• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زندگی کا سفر بھی بڑا عجیب و غریب، دلچسپ اور منفرد سفر ہوتا ہے کہ ایک ہی وقت میں سفر کرنے والے لوگ مختلف تجربات سے گزرتے ہیں اور عام طور پر ہر ایک کے تجربات دوسروں سے الگ اور مختلف ہوتے ہیں، چاہے ان تجربات کے نتائج ایک ہی جیسے ہوں۔ دو سگے بھائی اور دو قریبی دوست اپنا اپنا مقدر لے کر پیدا ہوتے ہیں اور دونوں نہایت قرب کے باوجود اپنی اپنی زندگی کی کشتی میں سفر کرتے رہتے ہیں، کسی کی کشتی بھنور میں پھنس جاتی ہے کسی کی کشتی ہچکولے کھاتے کھاتے منزل پر پہنچ جاتی ہے اور کسی کی کشتی ہچکولے کھائے بغیر نہایت سکون اور رفتار سے کنارے پہ پہنچ جاتی ہے۔
میرے تجربے، مطالعے اور مشاہدے کے مطابق سیاست اور اقتدار کا کھیل بہت خود غرضانہ اور سنگدلانہ کھیل ہوتاہے جہاں ہر کھلاڑی اپنے مخالف کو مات دینے کی کوشش میں مبتلا رہتا ہے اور عام طور پر اپنے مقاصد کے حصول کے لئے دوسروں کو قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
اگر آپ کبھی غور سے مغلیہ خاندان کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور باپ بیٹے اور بھائیوں کے درمیان اقتدار کی جنگوں اور قتل و غارت کی داستانیں پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اقتدار کا کھیل کتنا سنگدلانہ اور خود غرضانہ ہوتا ہے۔ بے شک اب بادشاہتیں صفحہ ہستی سے مٹ چکیں اور اب بادشاہ صرف تاش کے پتوں میں پائے جاتے ہیں لیکن اگر آپ روشن چہرہ جمہوریتوں اور ترقی یافتہ ممالک میں سیاست کے کھیل کے پس پردہ جھانکیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اگرچہ اب بادشاہتوں والا انداز بدل چکا ہے لیکن جذبہ، محرکات، ہوس اور آرزو نہیں بدلی اور نہ ہی انسانی فطرت بدلی ہے۔ صرف اس ہوس اور آرزو کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے طریقے بدل گئے ہیں لیکن اقتدار کے حصول مں ساتھیوں کو قربان کرنے اور بھینٹ چڑھانے کی جہاں جہاں ضرورت پڑتی ہے اس سے ہرگز دریغ نہیں کیا جاتا۔
میں عینی شاہد ہوں کہ دو نہایت قریبی رشتہ دار سیاستدانوں میں سے جب ایک اقتدار میں تھا تو دوسرا نجی محفلوں میں اکثر کہا کرتا تھا کہ بھائی صاحب کو حکومت کرنی اور سیاست کرنی نہیں آتی۔ ان سے کہو کہ ایک طرف ہٹ جائیں اور اقتدار مجھے دیدیں۔ میں ان کو دکھاؤں گا حکومت کیسے چلائی جاتی ہے اس سنگدلانہ کھیل کی بہترین مثال میں نے خود اپنے کانوں سے سنی، حافظ الاسد کے دور میں شام کے وزیراعظم محمود صاحب ہوتے تھے جن کا نام میرے نام کے دوسرے حصے سے ملتا ہے ورنہ وہ وزیراعظم اور میں ایک عام شہری۔ انہوں نے ایک محفل میں یہ واقعہ اس وقت سنایا جب عراق کے صدر صدام حسین مرحوم ہوا کرتے تھے صدام حسین جو نام کے صدر تھے لیکن کام کے مطلق العنان بادشاہ تھے۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل صدام حسین کو اطلاع ملی کہ ان کا وزیر تعلیم کبھی کبھی ان کے خلاف باتیں کرجاتا ہے اور ان کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔ صدام حسین یہ برداشت نہ کرسکے چنانچہ صدام حسین نے اسے قتل کروا دیا۔ اقتدار کے لئے قتل کروانا تو معمولی بات ہے لیکن اس کہانی کا کلائمکس یہ ہے کہ وزیر تعلیم کو قتل کروانے کے بعد جو سب سے پہلا شخص اس کی بیوہ کے پاس تعزیت اور اظہار غم کے لئے پہنچا وہ خود صدام حسین مرحوم تھا۔ سیاست میں ایسا ہوتا آیا ہے، اب بھی ہوتا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا، فرق صرف انداز اور طریقہ واردات کا ہے۔ مہذب اور ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں بھی سیاسی مخالفین اور بعض اوقات اپنے سیاسی رقیبوں یا راستے میں رکاوٹ بننے والوں کو نہایت خوبصورتی سے کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے میڈیا کو استعمال کیا جاتا ہے وہ اس طرح کہ جس کو اقتدار کی دوڑ سے نکالنا مقصود ہوتا ہے اس کا کوئی نہ کوئی اسکینڈل ڈھونڈھ کر اچھال دیا جاتا ہے اور وہ اسکینڈل اس کے ”گوڈوں گٹوں“میں اس طرح بیٹھتا ہے کہ وہ کھڑاہونے کے قابل نہیں رہتا۔ سیاسی کرداروں کی بظاہر قربت اور نمائشی خلوص و خوشامد پر مت جایئے۔
آپ اقتدار کی دوڑ اور ریس جہاں بھی دیکھیں گے وہاں آپ کو سازشوں کا پھیلا ہوا جال نظر آئے گا۔ خود صاحب اقتدار کے اردگرد موجود درباری ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور پیچھے ہٹانے کے لئے سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ حکمران کی قربت حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر خوشامد کرتے ہیں اور باس کے کان دوسروں کے خلاف بھرتے رہتے ہیں۔ اقتدار کی قربت دور سے نہایت حسین،دلکش اور پرفریب نظر آتی ہے لیکن اگر آپ اسے قریب سے دیکھیں اور اندرون خانہ کے معاملات کی خبر لیں تو اندرونی سازشوں، ایک دوسرے کے خلاف چالوں اور مخلص منافقت دیکھ کر نہ صرف طبیعت مکدر ہوجاتی ہے بلکہ اس قربت سے گھن آنے لگتی ہے۔
 کچھ عرصہ قبل امریکی جنرل میک کرسٹل کو مستعفی ہونا پڑا تھا ۔ میک کرسٹل کو کبھی افغانستان کا بے تاج بادشاہ کہا جاتا تھا۔ اس کے مستعفی ہونے کا سبب اس کا انٹرویو تھا جس میں اس نے صدر اوبامہ کا تمسخر اڑایا۔ میرے مشاہدے کے مطابق جرنیلوں اور بعض اقتدار کے نشے میں مدہوش افسران کا یہ وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی محفلوں میں صاحبان اقتدار خاص طور پر صدر، وزیراعظم اور وزراء کا ریکارڈ لگاتے رہتے ہیں اور ان کے لطیفے سناتے رہتے ہیں، حکمرانوں کی عقل و دانش کا مذاق اڑانا تو عام سی بات ہے۔
