• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گجرات (کاٹھیا واڑ) سے ایک سادھو قسم کے آرٹسٹ وجینت کا گزشتہ کئی دنوں میں متعدد بار فون آیا ہے کہ ڈاکٹر شبنم عشائی نے آپ کو اپنا تازہ شعری مجموعہ دیا تھا اور وہ آپ کی رائے کے انتظار میں ہیں ۔دراصل کسی بھی شریف انسان کے ساتھ ”ڈاکٹر“ کا سابقہ لگا دیکھ کر ذہن میں اس کی جو تصویر ابھرتی ہے اس کے مطابق اس کے چہرے پر نظر کی بارہ نمبر گول شیشوں والی عینک جڑی ہونا چاہئے اور اس کی خشکی پیدا کرنے والی تنقید اور تحقیقی تحریریں اس کے خدوخال سے انتقام لیتی محسوس ہوں۔
شبنم عشائی نے چونکہ علی گڑھ یونیورسٹی سے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ہے چنانچہ انہیں ”ڈاکٹر“ کہلانے کا حق ہے لیکن پرابلم یہ ہے کہ وہ اس کی مندرجہ بالا ”شرائط“ پوری کرتی نظر نہیں آتیں! میں نے انہیں پہلی بار کلکتہ میں ماہنامہ ”انشاء“ کے زیر اہتمام منعقدہ ٹیگور کانفرنس کے مختلف اجلاسوں میں دیکھا اور سنا، پھر شاعری کے سیشن میں ان کی نظمیں سننے کا اتفاق بھی ہوا، مجھے وہ شاعرہ تو لگیں مگر تنقیدی اجلاسوں میں ان کی معقول گفتگوؤں کی ”وجہ سے“ انہیں ”ڈاکٹر“ تسلیم کرنے پر میرا دل ابھی تک مائل نہیں ہوا۔
مجھے یقین ہے میرے وہ ڈاکٹر دوست میرے ان ریمارکس پر ناراض نہیں ہوں گے جو ہم عصر ادب کے صحیح پارکھ ہیں مگر میں تو ادب کے ان ”ڈاکٹروں“ کی بات کر رہا ہوں جن کا رویہ ہم عصر ادب کے ساتھ ”مریضانہ“ ہے ۔ اس کے علاوہ ایک بات اور، میرے ابا جی ہر خوش شکل اور ذہین شخص کو بلاتحقیق کشمیری ”ڈیکلیئر“ کر دیتے تھے، سو میں نے بھی اپنے طور پر یہ طے کر لیا تھا کہ جو خاتون میرے سامنے ہے اور جس کی ذہانت بھری گفتگوئیں کلکتہ کی ٹیگور کانفرنس میں گزشتہ دو دنوں سے سن رہا ہوں وہ یقینا کشمیری ہے، تاہم ’اتمام حجت‘ کے لئے میں نے پوچھ ہی لیا کہ آپ کشمیری تو نہیں؟ بولیں ”ہاں ، لیکن آپ کو کیسے پتہ چلا؟“ اب میں انہیں کیسے بتاتا کہ مجھے کیسے پتہ چلا، سو اتنا ہی کہا کہ ”پیروں فقیروں کی اولاد ہوں، ہم لوگوں کے لئے یہ بہت معمولی باتیں ہیں لیکن اس حوالے سے کبھی غرور نہیں کیا!“
سو یہ خاتون ڈاکٹر شبنم عشائی تھیں، علی گڑھ یونیورسٹی سے فلسفے میں پی ایچ ڈی اور نثری نظم کی اعلیٰ درجے کی شاعرہ! تاہم ان سے ہونے والی یہ ملاقات بالکل ادھوری تھی۔ ان سے میری مکمل ملاقات واپس پاکستان آ کر ہوئی جب میں نے ان کی نثری نظموں کا مطالعہ شروع کیا۔ میں یہ نظمیں پڑھتا چلا جاتا تھا اور پگھلتا چلا جاتا تھا، چنانچہ شبنم کو پڑھتے ہوئے میں اس مسرت اور انبساط کی کیفیت سے دوچار ہوا جو خالص شاعری کی دین ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دکھ اور کرب کی ایک شدید لہر ان نظموں کے بندی خانے سے نکل کر میرے رگ و پے میں سرایت کرتی چلی گئی، شبنم نظم کی ابتداء کے ہنر سے بھی واقف ہے اور یہ بھی جانتی ہے کہ اس نے اس کا اختتام کیسے اور کہاں کرنا ہے چنانچہ وہ قاری کو ابتداء سے اختتام تک اپنے ساتھ رکھتی ہے اور جب اس نظم کا کلائمکس آتا ہے تو دوسرے قارئین کا مجھے علم نہیں، لیکن مجھے کبھی یوں لگتا ہے جیسے گھٹا ٹوپ اندھیرے سے ایک دم چکا چوند روشنی میں آ گیا ہوں اور کبھی ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے تیز روشنیوں کے حصار سے نکل کر گھپ اندھیری غار میں داخل ہو چکا ہوں۔
