• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ نے تمام صوبوں کو پینے کا پانی بیچنے والی کمپنیوں سے زیر زمین پانی نکالنے پر لیویز کی مد میں ایک روپے فی لیٹر وصول کرنے کا حکم دیدیا۔ ساتھ ہی عدالت نے ’منرل واٹر‘ کمپنیوں کے فروخت کیے جانے والے پانی کو جانچنے کیلئے کمیٹی قائم کردی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہاگر آپ کو ایک روپے فی لیٹر ادائیگی قبول نہیں، تو انڈسٹری بند کر دیں،ہم گھڑے کا پانی پی لینگے، ایک صنعت کے فائدہ کیلئے قوم کا نقصان نہیں کرسکتے، آپ قوم کے مسیحا نہیں، چار دفعہ میں نے منرل واٹر میں ملاوٹ پکڑی ہے، بوتلوں میں بند مشروبات کیخلاف بھی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے زیر زمین پانی نکالنے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ اس دوران منرل واٹر کمپنی کے نمائندے، ڈاکٹرز اور ماہرین پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران کمپنی کے نمائندے نے بتایا کہ کمپنی کی 15 کروڑ 80 لاکھ روپے ایک سال کی آمدن ہے اور 30 برسوں سے کمپنی ملک میں کام کر رہی ہے۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سب سے زیادہ 11 سال سے کم عمر کے بچے گندے پانی کے باعث موت کا شکار ہوتے ہیں، قوم گڑھے کا پانی پی لے گی، آپ اپنے منافع کی پرواہ کریں قوم کی پرواہ چھوڑ دیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم قوم کے مسیحا ہیں آپ نہیں، اگر آپ کو ایک روپے فی لیٹر ادائیگی قبول نہیں، تو صنعت بند کرکے چلے جائیں، جس پر نمائندہ نے کہا کہ پھانسی دیدیں لیکن یہ نہ کہیں کہ منافع کیلئے کہہ رہا ہوں، ہم 30 سال سے کمپنی چلا رہے ہیں، پوری دنیا کی لیبارٹری ہمارے پانی کو ٹیسٹ کر رہی ہے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے وکیل میرے پاس سفارشات لے کر آتے رہتے ہیں، اربوں روپے کا پانی مفت استعمال کیا ہے کچھ تو واپس کریں، جس پر نمائندہ نے کہا کہ آپ یا صنعت بند کر کے جائینگے یا پھر مواقع دیکر جائینگے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک بوتل پر کتنے پیسے کمائے ہیں؟ بوتل والی کمپنیاں مفت میں اربوں روپے کماتی ہیں، کسی کے منافع کے لیے عوام کو پیاسا نہیں مرنے دوں گا۔اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ساتھ ہی ریمارکس دیے کہ ڈیڑھ لیٹر کی بوتل 50 روپے کی فروخت ہوتی ہے، جو پیسے اکھٹے ہوں گے پانی کی بہبود پر ہی خرچ ہونگے۔ دوران سماعت نمائندہ نے بتایا کہ پانی ابالتے ہیں تو کیلشیم ختم ہوجاتا ہے، 5 روپے منرل ڈالنے پر خرچ ہوتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں نے رپورٹ دیکھی ہے کوئی منرل نہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اپنے ذاتی فائدے کے لیے پانی والی کمپنیوں نے پانی چوری کیا، کمیشن بنائیں گے کہ کتنا پانی چوری ہوا۔اس دوران سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر احسن عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ جو بات کہوں گا وہ اصل میں قوم کی بات ہوگی۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ مسترد شدہ پانی کو تلف کرنا چاہیے، ہمارے پاس پانی نہیں ہے، آنے والی نسلیں ہم سے پانی کے بارے میں پوچھیں گی۔عدالت میں سائنسدان احسن نے بتایا کہ پانی فروخت کرنے والی کمپنیاں زیر زمین پانی کو خشک کر رہی ہے جبکہ انکے پاس پانی کے معیار کو جانچنے کے آلات ہی نہیں ہیں جبکہ پانی کو جانچنے کیلئے اسٹاف کو طریقہ کار ہی معلوم نہیں، یہ کمپنیاں زیر زمین کو بھی خراب کر رہی ہیں۔دوران سماعت ایک خاتون ماہر بھی پیش ہوئی اور انہوں نے بتایا کہ وہ حیاتیات کی ماہر ہیں اور یہاں ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی سے منظوری لیے بغیر ہی پانی استعمال کیا جارہا ہے۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اس معاملے کو درست کرنا ہے، رازق اللہ تعالیٰ ہے، 30 برس بعد آنے والی نسل کو پانی نہ ملا تو کیا جواب دیں گے۔

تازہ ترین