ہیں۔ مُجھے بیرونِ مُلک اس لیے مدعو کیا جاتا ہے کہ انہیں اس جریدے کی اہمیت کا احساس ہے، لیکن اپنے مُلک میں اسے خاطر خواہ پزیرائی نہیں مل سکی اور نہ ہی ہماری 10سالہ خدمات کا اعتراف کیا گیا۔ پھر متعلقہ شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد باتیں تو بہت اچّھی کرتے ہیں، لیکن کوئی ہماری مدد کے لیے آگے نہیں آتا، البتہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ مُجھے قدم قدم پرارشد عبداللہ، گلزار حیدر اور عارف حَسن جیسی شخصیات کی معاونت حاصل رہی، جن کی رہنمائی کے بغیر مَیں اس مقام تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ ‘‘

ایک آرکیٹیکٹ کے طور پر اپنی خدمات کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ’’ایک ماہرِ فنِ تعمیرات کے طور پر تو مَیں نے ابھی تک کوئی شاہ کار کام نہیں کیا ، البتہ اے ڈی اے کے پلیٹ فارم سے مَیں نے فنِ تعمیر، ڈیزائن اور فنونِ لطیفہ کے علاوہ ثقافت، سماج اور ماحول سے متعلق بحث مباحثے اور مکالمے کا آغاز کیا ہے۔‘‘ ثقافتی وَرثے سے متعلق کیے گئے ایک سوال کے جواب میں ماریہ اسلم کا کہنا تھا کہ ’’ ہم نے ثقافتی وَرثے کو خاصی اہمیت دی ہے اور اس کی حفاظت کے لیے آواز بھی بلند کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں ہم نے کراچی میں یاسمین لاری کی خدمات کو نمایاں طور پر پیش کیا، جب کہ لاہور میں رواں برس عوام کے لیے کُھلنے والے قدیم شاہی حمام کو کور کیا۔ اسی طرح ہم وقتاً فوقتاً تاریخی مقامات کی تزئین و آرایش کے نام پر اُن کی تاریخ مسخ کرنے پر سوالات بھی اُٹھاتے رہتے ہیں۔‘‘ ایک خاتون ہونے کے ناتے ماریہ اسلم کو کٹھن مراحل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ اس بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ’’ مُجھے رکاوٹوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، لیکن مَیں نے ان مشکلات سے سیکھتے ہوئے نئی راہیں متعین کیں۔ مُجھے تقریباً روزانہ ہی نِت نئے تجربات سے گزرنا پڑتا ہے، جن سے مَیں کچھ نہ کچھ سیکھتی ہوں۔ اس مُلک میں ویسے ہی انٹرپرینیور بننا بہت مشکل ہے اور خاتون انٹرپرینیور کے لیے تودُہری مشکل ہے۔ مثال کے طور پر مُجھے 2014ء میں ایک ایسے ناخوش گوار تجربے کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بارے میں مَیں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ دراصل، ہمارے دفتر میں چوری ہوئی اور چور کئی بیش قیمت اشیا چھوڑ کر صرف ہمارے سی پی یوز اُٹھا کر لے گئے، جن میں ہمارا سارا ڈیٹا موجود تھا۔ ہم اُس وقت ایک اہم پراجیکٹ پر کام کررہے تھے اور ایک منصوبہ بندی کے تحت ہمارے دفتر میں چوری کروائی گئی۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ جب ہم تھانے میں ایف آئی آر درج کروانے گئے، تو پولیس نے سی پی یوز کی قیمت کے بارے میں پوچھا۔ تب یہ سوچ کر مجھے بے حد دُکھ ہوا کہ پولیس کو اس بات کی رتّی بَھر پروا نہیں کہ اُن میں ہمارابرسوں کی محنت سے جمع کیا گیا ڈیٹا موجود تھا۔ ہم نے پولیس کو فوٹیجز بھی فراہم کر دیں، جس میں ایک شخص کو رِکشے سے نکل کر اوپر آتے دیکھا جا سکتا تھا، لیکن کافی بھاگ دوڑ کے باوجود بھی ہمارے سی پی یوز بازیاب نہ ہو سکے۔ اس واقعے کے بعد مَیں بالکل بکھر کر رہ گئی ، لیکن پھر خود کو سنبھالا اور نئے سِرے سے کام کا آغاز کیا، کیوں کہ مَیں اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ اگر انسان خلوصِ نیّت کے ساتھ کام کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے آسانیاں پیدا کر دیتا ہے۔ مَیں دیگر خواتین اور لڑکیوں کو بھی مشورہ دینا چاہتی ہوں کہ وہ اپنے خوابوں کو تعبیر دینے سے نہ گھبرائیں۔ اپنے اہداف کا تعیّن کریں اور منزل تک پہنچنے کے لیے خود راستے تلاش کریں۔ مَیں متجسّس و مشتاق لکھنے والوں کو خوش آمدید کہتی ہوں، کیوں کہ ہمارے پاس کافی گنجایش ہے۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’کراچی سمیت مُلک بَھر میں امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہونے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں کئی مثبت تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں۔ اب نہ صرف کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے، بلکہ فن کی ترویج اور شہروں کی بہتری و خوش حالی کے لیے کام کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ یہ خاصی حوصلہ افزا صُورتِ حال ہے اور اس میں ترقّی کے بیش بہا مواقع پنہاں ہیں۔‘‘ جب ماریہ اسلم سے یہ پوچھا گیا کہ ’’اُن کی فیملی وقت نہ دینے کا شکوہ تو کرتی ہو گی؟‘‘، تو انہوں نے جواب دیا کہ’’ گرچہ میرے کام کا کوئی وقت مقرّر نہیں، لیکن ایک سنگل پیرنٹ ہونے کی وجہ سے مُجھے اپنے بچّوں کے حقوق اور توقّعات کا بھی احساس ہے ،تو انہیں بھی بہ حُسن و خوبی پورا کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔‘‘ 

تازہ ترین