• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شکر الحمداللہ ایک با ر پھر سعادت با اجازت ہوئی اور دعوت ہوئی،ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کے گھر اور نبی اکرم ﷺ کے در پر حاضری کے لیے عازم سفر ہوئے، اس در پر جہاں جاتے ہوئے ہر انسان، ندامت، شرمندگی اور گناہوں کا بوجھ لیے اپنے رب کی رحمت اور اپنے نبی کی نظر کرم کا طلب گار بن کر دنیا کی اس مقدس ترین جگہ پر حاضر ہونے کے لیے بے چین رہتا ہے، جہاں جانے کے لیے روپے پیسے اور دولت نہیں بلکہ نظر کرم، اجازت اور دعوت درکار ہوتی ہے، جہاں جانے کا پروانہ ملتے ہی گناہ گار سے گناہ گار انسان بھی اپنے آپ کو خوش نصیب تصورکرتا ہے،میں بھی اپنے آپ کوانتہائی خوش قسمت تصور کررہا تھا جسے اپنے پروردگار اور اپنے نبی ﷺ کے در پر حاضری کا پروانہ مل چکا تھا۔

میرے ساتھ جاپان میں مقیم قریبی دوست ملک یونس بھی خوشی سے سرشار اللہ پاک کی بارگاہ میں پیش ہونے کے لیے بے تاب تھے، جاپان کے نریتا ایئرپورٹ سے 12گھنٹے کی فلائٹ سے دو دن کے قیام کیلئےدبئی پہنچے جہاں معروف سماجی و صحافتی شخصیت قدیر احمد صدیقی اور میاں طاہر مشتاق نے خوب فرائض میزبانی انجام دیئے جبکہ دبئی کی معروف سیاسی و سماجی شخصیت اور میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی چوہدری الطاف کی زیر میزبانی میری تیسری کتاب پاکستان سے جاپان تک کی تقریب رونمائی بھی منعقد کی گئی جہاں ان کے کئی رفقائے خاص بھی موجود تھے جن میں چوہدری عبدالغفور اوران کے دوستوں نے جبکہ جاپان سے ملک نور اعوان نے تقریب کو یادگار بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

دو دن گزار کر جدہ کے لیے عازم سفر ہوئے ایک بار پھر اللہ کے گھر پر حاضری کا اشتیاق بڑھ چکا تھا اور وقت تھا کہ گزر نہیں رہا تھا، ڈھائی گھنٹے کی فلائٹ جیسے کئی دنوں پر محیط ہو اور پھر اعلان ہوا کہ جہاز کچھ ہی دیر میں جدہ ایئرپورٹ پر اترنے کو ہے تو ایک بار پھر دل کی دھڑکنیںتیز ہوچکی تھیں، سوچ یہی تھی کہ اس زمین پر قدم رکھنے کو ہیں جس پر آقائے دو جہاں حضرت مصطفیﷺ کے قدم افروز ہوئے ہیں، پھر جہاز نے زمین کو چھوا اور کچھ دیر بعد ہم ایئرپورٹ پر موجود تھے۔

یہاں سعودی عرب کی حکومت کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی کہ جس طرح سعودی حکومت نے بہترین طریقے سے مسافروں کے لیے امیگریشن اور کسٹم سروس شروع کی ہے جس سے ماضی میں گھنٹوں قطار میں لگے رہنے والا سسٹم تقریباً ختم ہوچکا ہے اور اب مسافر بہت جلد امیگریشن مراحل طے کرکے باہر نکل سکتے ہیں، ہم نے بھی 15سے 20منٹوں میں یہ تمام مراحل طے کیے اور باہر کی جانب بڑھے، جہاں ملک منظور حسین اعوان، رانا شوکت، عرفان صدرہ، ملک آفتاب ، رانا زوہیب اور چوہدری اکرم گجر استقبال کیلئے موجود تھے۔

رات کافی ہوچکی تھی لیکن ایسا ممکن نہیں تھا کہ حجاز مقدس میں پہلی رات ہوٹل میں سو کر ضائع کردی جائے لہٰذا ملک یونس اور خاکسار نے فیصلہ یہی کیا کہ آج رات ہی عمرے کی سعادت حاصل کی جائے، لہٰذا ملک منظور حسین اعوان کی جانب سے دیئے گئے عشائیے کے فوراً مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے۔

جدہ سے 85کلومیٹر کے فاصلے پر دنیا کے تمام مسلمانوں کی منزل مکہ مکرمہ موجود ہے جہاں خانہ کعبہ کے دیدار کے لیے ہر مسلمان کی آنکھیں ترستی ہیں اور مجھ سمیت ہمارے قافلے کا ہر فرد اپنے آپ کو دنیا کا خوش نصیب ترین انسان سمجھ رہا تھا جس کو کچھ ہی دیر بعد خانہ کعبہ کا دیدار نصیب ہونے کو تھا۔

مکہ مکرمہ کی حدود میں داخل ہوتے ہی مکہ کلاک ٹاور نظر آنے لگا تھا اور رات دیر ہونے کے باوجود وہاں کی رونق اپنی مثال آپ تھی، فضا میں ایک عجیب سی رونق تھی، نور سے پر نور بادلوں نے حرم کعبہ پر نور کی چادر کچھ اس طرح بچھائی ہوئی تھی کہ دیکھنے والے دیکھتے ہی جائیں۔

