• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گیلپ سروے کے مطابق 73 فیصد پاکستانی خاندانی منصوبہ بندی کے تصور سے متفق ہیں مانع حمل طریقوں کا رواج ہونے کے باعث رویئے تبدیل ہو رہے ہیں۔
کاکے کاکیوں کی ناکہ بندی درست نہیں البتہ ابتدائی مرحلے پر ہی اگر مانع حمل طریقے اختیار کر لئے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ جب بچہ تشکیل پا جائے تو پھر ابارشن قتلِ نفس ہے، جس کی اخلاقی و دینی حوالے سے ممانعت ہے، عہد نبوی (ﷺ) میں بھی ”عزل“ کی اجازت دے دی گئی تھی کیونکہ وہ حمل گرانے کے مترادف نہیں اور یہ Contra Captives استعمال کرنا عزل ہی کی محفوظ شکل ہے، اس لئے اس کے جواز پر علماء دین کے فتوے بھی آ چکے ہیں، آبادی جتنی کم ہو گی افراد کی جسمانی و ذہنی کارکردگی بہتر اور معاشی حالت بگڑنے نہیں پائے گی، لیکن آبادی کو اپنے وسائل کے مطابق رکھنے کے لئے شرح خواندگی اور تعلیمی اداروں میں اس سے آگاہی فراہم کرنا ضروری ہے، یہ تعلیم اور جدید علوم سے ناواقفیت ہی کا نتیجہ ہے کہ کاکے قطار اندر قطار آ رہے ہیں، روحیں ماں کے شکم میں بچہ بچی ڈھونڈتی ہیں، اگر بچہ سرے سے موجود ہی نہ ہو گا تو لوٹ جائیں گی، انسان کو تسخیر کی صلاحیت عطا کی گئی ہے، وہ موت کے سوا ہر چیز کو روک سکتا ہے، مگر افسوس کہ اپنے نفس کو نہیں قابو میں لاتا، حالانکہ اسے بھی مسخر کرنے کی قوت اس میں موجود ہے، ایک خواجہ سرا کو شادی اور بچہ پیدا کرنے کا بڑا کریز تھا، کسی نے اسے کہا کہ” ویاگرا“ کھانے سے تیری خواہش پوری ہو سکتی ہے، اس نے فوراً ویاگرا کھا لی، مگر اندر سے آواز آئی سوری آپ کے ہاں یہ سہولت موجود نہیں۔
####
لاہور ہائیکورٹ نے کہا ہے: عوام محسوس کریں تو صدر کا مواخذہ بھی ہو سکتا ہے، کسی کو نااہل قرار دینے کیلئے نہیں بیٹھے ہوئے،
عوام کے حواس خمسہ تو 65 برسوں سے جاری جبر مسلسل اور محرومیوں کی سرخ آندھی کے باعث اب کام ہی نہیں کرتے، اگر عدلیہ کے حواس بجا ہیں تو وہ خود ہی محسوس کر لے اور عدل کی عملداری میں کسی کو استثناء نہ دے، کہ استثناء ہی کے بطن سے ظلم، کرپشن اور دہشت گردی پیداہوتی ہے، اور اب تو عوام کی یہ حالت ہو چکی ہے کہ
رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
ہر روز حکمرانوں کی جانب سے ایک نیا زہر آلود تیر عوام کے جگر کے پار ہوتا ہے، عوام بہت بے حس سہی لیکن صدر کے مواخذے کا سن کر ان کی قوت حس جاگ اٹھی ہے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عطاء محمد بندیال عوام کے دل کی آواز کو محسوس کریں اور کارخیر میں تاخیر نہ کریں، اس طرح مواخذے کا دائرہ تمام حکمرانوں تک پھیلانے میں بھی پہلی رکاوٹ دور ہو جائے گی، نااہل تو نااہل ہوتا ہے اسے قرار دینے کی ضرورت ہی نہیں، البتہ بے قرار کر دیا جائے تو شاید دل کی بے قراری کو قرار آ جائے، عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں، ان کو پیپلز پارٹی ہی نے یہ خطاب دیا اور خود طاقت کا سرچشمہ بن گئی اور عوام کا چشمہ ہی اتار لیا، اگر ایک باری اور دی جائے تو یہ ان کے کپڑے بھی اتارے، اگر کسی کا مور اس کا ہیرا نگل جائے تو ظاہر ہے وہ اس کا ”مواخذہ“ تو کرے گا ورنہ ہیرے جیسی قیمتی متاع مور کے پیٹ ہی میں رہ جائے گی یہ جو 7 ارب کی کرپشن ہوئی ہے یہی قوم کے ہیرے ہیں جو ان کے مور کھا گئے ہیں۔
####
وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا کینئرڈ کالج کی طالبات نے پُر جوش استقبال کیا، اور انہوں نے ترنم کے ساتھ” چھولو آسمان، تم ہو پاکستان“ گایا، طالبات کے ساتھ کرکٹ کھیلی اور تصاویر بنوائیں۔
