• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تبلیغ کا اعلانیہ حکم: 4 نبوی، 614عیسوی میں اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا’’ (اے محمّد ﷺ) اب آپؐ اپنے نزدیک ترین قرابت داروں کو (عذابِ الٰہی) سے ڈرایئے ‘‘(سورہ شعراء 26)۔ اس آیت کے نزول کے بعد آپؐ نے اپنے خاندان، بنی عبدالمطلب کو ضیافت پر مدعو کیا۔ چچاؤں سمیت45افراد شریک ہوئے۔ اس مجلس میں ابولہب نے مخالفت کرتے ہوئے سخت ترین ناراضی کا اظہار کیا۔ پوری محفل میں صرف ایک تیرہ سالہ کم زور اور آشوبِ چشم میں مبتلا علیؓ نامی بچّے نے قدم قدم پر ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ ابھی محفل برخاست ہونے والی تھی کہ چچا، ابو طالب کی آواز نے مجمعے کا سکوت توڑا ’’اے محمّد(ﷺ)! تم کو تمہارے اللہ نے جس کام کا حکم دیا ہے، تم اسے انجام دو۔ مَیں تمہاری حفاظت اور اعانت کرتا رہوں گا، جب تک میری جان میں جان ہے۔‘‘ابو طالب کی حمایت نے حضورﷺ کے حوصلوں کو بلند کیا اور پھر ایک صبح سویرے آپؐ نے کوہِ صفا کی سب سے اونچی چوٹی پر کھڑے ہو کر قریش کے تمام خاندانوں کا نام لے کر اُنہیں دینِ حق کی دعوتِ عام دے دی۔ یہ دعوت ،سردارانِ مکّہ کے خود ساختہ خدائوں کے خلاف گویا اعلانِ جنگ تھی، چناں چہ اُنہوں نے بھرپور مزاحمت کا فیصلہ کیا اور پھر تضحیک و تحقیر، استہزا و تکذیب، غنڈہ گردی، تہمتوں، بے ہودہ گالیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ دنیا کا کوئی ظلم، کوئی تشدّد ایسا نہ تھا، جو حضورﷺ اور اُن کے جاں نثار رفقاء کے ساتھ روا نہ رکھا گیا ہو۔

ہجرتِ حبشہ:اس گمبھیر صُورتِ حال میں حضور ﷺ نے مسلمانوں کو حبشہ کی جانب ہجرت کی اجازت دے دی۔ چناں چہ رجب5نبوی (615عیسوی) میں حضرت عثمانؓ کی قیادت میں12 مَردوں اور 4خواتین پر مشتمل پہلا قافلہ حبشہ ہجرت کر گیا۔ اس میں آپؐ کی صاحب زادی اور حضرت عثمانؓ کی زوجہ، حضرت رقیہؓ بھی تھیں۔ ہجرت کرنے والا دوسرا گروپ 82مَردوں اور18خواتین پر مشتمل تھا۔ 6نبوی میں حضرت حمزہؓ اور اُن کے تین دن بعد ،حضرت عُمرؓ بن خطاب نے اسلام قبول کیا، جس سے مسلمانوں کو بڑی تقویّت حاصل ہوئی۔ رسول اللہﷺ نے اللہ سے دُعا کی تھی کہ’’ عُمرؓ بن خطاب اور عمرو بن ہشام( یعنی ابو جہل) میں سے کسی ایک کو اسلام کی توفیق عطا فرما دے۔‘‘ حضرت عُمرؓ کے اسلام لانے کے بعد مسلمانوں نے پہلی مرتبہ صحنِ کعبہ میں حضورﷺ کی اقتداء میں باجماعت نماز ادا کی۔

شعبِ ابی طالب میں محصوری: 7 نبوی617عیسوی میں مشرکینِ مکّہ نے بنی ہاشم اور بنی مطلب کے سوشل بائیکاٹ کا فیصلہ کر لیا اور یہ فیصلہ لکھ کر خانۂ کعبہ میں لٹکا دیا گیا۔ لہٰذا، ابو طالب مجبور ہو کر تمام خاندانِ ہاشم کے ساتھ، شعبِ ابی طالب میں پناہ گزین ہو گئے۔ یہ اتنا سخت وقت تھا کہ محصورین نے پتّے کھا کر اور چمڑا چبا کر وقت گزارا۔ محصوری کا یہ انتہائی تکلیف دہ عرصہ تین برسوں پر محیط تھا۔