عمرے کا یہ میرا پہلا سفر نہیں تھا لیکن اس بار بھی ہر بار کی طرح آنکھیں نم تھیں اور دل ذکر اور خوشی سے جھوم رہا تھا، کچھ ہی دیر بعد ہم مسجد الحرام میں داخل ہوگئے، لوگ جوق در جوق خانہ کعبہ کا طوا ف کررہے تھے، فضائوں میں پرواز کرتی ابابیلیں بہت ہی خوبصورت منظر پیش کررہی تھیں۔

سعودی عرب کی پولیس بھی پوری طرح مستعد نظر آرہی تھی میں نہ جانے کس سوچ میں چلتا چلا جارہا تھا کہ دوستوں نے بتایا کہ اب چند ہی لمحوں میں خانہ کعبہ کا دیدار ہونے کو ہے، لہٰذا جو بھی دعائیں دل میں ہیں ان کو یکجا کرلیا جائے اور جیسے ہی خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑے پورے خلوص دل کے ساتھ تمام دعائیں اللہ تعالیٰ کے حضور گوش گزار کردی جائیں کیونکہ یہ قبولیت کی گھڑی ہے اور پھر یہی ہوا جس کا ڈر تھا خانہ کعبہ کو دیکھتے ہی سب کچھ رک سا گیا، اتنا خوبصورت منظر دیکھنے کے بعد انسان کو سکتہ طاری ہو جاتا ہے، میرے ساتھ بھی یہی ہوا لیکن چند ہی لمحوں میں جذبات پر قابو پایا اور دل میں موجود اپنے لیے، اپنے اہل خانہ کے لیے، جن لوگوں نے دعائوں کی درخواست کی تھی ان کے لیے اور جنھوں نے نہیں کی تھی ان کے لیے بھی، پاکستان کے لیے اورجو لوگ دنیا سے جاچکے ہیں، ان کے لیے خصوصی دعائیں کیں، ابھی دعائوں میں ہی مصروف تھا کہ پیچھے سے رانا شوکت نے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مجھے دنیا میں واپس لے آئے، پھر ہم نے طواف کا آغاز کیا اور خانہ کعبہ کے 6چکر مکمل ہونے کے بعد ساتویں چکر میں حجر اسود کو بوسہ دینے کی نیت کی جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے بھی خصوصی مدد فرمائی اور آسانی سے حجر اسود کا بوسہ لینے میں کامیابی حاصل ہوئی، اس کے بعد مقام ابراہیم پر نوافل ادا کرکے سعی کرنے کا اہتمام کیا۔

ماشاء اللہ سعودی حکام نے بہت ہی منظم طریقے سے لاکھوں مسلمانوں کو حج، عمرے اور عبادات کے لیے شاندار طریقے سے منصوبہ بندی کے ذریعے مسجد کی تیاری پر کام کیا ہے، سعی کے لیے صفا اور مروا کے درمیان 7چکر لگائے،نوافل کی ادائیگی کے بعد عمرہ مکمل کیا اور ایک بار پھر دعاؤں میں مشغول ہوگئے۔

میرے لیے مسجد الحرام انتہائی اہمیت کی حامل مسجد ہے، صرف اس لیے ہی نہیں کہ یہاں خانہ کعبہ واقع ہے بلکہ اس لیے بھی کہ 14سو سال قبل جتنے رقبے پر اس وقت مسجد موجود ہے، تقریباً آدھے سے زیادہ مکہ مکرمہ شہر اتنے ہی احاطے میں واقع تھا، یہاں کون کون سی عظیم ہستیوں نے زندگی گزار ی ہوگی، کیسے کیسے معجزات اس زمین پر رونما ہوئے ہوں گے، کون کون سی جنگیں اس زمین پر لڑی گئی ہوں گی، کس طرح آقائے دو جہاں ﷺ نے خانہ کعبہ میں اپنے ہاتھوں سے بتوں کوپاش پاش کیا ہوگا۔

خانہ کعبہ کے اس مقام کا بوسہ لینے کا بھی موقع ملا جہاں حضرت علیؓ کی پیدائش ہوئی تھی، غرض سوچیں تھیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں اور پھر خانہ کعبہ میں فجر کی اذان کا وقت ہو گیا، اذان کی آواز کانوں میں پڑتے ہی مجھے واپس سوچوں سے حقیقت میں لے آئی جس کے بعد سنتیں ادا کیں اور فرض نماز امام کعبہ کی امامت میں ادا کی۔

دل کو ایک میٹھی سی راحت حاصل ہو رہی تھی، ایک طمانیت کا احساس تھا، ابھی بہت سی زیارتیں کرنا تھیں، پھر عمرے کی ادائیگی کے لیے بھی آنا تھا اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے در پر حاضری کے لیے بھی جانا تھا، اسی دوران میری تیسری کتاب پاکستان سے جاپان تک کی تقریب رونمائی کا اہتما م بھی پاکستان یوتھ کونسل نے کر رکھا ہے، سفر جاری ہے، باقی تفصیلات ان شاء اللہ اگلے کالم میں آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔

 

تازہ ترین