• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں کچھ دن قبل ہی چین کے شہر گائونزو (Guangzhou) میں منعقدہ ’’چائنا امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ فیئر‘‘ جسے کین ٹون فیئر بھی کہا جاتا ہے، میں شرکت کرکے وطن واپس لوٹا ہوں۔ اس نمائش کا شمار دنیا کی بڑی نمائشوں میں ہوتا ہے اور چین کی اقتصادی ترقی اور بین الاقوامی سطح پر چینی اشیاء کی تشہیر میں اس نمائش کا کردار انتہائی اہم اور نمایاں ہے۔ کین ٹون فیئر 1957ء سے منعقد ہوتا چلا آرہا ہے جس میں سوئی سے لے کر بھاری مشینری اور جدید ٹیکنالوجی سمیت ہر وہ چیز موجود ہوتی ہے جو چین میں تیار کی جاتی ہے۔ نمائش کی اہمیت، وسعت، کامیابی اور ہمہ گیری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس سال نمائش میں 22 ہزار سے زائد چینی کمپنیوں نے حصہ لیا جبکہ 200 سے زائد ممالک سے آئے ہوئے لاکھوں وزیٹرز نے نمائش میں شرکت کی اور نمائش کے دوران 30 ارب ڈالرز سے زائد کے آرڈرز بک کئے گئے۔

میں اس سے قبل کئی مرتبہ کین ٹون فیئر میں شرکت کرچکا ہوں مگر اس بار نمائش میں یورپ سمیت دنیا کے دوسرے ممالک کے وزیٹرز کی دلچسپی قابل دید تھی۔ اس بار نمائش میں پاکستانیوں نے بھی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ حالیہ دورے میں چین کی ایک بہت بڑی ایکسپورٹ کمپنی کے اعلیٰ عہدیدار سے گفتگو میں یہ معلوم ہوا کہ دوسرے ممالک کے برعکس چینی پالیسی سازوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ایکسپورٹ حجم بڑھانے کے ساتھ ساتھ چین کی اشیاء پر دنیا کا انحصار زیادہ سے زیادہ ہو جس سے آپ چین کی پالیسیوں کی گہرائی، دور اندیشی اور کامیابی کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔چینی کمپنی کے عہدیدار کی باتیں سن کر میں یہ سوچنے لگا کہ جس قوم کے پالیسی سازوں کی نظریں اتنی دور اندیش ہوں، اُس قوم کے عزم و حوصلے کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔

نمائش کے دورے کے دوران ایک روز ہال سے گزرتے ہوئے اچانک اذان کی آواز سن کر میں چونک گیا لیکن غور کرنے پر معلوم ہوا کہ اذان کی یہ آواز ایک چینی کمپنی کے اسٹال سے آرہی ہے جو ایسی گھڑیاں اور الارم مینوفیکچر کرتی ہے جن سے نماز کے مقررہ اوقات میں اذان سنی جاسکتی ہے۔ فیئر کے دوران متعدد اسٹال پر یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ چینی کمپنیاں اسلامی اشیاء جن میں قرآنی آیات اور آیت الکرسی کے خوبصورت فریمز، جائے نماز، تسبیحیں اور احرام جیسی اشیاء بڑی تعداد میں تیار کرکے اسلامی ممالک کو ایکسپورٹ کررہی ہیںجس سے چین کو اربوں ڈالرز کا زرمبادلہ حاصل ہورہا ہے۔ میں نے جب ایک چینی کمپنی کے مالک سے دریافت کیا کہ کیا آپ کی کمپنی کے تیار کئے گئے قرآنی آیات کے فریمز میں آیتوں کی کتابت یا خطاطی میں کبھی کوئی غلطی سرزد ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ اُن کی کمپنی گزشتہ 20 سالوں سے مسلمانوں کیلئے مختلف اشیاء تیار کرکے اسلامی ممالک میں ایکسپورٹ کررہی ہے لیکن آج تک کسی ملک سے کوئی شکایت نہیں آئی۔

یہ حقیقت بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 70ء کی دہائی تک پاکستان کی جی ڈی پی چین کے مقابلے میں بہتر تھی اور پاکستان کی فی کس آمدنی بھی چین سے زیادہ تھی مگر افسوس کہ آج چین ہم سے بہت زیادہ آگے نکل گیا۔ پاکستان اور چین کے درمیان باہمی تجارت تقریباً 14 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان چین سے تقریباً 12 ارب ڈالر کی اشیاء امپورٹ کرتا ہے جبکہ ایک ارب 74 کروڑ ڈالر کی ایکسپورٹ چین کو کی جاتی ہے۔ اس طرح پاکستان کے ساتھ چین کی باہمی تجارت کا خسارہ 10ارب ڈالر سے بڑھ چکا ہے جو پاکستان کا سب سے بڑا باہمی تجارتی خسارہ ہے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس (FPCCI) کی یہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح پاکستان سے چین کو ایکسپورٹ میں اضافہ کیا جائے اور چینی امپورٹ میں کمی کی جاسکے تاکہ تجارتی خسارے میں کمی لائی جائے۔ پاکستان بزنس کونسل نے بھی حکومت کو تجویز دی ہے کہ چین 2006ء میں ہونے والے فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے بجائے ڈیوٹی فری رسائی کی بات کی جائے جس سے پاکستان اور چین کے مابین تجارت میں توازن پیدا ہوگا اور اس سے پاکستان کی چین کو ایکسپورٹ 4 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ چین نے 95 فیصد بنگلہ دیشی مصنوعات کو ڈیوٹی فری رسائی دی ہوئی ہے جبکہ آسیان ممالک بھی چین کو اپنی 90 فیصد مصنوعات ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کررہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ چین میں اس اہم مسئلے پر دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام کی بات چیت بھی ہوئی۔

سی پیک ایک ایسا منصوبہ ہے جو پاکستان کی معیشت کیلئے اہمیت کا حامل ہے۔ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد کچھ اس طرح کی خبریںمنظر عام پر آئیں کہ حکومت سی پیک پر نظرثانی کا ارادہ رکھتی ہے اور ترقیاتی کاموں کی رفتار کم کرنا چاہتی ہے۔ سی پیک کے حوالے سے کچھ اس طرح کی افواہیں بھی پھیلائی جارہی ہیں کہ پاکستان کی موجودہ معاشی مشکلات چینی قرضوں کی وجہ سے ہیں اور پاکستان کیلئے چینی قرضوں سے نکلنا مشکل ہوگیا ہے جو کہ قطعاً صحیح نہیں کیونکہ چینی قرضوں کی ادائیگی 4سال بعد 2022ء سے شروع ہوگی لہٰذا سی پیک پاکستان کے موجودہ معاشی بحران کا سبب نہیں۔ چین میں قیام کے دوران میری ملاقات کچھ چینی صحافیوں سے بھی ہوئی جنہوں نے بتایا کہ اس طرح کی خبروں سے چین میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ چینی باشندے پاکستانیوں کو اپنا حقیقی دوست تصور کرتے ہیں۔ ہر چینی کی یہ خواہش ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچے کیونکہ یہ منصوبہ چین اور پاکستان دونوں کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

تازہ ترین