• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بانیان پاکستان کی ساری جدوجہد کا خلاصہ یہ ٹھہرا کہ تمام مسلمانوں اور اگر یہ ممکن نہ ہو سکے تو مسلمانوں کی اکثریت کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے۔ ان کا معاشی تحفظ ہو، رسوم و رواج، روبہ زوال نہ ہوں۔ قصہ مختصر یہ کہ مکمل سماجی تحفظ منزل قرار پایا ۔ یہ بات سمجھنا بہت اہمیت کا حامل ہے کہ سماجی تحفظ میں رسوم و رواج یا تشخص سے کیا مراد تھی۔ یقینا مسلمان برطانوی ہندوستان کے جن علاقوں میں رہائش پذیر تھے وہاں ان کا رہن سہن ، رسوم و رواج اور زبان کا تحفظ ہی ثقافت قرار پا سکتے ہیں۔ یہی تشخص قرار دیا جاسکتا ہے لیکن تماشا یہ ہوا کہ جب قیام پاکستان کے بعد ذرا ہی وقت گزرا تھا تو جن افراد نے بالخصوص علاقائی زبانوں کے تحفظ اور ترقی کی خاطر آواز بلند کی ان کو قومیتی سوچ کا حامل قرار دے دیا گیا۔ حالانکہ پاکستانی قوم کی تشکیل ہی پاکستان میں بسنے والی قومیتوں سے ہے۔ اور جب ثقافتی تحفظ کی بات کی جائے تو درحقیقت اس سے یہی مطلب اخذ کیا جا سکتا تھا کہ ان تمام ثقافتی عوامل کی ترقی کی بات کی جا رہی ہے۔ مگر اس حوالے سے رویہ آزادی کے پہلے عشرے کے بعد سے آج تک نامناسب ہی رہا۔ نواب اکبر بگٹی نے اگر بلوچی میں قومی اسمبلی میں تقریر کر ڈالی تو ان کے اس ماضی کو کہ وہ پاکستان بنانے والوں میں شامل تھے یکسر فراموش کر ڈالا گیا۔ اس رویے نے قومیتوں میں اپنے وجود کی شناخت کو برقرار رکھنے کے لئے احساس کو جاگزیں کر دیا اور جہاں تعصب کا پودا ایک بار لگ جائے تو اس کے پھل تو مختلف ذائقوں کے ہوتے ہی ہیں۔ حالانکہ جب ماضی میں آزادی کے وقت مہاجرین کی آمد شروع ہوئی تھی تو اس کا بہائو پنجاب اور سندھ کی جانب تھا۔ سندھ کی دھرتی نے ان افراد کو سمو لیا۔ پنجاب ان سے ایسے آباد ہوا کہ جیسے آباد ہونے کا حق تھا۔ چھوٹے موٹے معاملات کے جو مقامی ذات برادریوں میں بھی پائے جاتے ہیں کے علاوہ سب کچھ مناسب انداز میں چلتا رہا۔ مگر پاکستان کے سر سے قومی سطح کی قیادت بہت جلد اٹھ گئی اور ہم قومی سطح پر یتیم ہو گئے۔ جس کے المناک نتائج نکلے۔ اپنے اپنے تحفظ کی فکر پڑ گئی۔ ان میں سے کچھ معاملات حقیقی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ جبکہ کچھ معاملات میں اختلافات کی بنیاد شخصی ٹکرائو ہوتا ہے۔ برطانوی ہندوستان کی تاریخ میں جس شخص نے نمایاں طور پر اپنی قوم کے لئے کانگریس سے معاہدہ کیا وہ ڈاکٹر امبیڈ کر تھے۔ ڈاکٹر امبیڈکر ایک اچھوت گھرانے میں پیدا ہوئے۔ سخت توہین کے باوجود تعلیم حاصل کی۔ مہاراجہ برودا نے انہیں کولمبیا یونیورسٹی نیویارک کے لئے اسکالر شپ دیا۔ وہ پہلے اچھوت تھے جنہیں یہ موقع ملا ۔ وہاں سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد لندن چلے آئے اور گریز ان اور لندن اسکول آف اکنامکس سے تعلیم حاصل کی۔ ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ شائع ہو چکا تھا ۔ 1917ء میں وطن واپس آئے تو مہاراجہ برودا کو اطلاع دی۔ مہاراجہ نے ملازمین کو حکم دیا کہ اسٹیشن استقبال کرنے جائیں۔ مگر ایک اچھوت کے واسطے مہاراجہ کے احکامات کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ کوئی لینے نہ گیا۔ مہاراجہ نے اپنا ملٹری سیکرٹری مقرر کر دیا ۔ مگر کلرک بھی ان کے سامنے فائل پھینک کر جاتا۔ دفتر میں ان کے لئے پینے کا پانی تک بھی دستیاب نہ تھا۔ شہر آمد سے قبل عام ہو گیا تھا کہ ایک اچھوت شہر میں داخل ہونے والا ہے۔ کوئی ہوسٹل اور کوئی ہوٹل کمرہ دینے کے لئے تیار نہ تھا۔ پارسی ان نامی ہوٹل میں نام بدل کر رہنا پڑا۔ مگر کچھ عرصے بعد لوگوں کو اچھوت کا علم ہو گیا۔ لٹھ بردار جتھہ آ گیا۔ ڈاکٹر امبیڈ نے قصور پوچھا تو جواب ملا کہ تمہارا کوئی قصور نہیں۔ لیکن تم ایک ذلیل اچھوت ہو ۔ چند گھنٹوں کی مہلت نہ ملی مہاراجہ کو تار دیا جو انہوں نے دیوان کو بھجوا دیا۔ جس نے اچھوت کی مدد سے انکار کر دیا۔ کسی نے تھوڑی دیر کے لئے بھی پناہ نہ دی۔ تھک ہار کر بھوکے پیاسے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر زارو قطار رونے لگے۔ شخصی تذلیل نے قومی تذلیل کا شعور مزید اجاگر کردیا۔ جدوجہد جاری رکھی اور کانگریس سے اچھوتوں کے لئے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو گئے۔ ورنہ دھمکی ہندو سماج سے علیحدگی تھی۔ شخصی ٹکرائو بھی قومیتی سوچ کے پنپنے کا باعث بن جاتا ہے۔ جی ایم سید 1946ء کے انتخابات سے قبل تک مسلم لیگ سے وابستہ رہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم پر اختلافات مسلم لیگ سے علیحدگی کی حتمی وجہ بنی جس کا تذکرہ انہوں نے اپنے عدالتی بیان جو شائع ہو چکا ہے میں بھی کیا۔ اس ٹکرائو کے اثرات کم یا زیادہ سندھ میں آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ سندھ کی سیاسی ، سماجی نفسیات کو سمجھنے کے لئے عثمان ڈپلائی کے ناول سانگھڑ کے مطالعہ کو لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ ناول تو حروں کی جدوجہد پر مشتمل ہے اس کے ابتدائی کردار گاموں سے ہوتی ہے۔ جو ایک زمیندار حاجی کا سرڑیا (جس کا اپنا کچھ نہیں ہوتا) ہوتا ہے۔ عید والے دن اس کی بیٹی کی ولادت متوقع ہو جاتی ہے۔ دوڑا ہوا حاجی صاحب تک پہنچتا ہے۔ جو کلکٹر صاحب اور صوبے دار صاحب کے ہمراہ نماز عید ادا فرماتے ہیں۔ اور کلکٹر صاحب سے ’’فقرا‘‘ میں سکوں کی تھیلیاں لٹواتے ہیں۔ گاموں ان تک رسائی کی کوشش کرتا ہے جو بے سود جاتی ہے۔ ان کے گھر تک آتا ہے مگر حاجی صاحب کلکٹر اور صوبیدار کے ہمراہ کھانا تناول کر رہے ہوتے ہیں۔ اندر کون جانے دیتا ۔ حالات کے سبب زبردستی اندر داخل ہو جاتا ہے۔ تو حاجی صاحب مدد کیا کرتے تذلیل کی انتہا کر دیتے ہیں۔ جب گاموں بول پڑتا ہے تو پھر زبردست تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسی اثناء میں گاموں کو خبر ملتی ہے کہ اس کی بیوی اور نوزائیدہ بیٹی تڑپ تڑپ کر جان کی بازی ہار گئے۔ گاموں کی دنیا اجاڑ ہو جاتی ہے۔ آنکھوں میں انگارے ابلنے لگتے ہیں اور وہ واپس گائوں کی بجائے جنگل مسلح تحریک میں شامل ہونے کی غرض سے چل پڑتا ہے۔ بعد میں وہی حاجی صاحب کی جان گاموں سے وبال میں آجاتی ہے اور جو مرتو کو بچانے کی غرض سے بے حس تھا۔ ان کی قبروں پر چادریں اور دیگیں چڑھا رہا ہوتا ہے۔ اب سوال یہ کہ اس وقت میں قومیتوں کی یا طبقات کی بات کیوں کر رہا ہوں۔ تو عرض یہ ہے کہ پاکستان میں دو اہم ترین واقعات ہونے جا رہے ہیں۔ اول چین پاکستان اقتصادی راہداری اور دوئم مردم شماری کا انعقاد ۔ اقتصادی راہداری کے حوالے سے تحفظات موجود ۔ اتنی گرد کہ وزیر اعظم کو خود آگے آنا پڑا۔ جبکہ مردم شماری کے حوالے سے سندھ اور بلوچستان سے آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مردم شماری میں کسی قوم کا اپنی زمین پر حق اقتدار ہو یا وسائل کا معاملہ ہو ٹھیس نہ پہنچے۔ ایسا صرف ہونا ہی نہیں چاہئے۔ ہوتے ہوئے نظر بھی آنا چاہئے۔ اگر ان معاملات میں عوام کو مطمئن نہ کیا جا سکا ، چاہے اس کی وجوہات امبیڈ کر کی مانند حقیقی ہوں یا شخصی ٹکرائو وجہ قرار پائے، دونوں صورتوں میں قومیتی سوچ جو قوم کی دوری کا باعث ہو گی ضرور پنپے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے تمام خدشات کو رائی کا پہاڑ بننے سے قبل دفنا دیا جائے ورنہ رد عمل میں ڈاکٹر امبیڈ کر کی مانند سیاسی جدوجہد بھی ہو سکتی ہے اور گاموں کی طرح مسلح بھی۔ ویسے ماضی بتاتا ہے کہ اکثریت گاموں ہی بنے گی۔ گاموں بننے سے روکئے۔
تازہ ترین