• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبردادخان
پاکستان کو ایک ورکنگ ڈیمو کریسی بننے کے لئے ملک کو آئین اور ملکی قوانین کے وقت پابند کرنا ہوگا پچھلی ایک دہائی کے دوران ریاست پاکستان کو مختلف قسموں کے کئی دھرنوں کا سامنا کرنا پڑا اور اب یہ عالم ہے کہ جب بھی مولویوں یا شرپسندوں کا کوئی گروہ چاہتا ہے پرتشدد دھرنوں کے ذریعہ ملکی نظام حیات کو ٹریفک وغیرہ بلاک کرکے مفلوج کرکے رکھ دیتا ہے جس کا مظاہرہ ایک مذہبی تنظیم کے حالیہ دھرنے میں دیکھا گیا۔ حالات اتنے پر تشدد اور تشویشناک بنادیئے گئے کہ وزیراعظم کو ایک مضبوط اور بامعنی خطاب کرنا پڑا جسے قوم کے تمام حصوں نے سراہا۔ تب ہی کہیں گفت وشنید کا ماحول بنا اور بلاآخر دھرنا ختم ہوا۔90کی دہائی میں افغانستان میں چلتی جنگ میں ڈالر نے جس طرح خطہ کی سیاست کو متاثر کیا اور جن پر تشدد رجحانات کو پروان چڑھا یا کئی برس گزر جانے کےبعد آج بھی یہ اثرات پاکستانی اور افغانی معاشرہ کو متاثر کیے ہوئےہیں۔ مذہب کا لسانی اورعلاقائی بنیادوں کے علاوہ فرقوں میں بٹ جانا اور ایک دوسرے کی حیثیت کو تسلیم نہ کرنے کی روش نے جہاں مسلمانوں کے درمیان نفرتوں کے بیج بوئے وہاں کلاشنکوف سے اپنی بات منوانے کے رحجانات خطرناک حد تک مضبوط ہونے کے بعد روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن گئے اور بیس سال پرانے پرامن معاشرہ جہاں صرف مولائے قدوس اور اس کے نبی کے احکامات کو مرکز یت حاصل تھی کو اکھاڑ کر ملکی اور مختلف ناموں سے جو رحجانات متعارف کرائے گئے ان سے پرتشدد اور تقسیم چاہنے والی سوچوں کو اوپر اٹھنے کا ماحول میسر ہوا ہے۔ سیاسی اور مذہبی احتجاج ہماری معاشرت کا حصہ ہیں اور معقول حد کی ایسی کاروائیاں ایک جمہوری معاشرہ کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری بھی ہیں۔ ورنہ سیاسی بادشاہتیں بھی اپنے پنجے مضبوط کرلینے میں دیر نہیں کرتیں اگرچہ دھرنوں کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں مگر جس طرف معاملات بڑھ رہے ہیں حکومت اور معاشرہ کو ملکر اقدامات کرنیکی ضرورت ہے اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اکثر بڑے واقعات کے بعد حکومتوں کے تمام حصے چند ہفتوں کے لئے متحرک ہوکر پھر فراغوش کی نیند سو جاتے ہیں ملک کے اندر انتہا پسندی کی جس لہر نے ہماری زندگیوں کو اپنی تباہ کاریوں کا نشانہ بنارکھا ہے ان سے بے شمار منصوبہ جات اعلانات اور شوکیس پالیسیاں پچھلے چند سالوں میں نمٹنے میں مکمل ناکام پائی گئی ہیں۔ پچھلی حکومت کی قومی سلامتی پالیسی جسے بظاہر تمام جماعتوں کی حمایت حاصل تھی کچھ بھی ڈیلیور نہیں کرسکی۔ حالات جوں کے توں ہیں۔ قومی ایکشن پلان اب ایک غیر متعلق ڈاکومنٹ بن چکا ہے۔ ہماری ان قومی ناکامیوں کی وجوہات تلاش کرنا جہاں اپنی جگہ اہم ہے۔ وہاں ملکی سلامتی کے حوالہ سے پیرا میٹرز کا تعین کرکے ان پہ عمل درآمد یقینی بنانا ایک قومی حکومتی اور معاشرتی ذمہ داری ہے۔ جسے حکومتی سرپرستی اور رہنمائی کے بغیر ممکن نہیں بنایاجاسکتا ہر ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے قوانین اور سٹرکچر موجود ہیں۔ مگر ہم بحیثیت قوم اور ذمہ داران صرف ایسی موجودگی کو ہی کافی تسلیم کرلینے کے عادی ہوچکےہیں۔ حالیہ قومی سلامتی پلان کی ناکامی یہی ثابت کرتی ہے کہ ہر حکومت نشتند، گفتند وبرخاستر سے آگے نہیں بڑھ پاتی، اور جو پالیسیاں مہینوں میں نافذ العمل ہوجانی چاہئیں وہ چند سال گزرجانے کے بعد بھی حتمی اور قابل عملی صورت اختیار نہیں کرپاتیں۔ ایسا ہم کیوں نہیں کرپاتے، ایک اہم سیاسی اورمعاشرتی سوال ہے بیورو کریسی کو اپنے طرز عمل کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس صورتحال کا جواب تلاش کئے بغیر حالات میں بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی، دوسری طرف ہماری قومی زندگی میں اس طرح کے خلا کی موجودگی بھی ایک خوفناک تصویر پیش کرتی ہے اس حکومت کو بھی کام کرنے میں بیورو کریسی کی طرف سے مشکلات کا سامنا ہے۔ معاشی حالات بھی ٹھیک نہیں ہیں۔ ہمدرد ممالک سے مالی تعاون مانگا جارہا ہے باہمی برداشت اور ہم آہنگی کا بھی فقدان ہے غیر ہمدرد ممالک ہماری راہ میں رکاوٹیں پیدا کررہےہیں تو ان حالات میں وہ کیا اقدامات ہیں جو حکومت خود اٹھا سکتی ہے اور جو ہم معاشرتی طور پر اٹھا سکتے ہیں کہ ملک میں اعتماد اور سکون کا ماحول ابھرسکے، حکومت کی ناتجربہ کاری اپنی جگہ مگر اسے خود کو اپنے بائیس سالہ اپوزیشن مولڈ سے باہر لاکر ایک معتمد حکومت کا تاثر ابھارنا چاہئے۔ قومی سلامتی کونسل ایک ایسا معتبر ریاستی ادارہ ہے جس پر ملکی امور کے حوالہ سے اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔آج ملک جس بحران سے گزررہا ہے اس سے نمٹنے کے لئے اس غیر سیاسی ادارہ کو اہم معاملات میں زیادہ فعال نظر آنا چاہئے۔ اس کے اجلاسوں کی جورپورٹس سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں ان سے اس ادارہ کی تمام صورتحال سے Aloofnessکی تصویر ابھرتی ہے اگر یہ ادارہ بھی ملکی معاملات میں بہتری لانے کے لئے زیادہ متحرک نہیں دکھائی دے گا تو علم نہیں پاکستان آگے کس طرح بڑھ پائے گا۔ کسی عملدرآمد کمیشن کو حکومتی احکامات پر عمل کو یقینی بنانے کے لئے جلد سامنے آنا چاہئے۔ سیاسی لحاظ سے جماعتوں میں حقیقت پسندی کے بڑھتے رجحانات قوم کے لئے اچھی خبر نہیں۔ طویل سیاسی مباحثوں کے بعد اگر سیاسی کرداروں نے اپنے لئے پیرا میٹرز متعین کرلیے ہیں اور لوگ ملک کو مزید غیر مستحکم کرنے کی راہ پر نہیں چل رہے ہیں تو اس سے اچھی جمہوریت پنپنے میں مدد ملے گی اور ملکی امیج بہتر ہوگا حکومت کو درپیش مشکلات خواہ وہ جس بھی حوالہ سے ہوں اور جو کچھ اقدامات پر اپنے دیئے گئے منشور کے حوالہ سے کرچکے ہیں کو اپنی 100دن حکومت والی قومی رپورٹ کا حصہ بنائے مذہبی جنونیت کو کنٹرول کرنا اور قوانین پر عملدرآمد کروانے کی خو ڈالنا حکومت کی دو اہم Priortiesہیں۔ قادری اور آسیہ بی بی کیسز میں عدالت عالیہ کے فیصلوں پر جس طرح کا رویہ مولویوں  کے ایک طبقہ نے اپنایا وہ بفاوت کے زمرہ میں بھی آتا ہے اور توہین عدالت بھی بنتی ہے ہر معاشرہ کو چلنے کے لئے عدالتی احکامات کو ماننا نہایت اہم ہے ورنہ ریاست کا تصور ہی نیست ونابود ہوجاتا ہے یقیناً ایک نیو کلیئر پاکستان کو اس طرف نہیں بڑھنے دیاجاسکتا مدارس اورمساجد کی دینی اور اخلاقی خدمات سے کسی کو بھی انکار نہیں مگر مولویوں کا یہ گروپ گھیرائو ، جلائو کا ماحول پیدا کرکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے تو ایسے احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ پاکستانی عوام ریاستی رٹ کے معاملہ پر ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والے آخر کس کے ایجنڈے کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں ایک اہم معاشرتی سوال ہے۔ ایک معتدل پاکستان جہاں اقلیتیں محفوظ ہیں جہاں مذہبی آزادی ہے جہاں ہم مذہبی آزادی کو دشمنیوں میں نہیں بدلتے یہی عمران خان کا پاکستان ہے۔ یہ ماحول پیدا کرنا جتنا پسندیدہ عمل ہے وہاں اتنا ہی مشکل بھی ہے۔ حکومت باعمل عالموں کے ہر صوبہ کی سطح پر اجتماعات منعقد کروائے۔جہاں سے اجتہادی اسلامی کی بات آگے بڑھائی جائے اور جہاں سے ملکی آئین اور قانون کے تابع زندگی گزارنے کی تلقین ہو اور جہاں سے پاکستان سے محبت کے پیغامات لوگوں تک پہنچ سکیں۔ ایک ایسی لانگ ٹرم کوشش ہوگی جس کے مستقبل میں مثبت نتائج سے قوم مستفید ہوسکے گی۔ ریاستی رٹ کو تسلیم کرنا اور ذمہ داران کے لئے اس رٹ کو قائم کروانا ذہنی اور عملی اقدامات ہیں اور دونوں کا ایک ساتھ چلنے سے ہی ایک مضبوط پاکستان ابھرنے میں مدد مل سکے گی۔ اللہ ہمارا حامی وناصر رہے۔
تازہ ترین