غم کا سال: شعبِ ابی طالب میں محصوری کے6ماہ بعد، رجب10نبوی میں رسول اللہ ﷺ کے سب سے بڑے حمایتی اور سرپرست، جناب ابو طالب80سال کی عُمر میں انتقال کر گئے۔ ابھی حضورﷺ چچا کا غم بھلا بھی نہ پائے تھے کہ ماہِ رمضان میں حقیقی مددگار اور غم گسار شریکِ حیات، حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ بھی خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ اسی لیے اس سال کو’’ عام الحزن‘‘ یعنی’’ غم کا سال‘‘ کہا گیا۔ ان دو عظیم ہستیوں کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد مشرکین کے ظلم و ستم اپنی انتہا کو پہنچ گئے۔ رسول اللہﷺ اور اُن کے رفقاء کو دی جانے والی ایذا تمام حدوں کو پار کر گئی۔ پتھروں سے لہولہان کرنا، راستے میں گندگی ڈالنا، کانٹے بچھانا، گلے میں چادر کا پھندا ڈال کر گھسیٹنا، سجدے میں سر پر جانور کی اوجھڑی رکھنا عام سی بات تھی۔ گھر میں چھوٹی امّ ِ کلثومؓ اور معصوم فاطمہؓ اکیلی ہوتیں، تو ابولہب کی بیوی، اُمّ ِ جمیل ( جو پڑوسی تھی)، گھر کی دیوار پر چڑھ کر اُنہیں ڈرانے، ستانے میں کوئی کسر نہ چھوڑتی۔ چھوٹی بچیاں سہم جاتیں اور باباﷺ کے آنے تک کمرے میں چُھپی رہتیں۔ ان حالات کی روشنی میں حضورﷺ نے شوال10نبوی میں 50 سالہ بیوہ، حضرت سودہؓ بنتِ زمعہ سے نکاح فرمایا۔

طائف کا سفر: شوال10نبوی میں آنحضرتؐ نے اپنے آزاد کردہ غلام، حضرت زید بن حارثہؓ کے ساتھ طائف کا سفر کیا۔ آپؐ نے یہاں دس دن قیام فرمایا۔ اس دوران طائف والوں نے آپؐ پر جوروظلم کی انتہا کر دی۔ اوباش لڑکے اتنی سنگ باری کرتے کہ جسمِ مبارک لہولہان ہو جاتا۔ یہاں تک کہ اللہ کے حکم سے پہاڑوں کا فرشتہ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی ’’یارسول اللہ ﷺ! اگر آپ ؐ حکم دیں، تو اہلِ طائف کو دونوں پہاڑوں کے درمیان پیس ڈالوں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’نہیں مجھے امید ہے کہ ان کی پشت سے ایسی نسل نکلے گی، جو ایک اللہ کو مانے گی‘‘(بخاری)۔ طائف سے واپسی کے سفر پر ’’نخلہ‘‘ میں نمازِ فجر میں جنّات کے ایک گروہ نے آپ ؐ سے قرآنِ پاک کی تلاوت سُنی اور مسلمان ہو گئے۔شوال11نبوی میں اللہ کے حکم سے آپؐ کا حضرت عائشہؓ سے نکاح ہوا، لیکن رخصتی ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ہوئی۔

واقعۂ معراج: نبی کریمﷺ کی مکّی زندگی کے آخری دَور میں معراج کا واقعہ پیش آیا۔ ممکنہ طور پر11یا12نبوی میں حضرت جبرائیلؑ نے ایک مرتبہ پھر آپؐ کے قلبِ اطہر کو آبِ زَم زَم سے دھویا، پھر برّاق پر بٹھا کر مسجدِالحرام سے بیت المقدس لے گئے۔ وہاں آپؐ نے انبیاء کرامؑ کی امامت فرماتے ہوئے نماز پڑھائی۔ پھر اسی رات آپؐ کو بیت المقدس سے آسمانوں پر لے گئے، جہاں آپؐ کو ساتوں آسمانوں کی سیر کروائی گئی اور پھر اللہ بزرگ و برتر کے دربار میں پہنچایا گیا۔ یہیں پنج گانہ نماز فرض ہوئی۔ اسی رات آپؐ کو واپس مسجدِ الحرام پہنچا دیا گیا۔

