• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین کی مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالثی کی پیشکش

تحریر:لائق علی خان…وٹفورڈ
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان جنگ شوائنگ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ کشمیر میں جو صورتحال پیدا ہورہی انتہائی خطرناک ہے اور اس صورتحال نے اب براہ راست عالمی برادری کی توجہ کو اپنی جانب مرکوز کردیا ہے۔ لہٰذا چین کشمیر کی موجودہ صورتحال کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اسی دوران عوامی جمہوریہ چین نے صاف کہہ دیا ہے کہ کشمیر میں کنٹرول لائن پر کشیدگی سے برصغیر کا امن خطرے میں پڑ گیا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ چین نے کہا وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دونوں ملکوں کو مذاکرات کی میز پر لانے میں تعمیری کردار ادا کرسکتا ہے۔ اگرچہ بھارت ہر محاذ پر یہ کہتا آیا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر کسی تیسرے فریق کی ثالثی ناقابل قبول ہے۔ لیکن اس کے باوجود مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالثی اب ناگزیر بن چکی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان جو صورت حال بن رہی ہے عالمی برادری اس کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔ چین نے واضح کہا ’’امید ہے‘‘ مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے لئے دونوں ملک ہر محاذ پر آگے آنے کی کوشش کریں گے۔ چین نے کہا دونوں ملک ایٹمی ملک ہیں، کشمیر دونوں ملکوں کے درمیان بنیادی تنازعہ ہے۔ چین دونوں ملکوں کی مدد کیلئے تیار ہے چین کا موقف درست، خصوصاً چین کی وزارت خارجہ کا بیان ایسے وقت پر آیا نئی دہلی، ماسکو طالبان مذاکرات میں شرکت کیلئے رضامند ہوگیا ہے۔ پہلی دفعہ ہی انڈیا کا وفد دوحہ میں مقیم طالبان کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے گا۔ نئی دہلی سے بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان روپش کمار نے کہا کہ نئی دلی افغانستان میں امن کی کوششوں کی مکمل حمایت کرتا ہے جو ملک میں اتحاد، سیکورٹی، استحکام اور خوشحالی میں مددگار ثابت ہو۔ بھارتی اخبار ہندو کی رپورٹ کے مطابق دو بھارتی سفارت کار آمر ستہا اور ٹی سی اے رگھاون بھارت کی نمائندگی کریں گے۔ یہ دونوں وزارت خارجہ اور کابل میں ہی اپنے فرائض ادا کرچکے ہیں، جبکہ روسی حکومت نے9نومبر کو ہونے والے روس، طالبان مذاکرات میں بھارت کی شرکت کا خیرمقدم کیا ہے۔ اس کانفرنس میں امریکہ، بھارت، ایران، چین، پاکستان اور وسطی ایشیا کے پانچ سابق سوویت ری پبلکن ریاستوں کو بھی اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ اجلاس انتہائی نازک وقت میں ہورہا ہے جب امریکہ کے امن مندوب زلمے خلیل زادہ طالبان کو جنگ کے خاتمے کیلئے مذاکرات پر راضی کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے دہلی سرکار طالبان سے اگر بات چیت کی جاسکتی ہے تو بھارت سرکار حریت قیادت سے بھی بات چیت کا آغاز کرے۔ یہ بھارت کا دہرا معیار ہے کہ وہ کل تک طالبان کو دہشت گرد کہتا تھا آج مذاکرات کی میز پر طالبان کے ساتھ بیٹھنے پر تیار ہوگیا۔ دہلی سرکار اس وقت بھی ہٹ دھرمی کا شکار ہے کہ کشمیر میں سنگ بازوں سے مذاکرات نہیں ہوسکتے، یہ دہشت گرد ہیں، ساری دنیا اچھی طرح جانتی ہے کشمیری عوام امن پسند ہیں۔ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی نے کشمیریوں کو بھارت کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا ہے اور بھارت کے حکمرانوں نے ریاستی دہشت گردی سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان کے اندر اور کنٹرول لائن کے قریب نہتے عوام پر بلاجواز فائرنگ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، یہ سلسلہ زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ بھارت کے حکمرانوں کو چین کی ثالثی آخر قبول کرنی ہوگی اگر بڑی طاقتیں طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے اکٹھی ہوسکتی ہیں، بھارت کو بھی مذاکرات کی چین کی ثالثی کی پیشکش کے پیچھے اور بھی سیاسی و معاشی محرکات واضح ہیں جن میں چین نے اقوام متحدہ و سیکورٹی کونسل کی اجازت سے خنجراب تا گوادر پاک چائنا اکنامک کوریڈور کا آغاز کیا خدا کرے یہ عظیم منصوبہ جلد مکمل ہو۔ یہ عظیم منصوبہ بھارتی حکومت کو ہضم نہیں ہورہا ہے اور بھارت یہ نام نہاد دعویٰ کررہا ہے یہ علاقہ بھارت کا حصہ ہے جبکہ یہ علاقہ جات ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہیں یہ ریاست جموں کشمیر پاکستان و بھارت کے درمیان سرحدی تنازعہ نہیں ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ثالثی کی بنیاد پر حل کیا جائے یہ کشمیری عوام کے حق خوداختیاری کا سلسلہ ہے۔ مسئلہ یہاں یہ ہے بھارت نے عالمی برادری میں یہ تاثر دے رکھا ہے کہ دونوں ملکوں نے شملہ معاہدہ کے تحت کشمیر کو ریاستی سرحدی تنازعہ تسلیم کر رکھا ہے۔ لہٰذا اس پر ثالثی نہیں ہوسکتی۔ یہ بھارت کے حکمرانوں کی فطرت ہے کہ مسئلہ کشمیر پر توجہ ہٹانے اور مسئلہ کشمیر کو طول دینے کیلئے کوئی بھی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے۔ افسوس اس بات کا ہے پاکستان کے اندرونی حالات اور پاکستان اور آزاد کشمیر حکومت اور آزاد کشمیر کی لیڈر شپ نے بھی مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے آج تک اقوام متحدہ سے رجوع نہیں کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے آیا ایک ٹائم ٹیبل ایک روڈ میپ دے، تاکہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کوئی صورت نکل سکے۔ اگر چین سے گوادر تک سی پیک تجارتی منصوبہ عملی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ چین ایک ایٹمی قوت کے ساتھ سیکورٹی کونسل کا مستقل ممبر بھی ہے۔ ویٹو پاور رکھتا ہے۔ وہ ماسکو طالبان مذاکرات کی کامیابی کے بعد وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان، بھارت اور کشمیری قیادت کی اقوام متحدہ کی زیر نگرانی جنیوا میں سہ فریقی کانفرنس بلائے۔ کشمیر کے اندر وادی کے لوگوں کی یہ بھی آواز ہے مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک ریاست کے دونوں اطراف کے عوام کو آپسی رابطوں کیلئے کنٹرول لائن کو کھول دیا جائے۔ کنٹرول لائن سے دونوں ملک اپنی افواج پیچھے ہٹالیں۔ کشمیر کی دونوں اسمبلیوں کے مشترکہ اجلاس طے کئے جائیں۔ کچھ عرصہ بعد کشمیری عوام سے پوچھا جائے وہ مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں۔ اقوام متحدہ، چین، پاکستان ان خطوط پر کام کریں تاکہ خطہ میں پائیدار امن قائم ہوسکے۔ اگر بھارتی حکومت پھر بھی نہیں مانتی تو اقوام متحدہ کشمیر کو ایک آزاد ریاست تسلیم کرے۔ ابھی حال ہی میں انسانی حقوق کی وزیر شیری مزاری نے مقبوضہ کشمیر کی سنگین ترین صورتحال پر کہا۔ مسئلہ کشمیر کا بہترین حل یہی ہے کہ پاکستان اور بھارت کشمیر سے اپنی اپنی افواج نکال لیں، جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں مگر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے سترویں سالانہ اجلاس میں کشمیر سے غیر ملکی افواج کا مطالبہ نہیں کیا کشمیری عوام اب کھلے عام کہتے ہیں کہ دونوں ملک کشمیر سے اپنی افواج نکالیں۔ اب کشمیر میں استصواب رائے یا کسی ثالثی کی ضرورت نہیں اس کی بنیادی وجہ پاکستان نے کشمیر سے اپنی افواج واپس نہیں اور بھارت نے پاکستان کے جواب سے کشمیری رائے شماری کرانے سے انکار کردیا ہے۔ اب کشمیری حلقوں میں یہ بات عام زیر بحث ہے کہ پاکستان میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ وہ کشمیر کے موجودہ حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لے پاکستان کے اندرونی سیاسی، معاشی سفارتی حالات سامنے رکھ کر کشمیر کے بارے میں مثبت فیصلہ کرے،بھارت کے ساتھ مذاکرات کا انتظار کرنا چاہیے مگر بھارت کے اندر نئے انتخابات مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کوئی مددگار ثابت نہیں ہوں، جیسا کہ بھارت کا ماضی گواہ ہے۔ اس نے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ہمیشہ اسے بھارت کا اٹوٹ انگ کہہ کر مذاکرات کی میز سے راہ فرار کا راستہ اختیار کیا۔ مجھے یہاں پاکستان کے سابق ایئر مارشل اینڈ سیاستدان اصغر خان کے الفاظ یاد آتے ہیں کہ پاکستان کو چاہئے کہ لاہور اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر کشمیر کو بھی اسلامی کانفرنس کے اسٹیج سے ایک آزاد و خودمختار ریاست تسلیم کرنا چاہیے تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھارت کے زمینی جغرافیائی حالات بدل گئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت طاقت کے زور پر کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کرسکتے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے لیے روڈ میپ طے ہونا چاہئے اور مسئلہ کشمیر پر چین کی ثالثی پر بھارت و پاکستان کو توجہ دینا ہوگی۔ امن کے لئے کون سا راستہ بہتر ہے۔
تازہ ترین