• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا ایک اسٹیج ہے جس پر ہر شخص اپنا اپنا کردار ادا کرکے چلا جاتا ہے ، شیکسپیر نے کہا، اور ایک آدمی اپنی زندگی میں کئی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ کردار کبھی مختصر ہوتا ہے کبھی طویل ۔ زندگی میں کئی کردار ملے، ملتے رہے۔ ابتدا میں مختصر تھے، دو سال، تین سال یا چھ آٹھ ماہ۔ پھر ایک طویل مدت کا کردار ملا، تین عشروں سے بھی زیادہ۔ ہر کردار کی طرح یہ بھی بس ایک ایکسٹرا جیسا کردار تھا۔ گو طویل تھا۔ بہت سے ایکسٹرا ایسے بھی تو ہوتے ہیں جو ڈرامے کی ابتدا سے اسٹیج پر آتے ہیں اور بہت دیر تک اپنا کردار، معمولی ہی سہی،ادا کرتے رہتے ہیں۔ وہ ہیرو نہیں ہوتے، ولن بھی نہیں۔ہیرو اور ولن تو دوسرے ہوتے ہیں۔ پھول یہ چنتے ہیں، سہرا کسی اور کے سر بندھتا ہے۔ ایکسٹرا کوئی بھی شکایت کئے بغیر اپنا کردار ادا کرتا رہتا ہے اور پھر چلا جاتا ہے۔ کبھی چند ماہ بعد ،کبھی چند عشرے بعد۔ ایک اسٹیج سے دوسرے اسٹیج پر، یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے، آخری مرحلے تک، حتمی مرحلے تک۔ پانچ دہائیاں مختلف اسٹیجوں پر گزریں، چھٹی دہائی ایک نئے اسٹیج پر۔ کردار کبھی کچھ رہا کبھی کچھ۔ کبھی ناظر کبھی منظر۔ ان پانچ عشروں میں بہت کچھ دیکھا، بہت کچھ بھگتا۔
ایوب خان کا مارشل لا بھی یاد ہے، جنگ ان دنوں حیدرآباد میں صبح نو ساڑھے نو بجے آتا تھا، یا شاید اس دن سے تاخیر سے آیا ہو۔ بڑی خبریں اپنے قارئین تک پہنچانے کے لئے کبھی کبھی اخبار دیر سے شائع کرنا پڑتا ہے۔ یہ اسٹیج پر مسلسل کردار ادا کرنے سے ذرا پہلے کی بات ہے۔ مارشل لا اور کرفیو میں فرق پتہ نہیں تھا۔ عمر بھی کم تھی اور مارشل لا بھی پہلی بار لگا تھا۔ کسے پتہ تھا یہ پہلا مارشل لا ضرور ہے مگر آخری نہیں، بلکہ اس ملک پر نازل ہونے والے بہت سے مارشل لاؤں کی ابتدا ہے، عذابوں کے سلسلہ کی پہلی کڑی۔ اس وقت، عدم واقفیت کے اس دور میں، خبر کی سرخی پڑھنے کے بعد جو پہلا جملہ منہ سے نکلا، اب تک یاد ہے، ”اب زندگی بہت مشکل ہوجائے گی“۔ خیال تھا کرفیو میں گھر سے باہر نہیں نکل سکتے۔مارشل لا بھی شاید کرفیو ہی کی طرح کا کوئی قانون ہو۔ بعد میں جب ایک کے بعد ایک مارشل لا لگائے گئے تو اندازہ ہوا یہ تو کرفیو سے کہیں زیادہ ظالمانہ قانون ہے۔ کرفیو میں تو صرف گھر سے نکلنے پر پابندی ہوتی ہے، مارشل لا میں تو پابندیاں ہی پابندیاں ہوتی ہیں۔ سیاست پر پابندی، تقریر پر پابندی ، تحریر پر پابندی، ہر طرح کے اظہار پر پابندی، پابندی ہی پابندی۔ کرفیو کی زندگی کم مشکل،مارشل لا کی زندگی عذاب، اور عذاب بھی ایسا کہ اس کے اثرات آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنے پڑتے ہیں۔ ایوب خانی مارشل لاکا اثر ذاتی زندگی پر بھی پڑا۔ والد صاحب حوالہٴ زنداں ہوئے، گھر کی ذمہ داری ماں اور ایک چودہ سالہ بچے پر آن پڑی۔ زندگی کے اسٹیج پر یہ پہلا کردار تھا، عام سا۔