بیعتِ عقبہ: 11 نبوی میں حج کے موقعے پر یثرب کے ایک قبیلے، بنی خزرج کے چھے افراد آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اگلے سال12نبوی میں12افراد نے اسلام قبول کیا، جن میں سے پانچ پچھلے سال آ چکے تھے، 7نئے تھے۔ یہ بیعت عقبہ اُولیٰ کہلائی۔ حضورﷺ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو معلّم بنا کر یثرب بھیجا، جنہوں نے بڑی تن دہی سے دعوتِ حق کے کام کو یثرب میں پھیلایا اور دیکھتے ہی دیکھتے40افراد مسلمان ہو گئے۔ حضورﷺ کی اجازت سے پہلی بار، بنی بیاضہ میں مسلمانوں نے حضرت اسعد بن زرارہؓ کی امامت میں نمازِ جمعہ ادا کی۔

مدینہ منورہ آمد: جمعہ کی سہ پہر آپؐ اس شان سے مدینے میں داخل ہوئے کہ پورا مدینہ آپؐ کے استقبال کے لیے پُرجوش تھا۔ انصار کی بچّیاں خوشی کے نغمے گا رہی تھیں۔ آنحضرتؐ نے حضرت ابو ایّوب انصاریؓ کے گھر قیام فرمایا۔ مدینہ آمد کے فوراً بعد آپؐ نے مسجدِ نبویؐ کی بنیاد رکھی اور صحابہؓ کے ساتھ خود بھی بڑھ چڑھ کر اس کی تعمیر میں حصّہ لیا۔ اس کے ساتھ ہی درس گاہ ’’صُفّہ‘‘ کا چبوترا بھی تعمیر کروایا تاکہ تعلیم و تربیت کا سلسلہ فوری شروع کیا جا سکے۔ مسجد سے متصل ہی اپنی ازواجِ مطہراتؓ کے لیے حجرے بنوائے۔ اہلِ خانہ کو مکّے سے مدینے بلوایا اور آپؐ خود بھی حضرت ایّوبؓ کے گھر میں7ماہ قیام کے بعد اپنے حجروں میں منتقل ہو گئے۔ مدینہ تشریف لانے کے بعد آپؐ نے حضرت انس بن مالکؓ کے مکان میں مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات یعنی بھائی چارہ کروایا۔نیز، اس کے ساتھ ہی مدینے کے یہود کے ساتھ بھی ایک معاہدہ کیا۔

تحویلِ قبلہ: شعبان دو ہجری میں اللہ نے اپنے محبوب نبیؐ کی خواہش کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے نمازِ ظہر کے دَوران تحویلِ قبلہ کا حکم نازل فرما دیا۔ حضرت جبرائیلؑ وحی لے کر حاضر ہو گئے کہ’’تم اپنا چہرہ مسجدِ الحرام کی طرف پھیر دو اور جہاں کہیں رہو، اس کی طرف منہ پھیر کے(نماز پڑھ) لو‘‘(البقرہ)۔

معرکۂ بدر: رمضان2ہجری میں مدینہ منورہ سے80میل دُور، بدر کے مقام پر حق و باطل کا پہلا معرکہ ہوا، جس میں313مجاہدین کو 3گُنا بڑے مشرکین کے لشکر کے مقابلے میں فتح نصیب ہوئی۔ ابوجہل، 2کم سِن بچّوں کے ہاتھوں جہنّم رسید ہوا۔ دو ہجری ہی میں رمضان کے روزے اور زکوٰۃ فرض ہوئی۔ اسی برس پہلی مرتبہ حضور اکرمﷺ کی امامت میں عیدالفطر کی نماز عیدگاہ میں ادا کی گئی۔ حضرت فاطمہؓ و علیؓ کا نکاح بھی اسی سال غزوۂ بدر کے بعد ہوا۔

