• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کابینہ نے بچوں کی گداگری پر پابندی عائد کردی

سندھ کابینہ نے بڑی سماجی برائیوں پر قابو پانے کے لیے بچوں کی گداگری پر پابندی عائد کردی ہے اور محکمہ سماجی بہبود کو ہدایت کی ہے کہ وہ سگنل اور گلیوں سے بچوں کو اٹھا کر انہیں اپنے ویلفیئر مراکز میں رکھیں۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے آج نیو سندھ سیکریٹریٹ میں سندھ کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی۔ چیف سیکریٹری سندھ ممتاز شاہ نے اجلاس کی کارروائی کا آغاز کیا۔

اجلاس میں گندم کی فصل 2018 کی قیمت مقرر کرنے سے متعلق رپورٹ،گدا گری پر موجودہ قانونی پوزیشن کی رپورٹ ،نئے کیپیٹیو پاور پلانٹس پر ٹیرف کے فرق کی سبسڈی،سیہون ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی گورننگ باڈی کی تشکیل ،سندھ زکوٰۃ و عشر ایکٹ میں ترمیم ،صوبائی کابینہ کے مالی امور سے متعلق اختیارات پر بھی غور کیاگیا ۔

کابینہ میں پانی کی صورتحال پر پریزنٹیشن بطور ایک اضافی آئٹم کے غور کے لیے پیش کیاگیا ۔ صوبائی مشیر برائے قانون و اطلاعات مرتضیٰ وہاب نے کابینہ کی جانب سے گداگری کے مسئلے پر تشکیل دی گئی اپنی کمیٹی کی سفارشات پیش کیں ۔ کمیٹی کے دیگر اراکین میں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو اور صوبائی وزیر سماجی بہبود ہری رام تھے۔ رپورٹ میں بتایاگیاکہ گداگری بچوں سے کرائی جاتی ہے جوکہ براہ راست یا بلواسطہ طورپر گداگری کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور یہ چند خواتین یا مرد حضرات جو کہ خود کو بچوں کا کسٹوڈین ظاہر کرتے ہیں کے ساتھ نظر آتے ہیں ۔ یہ سندھ چائلڈ ایکٹ 1955 ایکٹ کی دفعہ 49 کی خلاف ورزی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی واضح کیاگیا کہ 2011 میں سندھ اسمبلی نے سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی ایکٹ پاس کیاتھا، جس میں بچوں کے حقوق کو یقینی بنایاگیاتھا اور ان کے حوالےسے خصوصی اقدامات کی ضرورت پر زور دیاگیاتھا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سندھ کابینہ کی مشاورت سے صوبہ بھر میں گداگری پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا اور پہلے مرحلے میں گداگری کےلیے استعمال ہونے والے بچوں پر مکمل طورپر پابندی عائد کردی ہے۔انہوں نے محکمہ سماجی بہبود کو ہدایت کی کہ وہ بچوں کی گداگری کے حوالے سے ایک خصوصی مہم شروع کریں ۔

وزیراعلیٰ سندھ نے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو ہدایت کی کہ وہ بچوں کی گداگری کے خلاف چلائے جانے والی محکمہ سماجی بہبود کی مہم کے حوالے سے مدد کریں اور بھیک مانگنے والے بچوں کو سویٹ ہوم اور اسٹریٹ چلڈرن سینٹر کورنگی بھیجا جائے جہاں پر ان کی بحالی کا کام کیاجائے گا۔انہوں نے کہا کہ میں انہیں چھت، خوراک، کھیلوں کی سرگرمیاں اور تعلیم فراہم کرنا چاہتا ہوں تاکہ یہ ہمارے ملک کے کارآمد شہری بن سکیں ۔