لگتا ہے ”شاباش شریف“ اتنے تھک گئے ہیں کہ انہوں نے کینئرڈ کالج برائے طالبات کا دورہ کیا، کیونکہ انہوں نے ذوق کا یہ شعر پڑھ لیا ہو گا کہ
گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن
دنیا کو ہے اے ذوق زیب اختلاف سے
اس لئے انہوں نے طے کر لیا ہو گا کہ چلتے ہو تو چمن کو چلئے، کہتے ہیں کہ بہاراں ہے ترنم سے ترانہ بھی گایا، کیونکہ ان کے گلے میں کھرج زیادہ اور کومل کم ہے، اگر طالبات نے آسمان کو چھو لیا تو بے چارے طلبہ کو چھونے کے لئے کیا بچے گا، بہرحال وزیر اعلیٰ باذوق، اور انتھک ہیں پھر بھی جب تھک جائیں تو گلہائے رنگا رنگ کا نظارہ کر لیتے ہیں، کچھ گا لیتے ہیں، اور صنف نازک کے ساتھ تھوڑی سی کرکٹ بھی کھیل لیتے ہیں، پانچ برس کی ”آنیوں جانیوں“ کے بعد اتنا استحقاق تو انہیں بہرصورت حاصل ہے، کہ وہ اس طرح کے مرنجاں مرنج دورے بھی کریں، اس سے جہاں تعلیم کے شعبے کو تقویت ملے گی خود ان کی اپنی کارکردگی میں بھی خوبصورت اضافہ ہو گا، پنجاب میں کتنے ایسے نئے سکول غریبوں کے علاقوں میں کھولے گئے ہیں جہاں ”الف کا نام کوکو“ رائج ہے، اور ان نئے کھولے جانے والے سکولوں کے اعدادوشمار بھی سامنے لائے جائیں آخر اتنی بھی خود نمائی و شہرت سے نفرت کیوں؟ کنیئرڈ کالج تو طبقہٴ امراء کی شہزادیوں کا کالج ہے، کسی غریب زادیوں کے کالج کا بھی پھیرا لگا لیں، جہاں پہنچنے کے لئے بچیوں کے پاس چنگ چی کا کرایہ بھی نہیں ہوتا۔
####
عالمی شہرت یافتہ بھارتی ستار نواز پنڈت روی شنکر چل بسے، ان کی عمر 92 برس تھی، امریکی ریاست کیلے فورنیا میں مقیم تھے،
ستار ایک ایسا ساز ہے کہ جوں جوں رات ڈھلتی ہے اس کے سُر اٹھتے ہیں، اور آسمان کی بلندیوں کو چھو لیتے ہیں، بالخصوص جب اس پر راگ مالکونس بجایا جائے تو پھر اس کے تار دل کے تاروں کو بھی چھیڑ دیتے ہیں، ستار ایسا ساز ہے کہ یہ اپنی خصوصیات اپنے سازندے کی روح میں اتار دیتا ہے، رومی نے شاید اسی کے لئے کہا تھا
خشک تار و خشک چوب و خشک پوست
از کجا می آید ایں آواز دوست
(خشک تاریں ہیں، خشک لکڑی ہے، خشک چمڑا ہے پھر یہ آواز دوست کہاں سے آتی ہے) ساز کوئی بھی ہو اگر بجانے والے کو اس سے عشق ہو اور وہ اس کو نغمہ سنج کرے تو سازندے کی عمر طویل ہو جاتی ہے، اور اس کے اندر کے کئی روگ بھی ساز کی بدولت ساز ہو جاتے ہیں، روی شنکر جب ستار کے تار چھیڑتے تھے تو وہ دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو جاتے، ستار میں طوطی شکر مقال خسرو نے ایک تار کا اضافہ کر دیا تھا، اور اس سے یہ ساز دو آتشہ ہو گیا۔ ستا ر کی آواز میں پے در پے سوالات پوشیدہ ہیں، جب وہ بجتا ہے تو جیسے کچھ پوچھ رہا ہو، اور اس کو جواب نہیں ملتا، اس کی دھن اس کے سُر ستار نواز کے دل میں موجود ہوتے ہیں، وہی انہیں اپنا آلہ کار بنا کر دل کی باتیں کانوں تک پہنچاتا ہے، اور 92 برس ستار بجا بجا کر گویا روی شنکر نے اپنے اس دلربا ساز کے ذریعے ہی پوچھا ہو گا۔
سرِ من از نالہٴ من دور نیست
لیک چشم و گوش را آں نور نیست
(میرے دل کا راز میری فریاد سے دور نہیں لیکن آنکھ اور کان میں وہ نور کہاں کہ جان سکے) روی شنکر کے جانے سے ستار نوازی کے فن میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ پُر نہ ہو سکے گا، اور ان کا ستار بھی رو رو کر کہتا ہو گا
شنکر تیری یاد میں نین ہوئے بے چین!
####
تازہ ترین