غزوۂ اُحد: 7شوال، 3ہجری کو اُحد پہاڑ کے دامن میں غزوۂ احد ہوا۔ جبلِ رماۃ پر متعیّن چند افراد کی غلطی کی وجہ سے اس جنگ میں مسلمانوں کو شدید جانی نقصان ہوا۔ حضورﷺ کے چچا، حضرت حمزہؓ سمیت70سے زاید صحابہؓ شہید ہوئے۔ خود نبی کریمﷺ کا دندان شریف شہید ہوا اور چہرے پر زخم آئے۔ ماہِ رمضان میں حضرت فاطمہؓ کے ہاں حضرت امام حسنؓ کی ولادت ہوئی۔ آنحضرتؐ نے حضرت عُمر فاروقؓ کی صاحب زادی، حضرت حفصہؓ سے نکاح فرمایا۔ حضرت عثمان غنیؓ کا نکاح حضورﷺ کی صاحب زادی، حضرت اُمّ ِ کلثومؓ سے ہوا اور وراثت کا قانون بھی اسی سال نازل ہوا۔

4ہجری کے اہم واقعات: چار ہجری میں غزوہ بنی نضیر اور غزوہ بدر ثانی ہوا۔ اسی سال حضرت زینب بنتِ خزیمہؓ سے آپؐ کا نکاح ہوا، لیکن چند ماہ بعد ہی اُن کا انتقال ہو گیا۔ اسی سال شوال میں آنحضرتؐ نے اُمّ ِ سلمیٰؓ سے نکاح فرمایا۔ شعبان میں حضرت فاطمہؓ کے ہاں حضرت امام حسینؓ کی ولادت ہوئی۔ شراب کی حرمت کا حکم بھی اسی سال نازل ہوا۔

غزوۂ خندق: شعبان5ہجری میں غزوۂ بنی مصطلق ہوا۔ اس لڑائی میں جو لوگ گرفتار ہوئے، اُن میں یہودی سردار، حارث بن ابی ضرار کی بیٹی، جویریہ بھی شامل تھیں۔ آنحضرتؐ نے حضرت جویریہؓ کی مرضی کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے اُن سے نکاح فرمایا، کیوں کہ اُنہوں نے اپنے والد، حارث کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا تھا اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں رہنا پسند کیا تھا۔ غزوۂ بنی مصطلق سے واپسی پر واقعۂ افک پیش آیا، جس میں اللہ نے حضرت عائشہؓ کے حق میں وحی نازل فرمائی۔ شوال5ہجری میں غزوۂ خندق ہوا۔ حضرت سلمان فارسیؓ کی تجویز پر حضورؐ نے مدینے کی حفاظت کے لیے خندق کھدوائی۔ مشرکین نے ایک ماہ تک مسلمانوں کا محاصرہ جاری رکھا۔ اللہ کی جانب سے ایک تیز آندھی نے مشرکین کے حوصلوں اور ارادوں کو چکناچُور کردیا اور وہ خوف زَدہ ہو کر رات کی تاریکی میں فرار ہو گئے۔ 5ہجری میں پردے کا حکم نازل ہوا۔ پانی نہ ملنے کی صُورت میں تیمّم کی اجازت ملی۔ آنحضرتؐ کا حضرت زینبؓ سے نکاح ہوا۔

6ہجری۔ صلح حدیبیہ: ذیقعدہ 6ہجری میں صلح حدیبیہ اور بیعتِ رضوان ہوئی، جسے اللہ نے’’ فتحِ مبین‘‘ قرار دیا۔ اسی سال نبی کریمﷺ نے بین الاقوامی سطح پر دعوتِ اسلام کے لیے حکم رانوں کو خطوط لکھے۔ سریہ وادی القریٰ، سریہ دومۃ الجندل، سریہ عبداللہ بن رواحہ، سریہ محمّد بن مسلمہ انصاری، سریہ عیص وقوع پذیر ہوئے۔