انہوں نے محکمہ سماجی بہبود کو یہ بھی ہدایت کی کہ وہ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کو ایک موثر ادارہ بنائیں۔انہوں نے کہا کہ ’’ہیلپ لائن 1121 کی میڈیا میں لازمی طورپر تشہیر کی جائے تاکہ عام آدمی کو بچوں کے جو بھی حقوق ہیں اس حوالے سے کوئی سقم نظر آئے تو اس کی شکایت کرسکے‘‘۔انہوں نے کہا کہ اگلے مرحلے میں ایک اور موثر اور جامع مہم گداگری کے حوالے سے شروع کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ کوئی بھی بچہ سیگنل یا گلیوں میں بھیک مانگتا ہوا نظر نہ آئے۔

سندھ کابینہ نے اپنے 1745815ٹن گندم کے اسٹاکس کو 3315روپے فی سو کلوجوٹ بیگ اور 3250 روپے پی پی بیگ کے ساتھ ڈسپوز آف کرنے کا فیصلہ کیا اس طرح صوبائی خزانے پر سبسڈی کی صورت میں 6.7 بلین روپے کا مالی بوجھ پڑے گا ۔وزیراعلیٰ سندھ نے چیف سیکریٹری ممتاز شاہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں سیکریٹری خزانہ اور سیکریٹری خوراک بطور ممبر شامل تھے انہوں نے جاری قیمت سے متعلق سفارشات پیش کیں۔

کابینہ نے سندھ نیو کیپیٹیو پاور پلانٹس پر ٹیرف کے فرق کی سبسڈی کے حوالے سے تفصیلی غور کیا۔ کابینہ کو بتایاگیا کہ حکومت کو 6 ایس این سی پی پی کے 2.3 بلین روپے کے کلیمز موصول ہوئے ۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ 6 ایس این سی پی پی دیہی علاقوں مثلاً دادو، شکار پور، ٹھٹھہ وغیرہ میں واقع ہیں اور 103.7 میگا واٹ بجلی پیدا کررہے ہیں اور اسے لوکل گرڈ میں فیڈ کررہے ہیں ۔وزیراعلیٰ نے صوبائی وزیرامتیاز شیخ کو ہدایت کی کہ وہ مقامی لوڈ شیڈنگ میں پڑنے والے فرق کا احاطہ کرنے کا انتظام کریں اور انہیں رپورٹ دیں۔اور ایس این سی پی پی کے کلیم کی چارٹر اکائونٹنٹ سے تصدیق کرائی جائے کہ تمام سبسڈی کلیمز ایکٹ ، قواعد ، ٹیرف پالیسی، نیپرا ٹیرف اور دیگر متعلقہ قواعد کے مطابق ہیں ۔ کابینہ نے 2.3 بلین روپے کی سبسڈی کی منظوری دی اور اس کی ادائیگی قانون کے مطابق کی جائے گی۔

دریں اثنا پانی کی قلت کے حوالے سے وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی برائے پانی اشفاق میمن نے کابینہ کو بتایا کہ ارسا نے رواں ربیع کے لیے آبپاشی کے پانی کی 38 فیصد کی قلت ڈکلیئر کی ہے اور اس قلت میں اضافے کا اندیشہ ہے۔کابینہ نے فیصلہ کیا کہ نومبر اور دسمبر 2018 کے مہینوں کے دوران گندم کی فصل کی بوائی کے لیے زیادہ فراہمی کے مقابلے میں دسمبر کے آخری 10 دن اور جنوری کے آخر میں پانی کی فراہمی کم رکھی جائے گی تاکہ بندش کافائدہ اٹھایا جاسکے اور فروری کی فصلوں کے لیے پانی کو محفوظ بنایا جاسکے۔

کینالز ، برانچز اور شاخوں اور چشموں میں پانی کی فراہمی متعلقہ ریجن کی جانب سے تیار کئے گئے روٹیشن پلان کے مطابق رکھی جائے گی۔پینے کے پانی کی باقاعدہ فراہمی کو یقینی بنایاجائے گا۔ کابینہ نے زکوۃ و عشر کے قانون میں ترمیم کی منظور دی جس کے تحت کراچی شہر کو 6 اضلاع میں ڈکلیئر کیاگیا ہے تاکہ اس کے مطابق زکوۃ تقسیم کی جاسکے ۔

تازہ ترین