مارشل لا عام زندگیوں کو بھی متاثر کرتے ہیں؟ تعلیم چھوڑنی پڑی، گھر چلانے میں ماں کا ہاتھ بٹانا پڑا۔ یہ ذاتی تجربہ دوسرے مارشل لاء میں اجتماعی المیہ کی شکل میں سامنے آیا۔ اس وقت زندگی کے اسٹیج پر ایک عام سا کردار ملا تھا۔ ستر کے انتخابات قریب سے دیکھے، ان کے نتائج کی بے حرمتی ہوتے دیکھی، اور پھر 1971کی جنگ ، جس میں بھارت اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے کود پڑا تھا۔ 25 مارچ 1971 کی وہ شام بھی یاد ہے جب مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی شروع کی گئی۔ کسی نے کہا خدا کا شکر ہے پاکستان بچالیا گیا۔ ملک بچایا نہیں گیا تھا، اسے توڑنے کی سازش مکمل کر لی گئی تھی۔ باقی کئی ماہ شدید تکلیف میں گذرے۔ ملک کے دوسرے حصہ میں کیا ہو رہا تھا، کسی کو پتہ نہیں تھا۔ پتہ چلتا بھی کیسے، خبروں کی اشاعت پر پابندی تھی۔ پی پی آئی میں غیر ملکی خبررساں ایجنسیاں سارا دن مشرقی پاکستان کی خبریں بھیجتی رہتی تھیں۔ ان میں حقائق بھی ہوتے اور افسانہ طرازی بھی۔ مگر وہ اخبارات کو بھیجی نہیں جاتی تھیں ۔ پھینک دی جاتیں، یا ایک دراز میں دفن کر دی جاتیں۔ صرف سرکاری خبریں شائع کی جا سکتی تھیں۔ جو خبریں غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے ملتیں ان میں بہت کچھ ہوتا، ظلم و ستم کی داستانیں، مکتی با ہنی، البدر اور الشمس کے قصے، پاکستانی فوج کے مظالم کی تفصیلات، کچھ درست، کچھ من گھڑت۔ سب کچھ جو وہاں ہو رہا تھا، اور نہیں ہو رہا تھا، صبح سے شام تک خبروں کی شکل میں ملتا ۔کتنا سچ تھا کتنا جھوٹ یہ تو بعد میں معلوم ہوا جب حقائق سامنے آئے ۔ اس وقت تو صرف دکھ تھا اور رونا۔ اپنوں کے ہاتھوں اپنوں پر ظلم ہو رہا تھا۔ المیہ یہ تھا کہ کوئی سننے والا نہیں تھا۔ حقائق کم لوگوں کو پتہ تھے، ان کے سامنے جب ظلم و ستم کی داستانیں بیان کی جاتیں تو وہ مذاق اڑاتے، پاگل کہتے۔ کوئی سننے والا نہ تھا۔ ماں کو سیاست سے دلچسپی نہ تھی، وہ بیٹے کو غمزدہ دیکھ کر باپ سے تشویش کا اظہار کرتیں۔ باپ سب کچھ جانتے تھے، سمجھتے تھے، دلاسا دیتے۔ مگر یہ دلاسے دکھ کا مداوا نہیں تھے۔ جو ہونے والا تھا اس کا اندازہ انہیں تھا نہ مجھے ۔ ہو بھی نہیں سکتا تھا، سب ہی حقائق سے لا علم تھے۔
16دسمبر 1971 کی منحوس شام ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے ٹیلی پرنٹرپر خبر ٓئی۔ اس کے رپورٹر نے اس المیے کو مزید ڈرامائی بنانے کے لئے خبر کی ڈیٹ لائن ” بھارتی میجر کی جیپ کا بونٹ“ دی۔ اس جیپ میں بیٹھ کر وہ صحافی اور بھارتی فوج کا کوئی میجر مشرقی پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ تو تھا، مگر یہ سب کچھ اتنا بھیانک، اتنا اندوہناک ہو گا، یہ اندازہ نہیں تھا۔ ملک کے دو حصے ہو گئے، ملک ٹوٹ گیا۔ وہ رات بہت بھاری گزری۔ پی پی آئی کے ساتھی روح الامین روتے روتے بے ہوش ہوگئے، ان کا تعلق مشرقی پاکستان سے ہے۔ روح الامین کے ساتھ ساری رات سڑکوں پر ننگے پاوٴں پھرتے رہے۔ آسمان سرخ نظر آرہا تھا۔ یا رو رو کے آنکھیں سرخ ہوگئیں تھیں اور سرخ دیکھ رہی تھیں۔ کیا کوئی بڑا حادثہ ہوگیا تھا، کوئی سانحہ گزرگیا تھاقوم پر؟ اگلے دن اکثر اخبارات میں صرف ایک جملہ پر مشتمل خبر چھپ سکی ، سنگل کالم میں، یا زیادہ سے زیادہ ڈبل کالم : ” ایک معاہدے کے تحت بھارتی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل ہوگئیں“ ۔ ہزاروں سال لڑنے کے بے معنی دعووں کو نمایاں جگہ ملی، شہ سرخیوں میں۔ یہ سانحہ آج بھی ذہن میں تازہ ہے، یہ دکھ پرانا نہیں ہوتا، ختم تو ہوہی نہیں سکتا۔
آنے والے دن مختلف کرداروں میں دیکھے۔ واقعات سامنے سے گزرے۔کسی اسٹیج پر چند سال، کسی پر اس سے کم۔ کبھی کسی کوپسند نہیں آئے کبھی کوئی پسند نہیں آیا۔ بھٹو کا زمانہ، ضیاء الحق کا مارشل لا، بے نظیربھٹو اور نوازشریف کے ادوار اور پرویز مشرف کا حکومت پر قبضہ۔ کراچی کے ہوائی اڈے پر ایک برطرف فوجی سربراہ کا انٹرویو کرنے گئے تھے، وہاں منتخب حکومت پر قبضہ ہو رہا تھا۔ مشرف نے مارشل لا نہیں لگایا تھا، بس حکومت پر قبضہ کر لیا تھا، بندوق کے زور پر۔ یہ غیر قانونی قبضہ کئی سال جاری رہا۔ بہت سے واقعات قریب سے دیکھے۔عینی شاہد رہے۔ بھٹو کی پھانسی کے بارے میں خاصی پہلے ملنے والی خبر ایک ایڈیٹر نے ضیاء الحق کی باتوں میں آکر نظر انداز کردی۔ پھر وہ دل سے اتر گئے۔ ضیاء الحق کی موت کی خبر بہت پہلے ہمیں ملی۔ سار ی کوشش کے باوجود شام کے اخبار کا ضمیمہ نہیں نکل سکا، ایڈیٹر بے نظیر بھٹو کو مبارکباد دینے چلے گئے تھے۔ ضمیمہ نکالنے کے لئے ایڈیٹر کی اجازت ضروری تھی۔ ایڈیٹوریل خود مختاری کبھی کبھی تکلیف دہ ہو جاتی ہے۔
پچاس برسوں میں بہت کچھ نظر سے گزرا، کچھ یاد رہا اور کچھ بھول گئے۔ بہت سے معاملات اور واقعات، المیہ اور طربیہ، زندگی کے اسٹیج پر مختلف کردار ادا کرتے گذرے ، خاص طور پر طویل ترین کردار کے زمانے میں۔ تین دہایئوں پر مشتمل اس دور میں بہت سے اتار چڑھاوٴ آئے ۔ بہت لاڈ پیار ہوا جو ملازمتوں میں کم ہی میسر آتا ہے۔ حمید ہارون نے ہمیشہ شفقت برتی، ہر دکھ تکلیف بانٹی، ضد اور کبھی کبھی ہٹ دھرمی بھی برداشت کی ، اور متعدد بار استعفیٰ واپس کئے۔ پھر یہ کرد ار بھی ختم ہوا۔ مگر ابھی اسٹیج بھی ہے اور کردار ادا کرنے کا وقت بھی۔ وقت کتنا ہے، کسے پتہ۔ جتنابھی ہے اس دوران کوئی نہ کوئی کردار تو ادا کرنا ہے، اسے نباہنا ہے۔ باتیں ہوتی رہیں گی۔ ان میں بھولی بسری یادیں بھی ہوں گی ، جگ بیتی اور آپ بیتی بھی۔ جوبیتی ہے۔ بیت رہی ہے سب کا تذکرہ ہوتا رہے گا۔
تازہ ترین