7ہجری۔ فتحِ خیبر: 7 ہجری میں خیبر فتح ہوا۔ خیبر، مدینہ منورہ کے شمال میں150کلو میٹر کے فاصلے پر یہودیوں کا مضبوط فوجی شہر تھا اور اس کے قلعے ناقابلِ تسخیر تصوّر کیے جاتے تھے۔ یہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا ایک بڑا مرکز تھا، سو، صلح حدیبیہ کے بعد محرّم7ہجری میں آپؐ، صحابہؓ کے ساتھ خیبر فتح کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔ خیبر کی فتح کا سہرا، سیّدنا علی المرتضیٰؓ کے سر رہا۔ اس جنگ کے قیدیوں میں یہودیوں کے سردار، حیی بن اخطب کی صاحب زادی، صفیہؓ بھی تھیں، جن سے آپؐ نے نکاح فرمایا، یوں اُنھیں اُمّ المومنین ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا۔ اسی برس حبشہ میں مقیم مہاجرین مدینہ منورہ آگئے۔ معاہدۂ صلح کے بعد7ہجری حضرت عُمر ؓبن العاص، حضرت خالدؓ بن ولید، حضرت عثمانؓ بن طلحہ مسجد نبویؐ میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا۔ اس موقعے پر حضور اکرمﷺ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ’’مکّہ نے اپنے جگر گوشوں کو ہمارے حوالے کر دیا ہے۔‘‘ معاہدۂ حدیبیہ کے تحت وہ تمام صحابہؓ، جو اس معاہدے میں موجود تھے، اُنہوں نے حضورﷺ کی اقتداء میں’’ عمرۃ القضاء‘‘ ادا کیا۔

غزوۂ موتہ، فتحِ مکّہ:8 ہجری میں غزوۂ موتہ ہوا۔ اس جنگ میں قیصرِ روم ایک لاکھ فوج کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ آور ہوا۔ سب سے پہلے حضرت زیدؓ شہید ہوئے،اُن کے بعد حضرت جعفرؓ نے عَلم سنبھالا، وہ بھی شہید ہو گئے، پھر حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے عَلم اٹھایا، وہ بھی شہید ہو گئے۔ اب حضرت خالدؓ سردار بنے اور کام یابی نے اُن کے قدم چومے۔ ایک لاکھ کے مقابلے میں3ہزار مسلمان سُرخ رُو ہوئے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ آٹھ تلواریں حضرت خالدؓ بن ولید کے ہاتھوں سے ٹوٹیں۔ رمضان8ہجری میں اللہ نے فتحِ مکّہ نصیب فرمائی۔ شوال8ہجری میں غزوۂ حنین و اوطاس میں مسلمانوں کو کام یابی ہوئی۔ پھر آنحضرتؐ نے طائف کا رُخ کیا۔ اسی سال حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے آنحضرتؐ کے صاحب زادے، حضرت ابراہیم پیدا ہوئے۔ آپؐ کو اُن سے بڑی محبّت تھی، لیکن ڈیڑھ سال زندہ رہ کر اللہ کو پیارے ہو گئے۔ رسول اللہﷺ کی صاحب زادی، حضرت زینبؓ کا بھی اسی سال انتقال ہوا۔

واقعہ ایلاء، غزوۂ تبوک: سن9ہجری میں واقعہ ایلاء پیش آیا، جس کی تفصیل قرآن پاک کی سورہ تحریم میں موجود ہے۔ رجب9ہجری میں غزوۂ تبوک ہوا۔ جنگِ موتہ کے بعد رومی سلطنت نے عرب پر حملے کا منصوبہ بنایا، جس کی سرکوبی کے لیے آنحضرتؐ 30ہزار مجاہدین کے ساتھ مدینے سے نکلے۔ تبوک پہنچ کر آنحضرتؐ نے20دن تک قیام فرمایا، لیکن رومیوں کو مقابلے کی ہمّت نہ ہوئی، چناں چہ آپؐ واپس آگئے۔ اس کام یابی پر مدینے کے لوگ آپؐ کے استقبال کے لیے باہر نکل آئے۔ حضورﷺ نے عاملینِ زکوٰۃ کا تقرّر فرمایا۔ حرمتِ سود اور جزیہ لینے کا حکم بھی نازل ہوا۔ غزوۂ تبوک سے واپسی کے بعدذی قعدہ یا ذی الحجہ9ہجری میں نبی کریمﷺ نے300مسلمانوں کا ایک قافلہ مدینہ منورہ سے حج کے لیے مکّہ مکرّمہ روانہ فرمایا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کو امیرِ حج مقرّر فرمایا۔

