• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اگرچہ مشکل حالات میں حکومت سنبھالی ہے تاہم چند ماہ میں عوام کو تمام شعبوں میں مثبت تبدیلی نظر آئے گی۔ وہ منگل کے روز پرائم منسٹر آفس اسلام آباد میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی سے ملاقات کے دوران یہ جملے ادا کررہے تھے تو گفتگو اگرچہ شہر قائد کے مسائل تک محدود رہی مگر ان کے ذہن میں وطن عزیز کی مجموعی معاشی زبوں حالی، امن و امان کی صورتحال، رشوت و بدعنوانی، ٹیکسوں کی ادائیگی سے اجتناب سمیت وہ تمام امور رہے ہوں گے جو غیرملکی استعمار کی رخصت کے بعد سات عشروں میں آزادی کے ثمرات کے منتظر عوام کے مصائب میں اضافے کا موجب بنے۔ اس دوران ایسے ادوار بھی آئے جب اپنی قیادت پر اعتماد کی بدولت عوام مشکلات میں بھی اچھے وقتوں کے آثار دیکھتے اور خوش ہوتے رہے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں لٹے پٹے مہاجرین کی بڑی تعداد کی آمد جیسی گمبھیر صورتحال اور خزانہ خالی ہونے کے باوجود قیادت نے جس تدبر سے کاروبار مملکت چلایا اور سرکاری ملازمین سمیت ہر طبقے کے لوگوں نے جس طرح اپنے رہنمائوں سے تعاون کیا، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ قیادت مخلص ہو، عوام اس کی دیانت و امانت پر بھروسہ رکھتے ہوں اور وہ اہم امور پر عام لوگوں کو اعتماد میں لیتی ہو تو قدرت بھی مہربان ہوتی ہے۔ کچھ عرصے بعد روزگار اور ترقی کے ایسے مواقع پیدا ہوئے کہ یہ ملک بحری جہازوں کی مرمت اور تیاری کے علاوہ ریل کے ڈبوں اور انجنوں کی تیاری و برآمد کرتا نظر آیا اور آج کے ایک ترقی یافتہ ملک کو قرض فراہم کرنے کا ذریعہ بھی بنا۔ مگر یہ اس وقت تک کی باتیں ہیں جب تک قیادت ملک کے مفادات کیلئے اپنی جائز ضرورتوں کو بھی تج کرتی رہی اور کِک بیک کلچر کا رواج نہ ہوا تھا ۔ چنانچہ اس ملک میں سرکاری اسکولوں کا معیار ایسا رہا جن میں پڑھنے والوں نے دنیا بھر میں نام کمایا، پی آئی ڈی سی جیسے اداروں نے صنعتی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا، زرعی پیداوار ملکی ضروریات پوری کرنے کے بعد برآمدات کی صورت میں زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ بنی رہی۔ ان باتوں کو دہرانے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ گڈ گورننس ہو اور عوام و قیادت ایک دوسرے سے ہم آہنگی رکھتے ہوں تو وسائل کی کمی کے باوجود ترقی و خوشحالی کا سفر خوش اسلوبی سے طے ہوسکتا ہے۔ آج وطن عزیز میں ریلوے، پاکستان اسٹیل ملز، قومی ائیر لائن سمیت اداروں کے زوال، سرکاری محکموں میں رشوت و بدعنوانی اور مختلف شعبوں میں افراتفری کی جو کیفیت نظر آرہی ہے، اس کی بڑی وجہ گورننس کے معاملے میں برسوں سے برتی گئی وہ دانستہ یا نادانستہ غفلت ہے جو قوانین کے بلاامتیاز اطلاق سے گریز اور میرٹ کی پامالی کی صورت میں نظر آئی۔ بسوں میں سگریٹ نوشی کی ممانعت کے قانون اور ٹریفک ضابطوں کی پابندی سے صرف نظر کا سلسلہ دراز ہوتے ہوتے اس مقام تک جاپہنچا ہے کہ زمینوں پر بے دھڑک قبضے ہورہے ہیں، تجاوزات گرائے جانے کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جارہا ہے، جگہ جگہ غیرقانونی چنگی ناکے اور غیرقانونی چارجڈ پارکنگ کے سلسلے نظر آرہے ہیں۔ جس معاشرے میں قواعد و ضوابط کے اطلاق میں غفلت یا امتیاز سے کام لیا جاتا ہے وہاں نہ صرف جرائم روزمرہ کا معمول بن جاتے ہیں بلکہ دہشت گردوں اور وطن فروشوں کیلئے بھی فضا سازگار ہوجاتی ہے۔ اب جبکہ ہماری مسلح افواج وطن عزیز میں دہشت گردی کے عفریت کو آخری انجام تک لے جاچکی ہیں اور منگل کے روز منعقدہ کور کمانڈرز کانفرنس کا یہ عزم بھی سامنے آچکا ہے کہ قانون کی حکمرانی اور ریاست کی رٹ یقینی بنانے کیلئے تمام ریاستی اداروں کی حمایت جاری رکھی جائے گی تو موجودہ سویلین قیادت کو اس مثالی صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ سپریم کورٹ پہلے ہی آئینی و قانونی بالادستی کی سمت قابل قدر پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہے۔ موجودہ حکومت نے ریاستی رٹ اور قانون کی حکمرانی کے اصول پر سختی سے عمل کیا تو ملکی ترقی و خوشحالی کا سفر تیزتر ہوجائے گا۔

تازہ ترین