• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا بات واقعی محض اتنی سی ہے کہ جدید مصر کی ساٹھ سالہ تاریخ کے پہلے منتخب اور مقبول عوامی جمہوری صدر ڈاکٹر محمد مرسی کو یکایک آمرانہ اختیارات حاصل کرنے کا شوق چر ّ ایا اور ان کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا؟ حقیقت تک پہنچنے کے لئے واقعات کا کچھ گہرا تجزیہ درکار ہے۔ مصر عرب دنیا کا اہم ترین ملک ہے۔ پاکستان اور کئی دوسرے مسلم ملکوں کی طرح یہاں بھی بین الاقوامی اور عالمی طاقتوں کے درمیان اپنے اپنے مفادات کے لئے رسہ کشی جاری ہے۔ مسلمان ملکوں میں جمہوریت کے ساتھ اسلام کی آمد کے واضح امکانات ”تہذیبوں کے تصادم“ کے نظریئے کی علمبردار اور اس تصادم میں اسلام کو مغربی تہذیب کا واحد حریف قرار دینے والی مغربی دنیا میں ہمیشہ خطرے کی گھنٹیاں بجا دینے کا سبب بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں جمہوریت کے فروغ کے دعویدار امریکی اور مغربی حکمراں مسلم ملکوں میں مطلق العنان اور جابر و ظالم آمروں کے سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ ایران میں ڈاکٹر مصدق کی منتخب حکومت کے مقابلے میں رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت کی حمایت سے لے کر مصر میں حسنی مبارک کی تیس سال سرپرستی تک اس حقیقت کی بہت سی ناقابل تردید مثالیں موجود ہیں۔ الجزائر میں پارلیمنٹ کی80 فی صد نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے والے اسلامک سالویشن فرنٹ کے مقابلے میں فرنٹ کے وابستگان کے قتل عام کے لئے فوجی آمریت سے تعاون اورفلسطین میں حماس کی دوتہائی نشستوں پر کامیابی کے باوجود اس کی حکومت کے خاتمے کے لئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے ہر ممکن ہتھکنڈے کا اختیار کیا جانا، اسی شرمناک داستان کے مختلف ابواب ہیں۔ پاکستان میں 2008ء کے انتخابات میں جب متحدہ مجلس عمل کی پے درپے کامیابیوں کی خبریں ٹی وی چینلوں پر آرہی تھیں، اس دوران ملک کے مقبول ترین چینل نے امریکہ میں اپنے نمائندے سے جب ان نتائج پر امریکہ کے سرکاری حلقوں کا ردعمل جاننا چاہا تو انہوں نے کہا کہ وہ فی الوقت حالات کو دیکھ رہے ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ نتائج ان کے لئے سازگار نہ ہوئے تو ان کے پاس الجزائر آپشن موجود ہے۔ اس سے بہت پہلے1956ء میں ملک میں پہلے دستور کے نفاذ کے بعد جب فروری1959ء میں پہلے عام انتخابات کرانے کا فیصلہ ہوا تھا، تو ملک کے معروف بیوروکریٹ روئیداد خان کے بقول ایوب خان نے امریکہ کی ہدایت پر ملک میں مارشل لا لگایا اور دستور منسوخ کیا تھا۔ یہ بات انہوں نے اپنی کتاب ”پاکستان۔ اے ڈریم گون سور“ (پاکستان۔ ایک خواب جس کی تعبیر تلخ رہی) میں لکھی ہے۔ امریکہ کی اس ہدایت کی ایک بڑی وجہ بظاہر یہ تھی کہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں ملک کی دینی طاقتوں کی نمائندگی کرنے والی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی نے حیرت انگیز کامیابی حاصل کی تھی۔ مصر کے حالیہ بحران میں بھی…جس کا سربراہ اب امریکہ اور برطانیہ کی تخلیق کردہ ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے غاصب حکمرانوں کے بجائے غزہ کے مظلوم مگر بہادر حریت پسند فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہے…ان عوامل کا بڑا حصہ ہے جو ماضی کے مذکورہ بالا واقعات میں کارفرما رہے ہیں۔ اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ ڈاکٹر محمد مرسی اسلام کی حکمرانی کے خواہشمند مصری عوام کی بھاری اکثریت کے حقیقی نمائندے اور ان کے دلوں کی ترجمانی کرنے والے لیڈر ہیں۔ ان کا تعلق اخوان المسلمون کی سیاسی جماعت فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی سے ہے جس نے پارلیمانی انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کی۔ ڈاکٹر مرسی کو سلفی تحریک کی سیاسی جماعت النور کی مکمل تائید بھی حاصل ہے ، پارلیمانی انتخابات میں اسلامی جماعتوں کو تین چوتھائی اکثریت ملی۔ انتخابات کے بعد پارلیمنٹ میں الوسط اور دوسرے سیاسی گروپوں سے اتحاد کے نتیجے میں صدر مرسی کی حمایت کا تناسب مزید بڑھ گیا۔اس کے باوجودحسنی مبارک دور کی مراعات یافتہ اور کرپٹ باقیات جو آج بھی فوج، بیوروکریسی، خفیہ اداروں، عدلیہ، صنعت کاروں، تاجروں، سرمایہ کاروں اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں موٴثر حیثیت میں موجود ہیں، ان کے لئے عوامی اور جمہوری امنگوں کی تکمیل کا نیا دور قابل قبول نہیں ہے۔ بیشتر مسلم ملکوں کی طرح مصر کے مراعات یافتہ طبقات اسلامی شریعت کی حکمرانی سے خائف ہیں اور سیکولرازم ، لبرل ازم کے نام پر مصری عوام کی امنگوں کی تکمیل کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ ترکی، انڈونیشیا اور کئی مسلم ملکوں کی طرح مصر میں بھی فوج اس عمل میں بنیادی کردار ادا کرتی رہی ہے۔ 1952ء میں شاہ فاروق کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو اسلام دوست جنرل نجیب قائد انقلاب تھے اور اسلامی چہرے اور نفاذ اسلام کی یقین دہانیوں ہی کی وجہ سے اس انقلاب کا عوام نے گرمجوشی سے خیر مقدم کیا تھا مگر جلد ہی قوم پرست نظریات رکھنے والے کرنل ناصر نے جنرل نجیب کو رخصت کرکے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ناصر نے قوم پرستی کا اس حد تک پرچار کیا کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے بجائے ”نحن ابناء الفراعنہ‘ کا نعرہ لگاکر مصری عوام کو فرعونوں کی اولاد قرار دیا اور اس پر فخر کرنے کی تلقین کی۔ پھر انور سادات اور حسنی مبارک کی شکل میں ساٹھ سال تک فوج کے سیکولر عناصر ہی ملک کے سیاہ و سپید کے مالک بنے رہے۔ جمال ناصر نے اسرائیل سے جنگ چھیڑی اور بری طرح شکست کھائی جبکہ سادات نے امریکی حکمرانوں کی خواہشات کے مطابق اسرائیل کو تسلیم کیا اور دوستانہ روابط قائم کئے۔ (جاری ہے)
تازہ ترین