حجۃ الوداع : 10 ہجری میں مختلف علاقوں سے لوگوں نے قافلوں کی صورت میں آ کر اسلام قبول کرنا شروع کر دیا۔ 10ہجری کا رمضان، حضور نبی کریمﷺ کا آخری رمضان تھا، چناں چہ آپؐ نے اس رمضان میں 20روزہ اعتکاف کیا۔26ذی قعد 10ہجری کو آنحضرتؐ حجۃ الوداع کے لیے مدینے سے روانہ ہوئے اور 5ذی الحجہ کو مکّے میں داخل ہوئے۔ 8ذی الحجہ بروز جمعرات منیٰ روانہ ہوئے اور اگلے روز طلوعِ آفتاب کے بعد منیٰ سے عرفہ روانگی ہوئی، جہاں قصویٰ نامی اونٹنی پر سوار ہو کر خطبۂ حج دیا۔ 10ذی الحجہ کو منیٰ سے مکّہ روانہ ہوئے اور پھر 13اور14ذی الحجہ کی درمیانی شب مدینے کے لیے روانہ ہو گئے۔

وصال شریف: 11ہجری وسط محرّم میں یمن کے وفد، نخع نے اسلام قبول کیا۔یہ آخری وفد تھا، جو حضورﷺ کی زندگی میں آیا۔ 26صفر11ہجری کو اسامہ بن زیدؓ کو ایک لشکر کے ساتھ روم جانے کا حکم دیا اور یہ آخری فوجی مہم تھی، جس کے لیے حضورﷺ نے حکم دیا۔ 29صفر11ہجری کو مرضِ وفات کا آغاز ہوا۔ مرض کی شدّت کے سبب، حضرت عائشہؓ کے حجرے میں وفات تک7دن قیام فرمایا۔ وفات سے 5 روز قبل، بروز جمعرات ،نمازِ ظہر باجماعت پڑھائی اور آخری خطاب فرمایا۔ 12ربیع الاوّل بروز پیر 11ہجری بمطابق8جون632ء صبح دن چڑھے اپنی صاحب زادی، حضرت فاطمہؓ کو بلوایا، اُن سے گفتگو کی، حضرت امام حسنؓ و امام حسینؓ کو بلوا کر چوما، ازواجِ مطہراتؓ کو بلایا، اُنہیں وعظ و نصیحت فرمائی۔ مسواک کی، جو حضرت عائشہؓ نے چبا کر دی تھی۔ پھر ہاتھ یا انگلی چھت کی طرف بلند فرمائی۔ نگاہ چھت کی جانب تھیں اور دونوں ہونٹوں پر کچھ حرکت ہوئی۔ حضرت عائشہؓ نے کان لگایا، تو آپ ؐ فرما رہے تھے(ترجمہ)’’ان انبیاء، صدّیقین، شہداء اور صالحین کے ہم راہ، جنہیں تو نے انعام سے نوازا، اے اللہ مجھے بخش دے، مجھ پر رحم کر اور مجھے رفیقِ اعلیٰ میں پہنچا دے۔ اے اللہ رفیق اعلیٰ‘‘ (صحیح بخاری)۔ آخری فقرہ تین بار دہرایا اور اسی وقت ہاتھ جھک گئے اور آپ ؐرفیق اعلیٰ سے جا ملے۔ ’’اس وقت نبی کریمﷺ کی عُمر مبارک تریسٹھ سال، چار دن تھی‘‘ (رحیق المختوم، ص۔630)۔

وہ دانائے سبل، ختم الرّسل، مولائے کُل جس نے

غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا!

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر

وہی قرآن، وہی فرقان، وہی یٰسین، وہی طحہٰ

(علامہ اقبالؒ)

تازہ ترین