یہ دونوں متضاد کیفیتیں میرے وجود کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔ میں سب نظم گو شعراء کی بات نہیں کرتا لیکن ان کی بڑی تعداد نے دو کا پہاڑا یاد کیا ہوا ہے۔ وہ شروع سے آخر تک یہ پہاڑا دہراتے رہتے ہیں چنانچہ آپ ان کی نظم کہیں سے بھی شروع کر کے کہیں بھی ختم کر سکتے ہیں جبکہ شبنم کی نظم کو ایڈٹ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ نظمیں ناپ تول کی پوری ہیں سو آپ انہیں کسی بھی شعری پیمانے پر پرکھ سکتے ہیں۔ میر تقی میر# نے کہا تھا
ہم کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے
درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا
شبنم کو بھی اس کی حساس طبیعت شعری اظہار کی طرف لے کر آئی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ اس کا تعلق شاعروں کے اس قبیلے سے نہیں بنتا جو ساری عمر عروض کے کھونٹے سے بندھے لگے پٹے خیالات کی جگالی کرتے رہتے ہیں چنانچہ اس کی نثری نظمیں ہر اس انسانی احساس کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں جو حساس ذہنوں میں پنپتے ہیں۔ یوں میرے نزدیک شبنم کی نظم بلکہ ”نثم“ایک جدید شہر آشوب ہے اور ہم سب اس کے کردار ہیں۔ شبنم کے سابقہ دو مجموعوں اور زیر نظر مجموعہ ”من میں جمی برف“ کے بین السطور میں ہر طرف دکھ ہی دکھ نظر آتے ہیں۔ یہ دکھ اس کے اپنے بھی ہو سکتے ہیں اور وہ دکھ بھی جو ہمارے اردگرد پھیلے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک عورت اگر شام ہوتے ہی گھر نہ آئے تو اس کی ”نسوانیت“ پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے اور اگر مرد شام ہوتے ہی گھر آ جائے تو اس کی ”مردانگی“ پر شبہ کیا جانے لگتا ہے۔ شبنم کی شاعری میں یقینا عورت کے سبھی دکھ موجود ہیں لیکن میرے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ کلکتہ میں موجودگی کے دوران جب اس کے والد نے سری نگر سے یہ اطلاع دی کہ ان کا بزرگ خانساماں جس کی ساری عمر تجرد میں گزری فوت ہو گیا ہے تو وہ گھنٹوں پھوٹ پھوٹ کر کیوں روتی رہی، مرنے والا تو مرد تھا اور اللہ جانے اس کے زیر نظر مجموعہ میں ساری عمر عسرت کے سبب تجرد کی زندگی بسر کرنے والے اس ملازم کا دکھ اس کی کون سی نظم میں اور کس صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ دراصل دکھوں پر کسی کی اجارہ داری نہیں۔ یہ آدم و حوا کا مشترکہ ورثہ ہیں، ہم سب کسی نہ کسی صورت میں دکھوں کے پالنے میں پل کر جوان ہوتے، بوڑھے ہوتے اور پھر قبر تک جا پہنچتے ہیں۔ عورت پر یہ کیفیتیں مختلف صورتوں میں نازل ہوتی ہیں۔ ہماری مشرقی عورت محبت سے محروم نہیں ہے لیکن اسے ملنے والی محبت ان پالتو جانوروں سے مختلف نہیں جنہیں چوما چاٹا بھی جاتا ہے لیکن انہیں لوہے کی زنجیر سے باندھا گیا ہوتا ہے۔
میرے نزدیک شبنم کی شاعری بنیادی طور پر ہجر کی شاعری ہے، وہ یہ مضمون سو رنگ سے باندھتی ہے اور ہر مرتبہ غم کی ایک شدید لہر پڑھنے والوں میں منتقل کرتی چلی جاتی ہے۔ اِس کا ادھورا پن کانٹے بھرے رستوں پر چلتے چلتے مزید آبلہ پائی کا شکار ہوتا ہے اور اس کی کسک صرف اس تک محدود نہیں رہتی۔ میری شدید خواہش تھی کہ میں اس مختصر سے اظہاریہ میں طبیعاتی ما بعد الطبیعاتی وجودیت، بے معنویت اور اس نوع کے دیگر نظریات کے حوالے سے شبنم کی شاعری کو پرکھتا لیکن بدقسمتی سے میں کم پڑھا لکھا شخص ہوں، چنانچہ ان مشکل مشکل اصطلاحات سے واقف نہیں ہوں سو آپ اس تحریر کے مطالعہ کے دوران یہ اصطلاحات ”حسب ذائقہ“ اپنے طور پر استعمال کر سکتے ہیں مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
اور اب آخر میں شبنم عشائی کی ایک مختصر سی نثری نظم
میری لکنت اس قلم کی زبان ہے
جسے تمہاری انا نے تراشا
اور یہ جو گونج ہے
میرے وجود کے ٹوٹنے کی آواز ہے
کوئی FEMINISM نہیں
بس
بے حیثیتی ہے!
تازہ ترین