• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

5ہزار جعلی بینک اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کے ذریعے متحدہ عرب امارات، برطانیہ اور سوئٹزر لینڈ سمیت صرف دس ممالک سے پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت کے 700 ارب روپے یعنی 5.3ارب ڈالر کا سراغ ملنا، امیر اور بااثر لوگوں کا اپنے ڈرائیوروں، مالیوں اور ملازمین حتیٰ کہ فالودے والوں اور رکشے والوں کے نام استعمال کر کے اربوں ڈالر کی رقم غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک منتقل کرنا، اقامے کی آڑ میں اپنی شناخت چھپا کر ناجائز کاروبار کرنا، لانچوں میں پیسے چھپا کر ملک سے باہر لے جانا، اگر یہ معلومات پوری چھان بین کے بعد دیانتداری سے سامنے لائی گئی ہیں اور بظاہر ان کے درست ہونے پر شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کیوں کہ ان کا نیب، ایف آئی اے اور ایس ای سی پی کی گہری تحقیقات کے بعد انکشاف کیا گیا ہے تو ہر محب وطن شخص سوچنے پر مجبور ہے کہ اس ملک، اس کی معیشت اور اس کے عوام کے ساتھ کیا ہوتا رہا ہے اور کیا ہو رہا ہے۔ پیر کو وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر، معاون خصوصی برائے اطلاعات افتخار درانی اور سینیٹ کی اطلاعات ونشریات کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر فیصل جاوید نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ یہ تفصیلات اب تک ملنے والی معلومات کی روشنی میں ظاہر کی جا رہی ہیں۔ تحقیقات مکمل ہونے پر مزید کیا کیا سامنے آئے گا اس کا آنے والے وقت میں پتہ چلے گا۔ حکومتی زعما کا کہنا تھا کہ جعلی اکائونٹس کے حوالے سے نیب میں ریفرنس جلد فائل ہونے والا ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں کالے دھن کا حجم ہماری معیشت کے پورے حجم کے برابر ہے جسے ماضی کے حکمرانوں نے نہیں روکا، صرف دبئی میں پاکستانیوں نے15ارب روپے کی جائیدادیں بنائیں۔ جن 700ارب روپے کا سراغ ملا وہ لوٹی ہوئی دولت کا صرف ایک حصہ ہیں۔ اصل رقم کا حجم تحقیقات مکمل ہونے کے بعد پتہ چلے گا۔ بیرون ملک بہت سے پاکستانیوں کے مشتبہ اکائونٹس منجمد کئے جا چکے ہیں۔ غیر قانونی رقم کی واپسی قانونی کارروائی کے بعد ممکن ہو گی، پریس کانفرنس میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ سب پرانے کیسز ہیں جو مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے دس سالہ دور میں بنائے گئے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ابھی تک ایک کیس بھی فائل نہیں کیا۔ سب سے بڑے منی لانڈرنگ سکینڈل کی تحقیقات سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کر رہی ہے۔ سوئس اکائونٹس کی بھی تحقیقات ہو رہی ہیں جہاں بتایا جاتا ہے کہ 200ارب ڈالر جمع ہیں۔ اس بارے میں اس ماہ کے آخر میں خوش خبری سنائی جائے گی۔ جعلی اکائونٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جے آئی ٹی کو اپنی مکمل تحقیقاتی رپورٹ دو ہفتے میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے اور اگلی سماعت پر متعلقہ بینکوں کے اعلیٰ حکام کو بھی طلب کر لیا ہے۔ جعلساز جو کچھ کر رہے ہیں اس کا خمیازہ تو انہیں بھگتنا ہی ہو گا مگر سوال یہ ہے کہ بینک حکام کیوں آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہیں کیا اکائونٹس کھولتے وقت وہ جانچ پڑتال نہیں کرتے؟ چیف جسٹس نے کیس کے ملزمان سے درست کہا کہ لانچوں میں چھپاکے باہر لے جائے گئے پیسے واپس کردو، کیس ختم ہو جائے گا۔ وزیراعظم کے معاونین کا کہنا ہےکہ جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کے کیسوں کا پچھلے ساٹھ ستر دنوں میں پتہ چلایا گیا ہے گویا یہ کیس فائلوں میں دبا دیئے گئے تھے جو اب کھولے گئے۔ کس نے دبائے اور کیوں، اس کا پتہ بھی چلانا چاہئے اور ذمہ داروں پر مقدمات چلانے کے علاوہ قوم کے سامنے ان کے نام بھی ظاہر کئے جانے چاہئیں ان لوگوں نے ملکی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے جو ناقابل معافی ہے۔ یہ فیصلہ بھی مستحسن ہے جس کے تحت یورپ، دبئی اور دوسرے ملکوں سے اقامہ ہولڈرز کی تفصیلات مانگی جا رہی ہیں۔ اگر انہوں نے واقعی کوئی جرم کیا ہے تو ان پر مقدمات چلائے جائیں ورنہ پوائنٹ اسکورنگ سے گریز کیا جائے اور کسی کو بلاجواز بدنام نہ کیا جائے۔ جو بھی کارروائی ہو شفاف اور غیرجانبدارانہ ہونی چاہئے اور انصاف کے تقاضےرو رعایت کے بغیر پورے کئے جانے چاہئیں۔

تازہ ترین