• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نمونیا خطرناک ہوگیا، مرض 2030 تک ایک کروڑ 10 لاکھ بچوں کی جان لے سکتا ہے، تحقیق میں انکشاف

نیویارک(آئی این پی)سیو دی چلڈرن اور جان ہوپکنز یونیورسٹی کی جاری کردہ تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نمونیا خطرنا ک مرض کی شکل اختیار کرگیا ہے اور دنیابھر میں اس مرض سے 2030تک ایک کروڑ10لاکھ بچوں کی زندگی کا چراغ گل ہو سکتا ہے، 40لاکھ بچوں کو ویکسینیشن اور بہتر غذا سے بچانا ممکن ہے۔غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق نمونیا 2030تک ایک کروڑ 10لاکھ بچوں کی اموات کا باعث بن سکتا ہے خصوصا غربت کے شکار طبقے سب سے زیادہ خطرے کی زد میں ہوں گے۔یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی ہے۔سیو دی چلڈرن اور جان ہوپکنز یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگلے 12برسوں میں نمونیا ایک کروڑ 8لاکھ کے قریب بچوں کی اموات کا باعث بن سکتا ہے۔تاہم کم از کم ایک تہائی یا 40لاکھ کے قریب اموات کی روک تھام ممکن ہے، اگر ویکسینیشن، علاج اور بچوں کی غذا کی صورتحال کو بہتر بنایا جائے۔محققین کے مطابق 'یہ ایسا مرض ہے جو غریب بچوں کو زیادہ نشانہ بناتا ہے، ایسے بچے جو غذائیت کی کمی یا کچی بستیوں میں رہتے ہیں، ان میں نمونیا کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔انہوں نے مزید بتایا 'بچوں کی اموات کی نمبرون وجہ کے بارے میں حقائق پر بات نہیں کی جاتی جبکہ یہ حکومتوں، ڈونرز اور عوام کی ترجیحات میں بھی شامل نہیں۔اس وقت نمونیا کسی بھی دیگر مرض بشمول خسرہ، ملیریا اور ہیضہ کے مقابلے میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے اور اس کے نتیجے میں ہر سال لگ بھگ 10 لاکھ بچوں کا انتقال ہوجاتا ہے۔یہ مرض پھیپھڑوں کو نشانہ بناتا ہے جو کہ ورم اور سیال سے بھرجاتے ہیں، یہ عام طور پر بیکٹریا، وائرس یا پیراسائٹ کے باعث لوگوں کو ہدف بناتا ہے۔تحقیق کے مطابق غریب بچوں کو طبی سہولیات تک رسائی نہ ہونا یا اس کی علامات سے عدم واقفیت اموات کی وجہ بنتی ہے۔تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ 2030تک اس مرض سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان تیسرا بڑا ملک ہوگا اور نمونیا سے 7لاکھ 6ہزار اموات کا امکان ہے۔اس حوالے سے نائیجریا پہلے اور بھارت دوسرے نمبر پر ہوگا، ان دونوں میں یہ مرض سترہ لاکھ سے زائد اموات کا باعث بن سکتا ہے۔محققین نے دریافت کیا کہ 5 سال سے کم عمر بچوں میں ویکسینیشن کوریج کو بہتر بناکر 2030تک 6 لاکھ 10ہزار زندگیوں کو بچایا جاسکتا ہے جبکہ بچوں کو بہتر غذا فراہم کرکے 25لاکھ زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔تحقیق کے مطابق سستی اینٹی بائیوٹکس ادویات کی فراہمی سے بھی 19 لاکھ بچوں کی زندگیاں بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔محققین نے دنیا بھر کی حکومتوں کو بنیادی طبی سہولیات کی فراہمی، بہتر تشخیص اور علاج پر سرمایہ کاری کا مشورہ دیا ہے، جو کہ نمونیا کی وبا پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے۔

تازہ ترین