میک کرسٹل کے نکالے جانے والے انٹرویو کو بعض امریکی تجزیہ نگار ایک سازش سمجھتے تھے ایک جال کہتے تھے جس میں جنرل کسی معصوم یا نیم مدہوش لمحے پھنس گیا تھا، کچھ ایسا ہی حادثہ گزشتہ دنوں سی آئی اے چیف کے ساتھ بھی ہوا۔ میں نے تجزیہ پڑھا تو مجھے یہ نقطہ نظر بالکل قرین قیاس لگا کیونکہ اقتدار کے اردگرد کئی کھیل کھیلے جاتے ہیں جن میں ایک کھیل اپنے ناپسندیدہ کرداروں کو پھانسنا بھی ہوتا ہے اور اس طرح حکمران کو اپنی وفاداری کا ثبوت دینا بھی ہوتا ہے۔ کچھ ضرورت سے زیادہ سیانے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ 12اکتوبر1999ء میں کولمبو جانے سے پہلے اس وقت کا آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سارے انتظامات کرکے گیا تھا کہ اگر اسے اس کی غیر حاضری میں ”نوکری“ سے نکالا جائے تو کیا کرنا ہے۔
مطلب یہ کہ وہ اپنے قریبی جرنیلوں سے حکمت عملی طے کرکے گیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ لمحوں کے اندر اندر جنرل عثمانی نے کراچی سنبھال لیا اور شام کے سائے ڈھلنے سے قبل جنرل محمود نے وزیراعظم ہاؤس پر شب خون مار دیا۔ جب نیچے یہ کارروائی جاری تھی تو شاید جنرل پرویز مشرف ابھی ہوا کے دوش پر سوار تھا۔ ضرورت سے زیادہ سیانے کہتے ہیں کہ دراصل میاں صاحب کے کچھ مشیروں نے انہیں آرمی چیف کو ہٹا کر جنرل بٹ کے کندھے پر ستارے سجانے اور ہوائی جہاز کو کراچی سے دور کسی مقام پر اتارنے کا مشورہ دے کر خود میاں صاحب کے خلاف سازش کی تھی۔ خدا جانے اصل بات کیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس وقت اقتدار کی جنگ جاری تھی اور دونوں حریف نہ صرف اپنی چالیں چل رہے تھے بلکہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے ہر حربہ استعمال کر رہے تھے۔
اقتدار کی جنگ ہمیشہ کشمکش کو جنم دیتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں تو یہ کشمکش ہمیشہ گل کھلاتی رہی ہے گورنر جنرل غلام محمد اور وزیراعظم ناظم الدین کے درمیان کشمکش نے وزیراعظم کو گھر بھجوا دیا۔ 1958ء میں مارشل لاء لگانے کے بعد جب سکندر مرزا نے جنرل ایوب خان کو ٹھکانے لگانا چاہا تو اس نے چند جرنیل بھیج کر سکندر مرزا سے استعفیٰ لے لیا اور اسے جلا وطن کر دیا۔ صدر ایوب خان اور کمانڈر انچیف یحییٰ خان کے درمیان کشمکش نے بالآخر ایوب صاحب کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔
صدر ضیاء الحق نے اپنے ہی مقرر کردہ وزیراعظم کو ڈسمس کر دیا۔ صدر غلام اسحاق خان کی ہر وزیراعظم سے کھینچا تانی اور کھٹ پٹ رہی۔ جب میاں نواز شریف نے ہیوی مینڈیٹ لے کر اور 58(2)Bکو حذف کروا کر جناب رفیق تارڑ کو صدر بنایا تو ان کے خیال کے مطابق وہ کشمکش اور کھینچا تانی سے بالکل محفوظ ہوگئے تھے لیکن جلد ہی جنرل مشرف اور ا ن کے درمیان محاذ کھل گیا جو بالآخر میاں صاحب کی قیدوبند اور جلاوطنی پر منتج ہوا۔
یارو! حقیقت یہ ہے کہ سیاست کا کھیل بڑا خودغرضانہ اور سنگدلانہ ہوتا ہے اور اقتدار کے اس کھیل میں بڑے بڑے قریبی رشتے، دوست اور ساتھی قربانی کا بکرا بنا دیئے جاتے ہیں اور حصول اقتدار کی بھینٹ چڑھا دیئے جاتے ہیں۔ ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے اور مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا۔ فرق صرف انداز اور طریقہ واردات کا ہے۔
تازہ ترین